Conscience، جس کا ترجمہ ہم ضمیر کرتے اور لکھتے ہیں‘ دو لفظوں کا مجموعہ ہے؛ ایک Conاور دوسرا Science۔ پہلا حصہ سنسکرت یا پنجابی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے علیحدہ کرنا اور دوسرا وہی سائنس‘ یعنی جاننا اور ایک منظم طریقے سے جاننا۔ بنیادی طور یہ دو اطالوی الفاظ Com اور Scire ہیں‘ ان کا بھی وہی مطلب ہے کہ جو باضمیر کا ہوتا ہے کہ وہ بھی سب سے الگ ہوتا ہے۔ اننت ناگ کے شبیر شاہ کو بھی ضمیر اور حق کا قیدی کہا جاتا ہے۔ اننت ناگ میں جنم لینے والا اور تہاڑ جیل میں قید شبیر شاہ۔
انہیں حق کی آواز‘ ضمیر کا قیدی اور کشمیر کا نیلسن منڈیلا کہا جاتا ہے۔ حنا زبیری نے 21 اگست کو ان کے بارے میں ایک ویبینار کا اہتمام کیا کہ اسی دن شبیر شاہ کے کیس کی شنوائی تھی۔ ان کی بیٹی سحر شبیر شاہ ٹویٹر پر بھی ہیں اور ''فری شبیر شاہ‘‘ تحریک کی روحِ رواں ہیں۔ اس ویبینار میں وہ باتیں‘ جو تلخ تھیں‘ مہارت سے سہولت کے ساتھ بیان ہو گئیں۔ بات کرنا ایک آرٹ ہے‘ خوبصورت بات کرنا بڑا آرٹ۔ کسی بادشاہ کی کہانی مشہور ہے کہ اس کا دربار لگا ہوا تھا، وہی جو بادشاہ کے لیے چار شخصیات ضروری سمجھی گئی ہیں‘ وہ بھی دربار میں موجود تھیں؛ یعنی دبیر (دانا وزیر)، شاعر، نجومی اور طبیب۔ فی زمانہ تو دبیر الملک کی ہی ضرورت ہے باقی تو درباروں اور حکومتوں سے قصۂ پارینہ ہو گئے ہیں۔ یہی خوبیاں نظامی عروضی سمرقندی نے مجمع النوادر میں ضروری بتائی ہیں۔ ماحول بھی اس قسم کا تھا کہ بادشاہ اپنے مصاحبوں میں گھرا ہوا دنیا وما فیھا سے بے نیاز تھا۔ اس کو ہمارے شاعر بھائی لمبی زندگی کی دعائیں دے رہے تھے۔ کچھ اس کی ذہانت کی داد دے رہے تھے۔ کسی نے کہا: اگلے دس سالوں میں آپ کی سلطنتِ جنت مثال کی سرحدیں کوہ قاف تک پھیل جائیں گی۔ دس سالوں کا سن کر اس نے دربار کے دونوں منجموں کو طلب کیا اور حکم دیا کہ حساب لگا کر بتایا جائے مابدولت کی زندگی کتنی لمبی ہے ؟ چونکہ دونوں منجم اپنے ہنر میں یکتا تھے‘ دونوں نے ایک ہی قیافہ لگایا۔ پہلا جو چرب زبان تھا‘ کہنے لگا: حضور کا اقبال بلند ہو‘ عمر تو لمبی ہے مگر آپ کے سارے عزیز رشتہ دار آپ کے سامنے مار دیے جائیں گے۔ بادشاہ جلال میں آیا اور گردن زدنی کا حکم دیا۔ دوسرے منجم کو بلایا اور سوال دہرایا وہ اپنے پیٹی بھائی کا انجام دیکھ چکا تھا۔ اس نے اسی بات کو اپنے ڈھنگ سے بیان کیا اور کہا بادشاہ سلامت کا اقبال سدا بلند ہو‘ آپ ایک طویل عمر پائیں گے اور اپنے عزیزواقارب میں سب سے زیادہ عمر تک جئیں گے۔ اس نے بادشاہ کی وفات کا معاملہ ہی گول کر دیا۔ یہی شبیر شاہ کے کیس کا معاملہ ہے مگر اس لنک کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ چار ستمبر والا ویبینار سید علی گیلانی کی وفات کی وجہ سے منسوخ ہو گیا۔
پاکستان کے لوگ کشمیر کے حقِ خودارادیت کے لیے ہمیشہ ان کے ساتھ رہے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر کے لیڈروں سے اس قدر واقف نہیں جتنا ان کا حق ہے اور جتنی ان کی جدوجہد ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی لیڈرشپ نے غالباً ان لیڈروں کو اون ہی نہیں کیا۔ زبانی جمع خرچ اور سال میں کشمیر کے نام پر ایک آدھ چھٹی کر کے سمجھ لیا جاتا ہے کہ کشمیریوں کی حمایت کا حق ادا کر دیا‘ نہیں! قطعاً نہیں! جو کشمیر کی آزادی کے لیے جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور جو ان کو لیڈ کر رہے ہیں‘ ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہم تک پہنچتی ہیں۔
The Living Legend in Kashmir History الطاف حسین کی تصنیف ہے جس میں شبیر شاہ کی زندگی اور جدوجہد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کیونکر وہ کشمیر کے نیلسن منڈیلا کہلاتے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی بہت ہے کہ دیباچہ سے پہلے میاں جلال الدین سابق چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے کتاب کے بارے میں اور شبیر شاہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس صاحب نے بتایا کہ شبیر شاہ ڈائیلاگ کا آدمی ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اسے ضمیر کا قیدی قرار دیا ہے۔ یہ کتاب مقبوضہ کشمیر کے اصل مسئلہ کی روح تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔
