پی ایچ ڈی

کارل وٹ (Karl Witte)جرمنی کے شہر GISSN کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر تیرہ برس اور چند ماہ تھی جب اس نے ڈاکٹریٹ کی تھی۔ ایسا ریکارڈ جو دنیا کے کسی آدمی کے پاس نہیں ہے۔ کیا نوجوان‘ کیا جوان اور کیا بوڑھا۔ پوری دنیا کے تعلیم کے عشاق اور اساتذہ اس پر نازاں ہیں۔ محض تیرہ سال کی عمر میں اس نے ڈاکٹریٹ کر لی۔ وہی نوجوان عظیم شاعر دانتے پر بہت کام کرنے والا‘ اور سند بننے والا۔ اسی پر بس نہیں‘ تیس سال کی عمر میں اس نے ایک اور بھی ڈاکٹریٹ کی۔ اس بار اس نے قانون کا میدان چنا تھا۔ تب وہ برلن یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ دس سال کی عمر سے پہلے ہی وہ ہفت زبان ہو چکا تھا۔
وہی ڈاکٹریٹ‘ جس کو پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے اور جس کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے والے‘ بلا تفریق غیرے‘ تمام کے تمام‘ فیل قرار پائے ہیں۔ کارل وٹ سے اعزاز تو کوئی مغرب میں بھی نہیں چھین سکا مگر جو اعزاز پنجاب یونیورسٹی میں انٹری ٹیسٹ میں ناکام اور فیل ہونے والوں نے بنایا ہے‘ یہ بھی شاید ہی کوئی ملک پاکستان سے چھین سکے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ واویلا مچایا گیا کہ سوال ہی خارج از نصاب تھے۔ کوئی پوچھے انٹری ٹیسٹ کا کیا نصاب ہوتا ہے؟ طرفہ تماشا کہ نمونے کے طور پر پی ایچ ڈی کے انٹری ٹیسٹ کے پرچہ جات اور کس قسم کے سوالات ہوتے ہیں‘ سب کو معلوم تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کے خواہشمند مقابلے کے امتحانات کے معیار سے کم نہیں ہوتے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کرنے کے خواہش مندوں کی ذہانت کا معیار ان سے کسی طور کم نہیں ہوتا۔ ثانیاً خارج از نصاب کہنا تو خود انتہائی نامناسب عذر ہے۔ اس ٹیسٹ میں کس قسم کے سوال متوقع یا پوچھے جانے کے امکانات تھے‘اس کی نوعیت بھی ظاہر و باہر ہے۔ ایک سیمپل یا متوقع سوالنامہ کیسا ہو سکتا ہے‘ سب کے علم میں تھا۔
اس سوالنامے کے پانچ متوقع حصہ جات ہیں۔ پہلا حصہ جی پی پی یعنی گورنمنٹ اینڈ جنرل پالیسی، اس میں گورننس کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل، پالیسی ریسرچ اور ملک میں شعبۂ زراعت کی پسماندگی اور دنیا سے پیچھے رہ جانے کی وجوہات اور اس شعبہ کی اہمیت کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔ دوسرے حصہ جو پی سی ایس یعنی پالیسی اور کنفلکٹ سٹیڈیز ہے‘ اس میں درج ذیل ٹاپ کے سوال پوچھے جا سکتے ہیں؛