یوں تو نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ''دہلی سمجھوتا‘‘ہوا تھا مگر بھارتی مکاریوں کو جان کر جب شیخ عبداللہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو اختیار ہے کہ کسی وقت بھی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے‘ تب اس کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ یہ 9 اگست 1953ء کی بات ہے۔ اسی بنیاد پر پُرزور احتجاج شروع ہوا، اس وقت شبیر شاہ ایک‘ دو سال کے تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش تین جنوری 1952ء ہے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ یہ احتجاج جاری ہے۔ نبی کریمﷺ کے موئے مقدس کی چوری کے وقت شبیر شاہ ہوش سنبھال چکے تھے‘ 1968ء میں سولہ سال کی عمر میں جلسے جلوسوں کی وجہ سے شبیر شاہ کو پہلی بار جیل بھیجا گیا۔ مصنف الطاف حسین انہیں طائر ِ زنداں کا لقب دیتے ہیں یعنی Bird of Jail۔ چونکہ انہوں نے حق کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے‘ تبھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا: حق سب سے بڑی طاقت ہے۔ ان کے والد کا بھی پولیس کی حراست میں 4 اپریل 1989ء کو انتقال ہوا تھا۔
اِس وقت ان کی عمر اڑسٹھ سال ہے جس میں سے 32 سال انہوں نے جیل میں کاٹے ہیں۔ کئی بار ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت وہ کئی امراض کا شکار ہیں۔ وہ ایک اصل لیڈر ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: میں شیخ (عبداللہ) نہیں‘ شاہ ہوں، میں مر جائوں گا، اپنی قوم کو دھوکا نہیں دوں گا۔ اس وقت وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جہاں تمام عالمی تنظیموں نے کووڈ کی صورت حال کے پیشِ نظر ان کی پیرول پر رہائی کی اپیل کی ہے۔
ہماری کوشش ہو گی کہ مقبوضہ کشمیر کے اہم رہنمائوں اور ان کی تحریک کے بارے میں گاہے گاہے اپنے قارئین سے کچھ شیئر کرتے رہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ہم مقبوضہ کشمیر کے اردو اخبارات پڑھ رہے ہیں، اس قدر سنسر ہو کر خبریں نکلتی ہیں جیسے وہاں مکمل امن ہے، کسی حریت رہنما کی اصل خبر نہیں چھپتی۔ وہاں کے گورنر کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کچھ شائع ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ستمبر 1965ء کی جنگ سے لے کر اب تک وہاں کسی مسلمان گورنر کا تقرر نہیں ہوا۔ وہاں زیادہ تر آئی سی ایس اور آرمی افسران ہی گورنر لگائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بھارتی حکومت کے خبث ِ باطن کو ظاہر کرتا ہے۔ حافظ آباد میں پیدا ہونے والے جگموہن ملہوترا کئی کتابوں کے مصنف اور مقبوضہ وادی کے سابق گورنر ہیں۔ سارک کانفرنس کے موقع پر ان کی کتاب My Frozen Turbulence in Kashmir کا اردو ایڈیشن ہمارے دوست نریندر ناتھ سوز نے ہمیں دلّی میں عنایت کیا تھا۔ اس کے اب تک پچیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بھی دانشورانہ صداقت سے کام لیتے ہوئے اس سرزمین کو A land without Justice کا نام دیا۔ عدم انصاف کی سر زمین۔
کوئی سیاست دان ضمیر کے قیدی‘ اب اپنے ملک میں نہیں ملنے والے۔ ایک بھی نہیں۔ کبھی باچا خان اصغر خان اور پلیجو ہوتے تھے‘ اب سارے یہاں چوہا دوڑ کے کھلاڑی ہیں۔ بنگلہ دیش ہم سے بیس سال آگے ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی منزلیں مار رہا ہے۔ وہاں لیڈر اپنے نظریے کے نام پر اب بھی پھانسیوں پر جھول رہے ہیں اور ریزرو بھی بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے بہت تلاش کیا کہ کیا پاکستان میں کوئی سیاستدان ضمیر کا قیدی ہے ؟نہیں‘ ایک بھی نہیں۔ کاش اپنے ملک میں بھی کوئی حق کا قیدی ہوتا‘ جس کا ہم بھی ریفرنس دیتے، اس پر کالم لکھتے، شاعر اس پر نظمیں لکھتے، کاش! اے کاش!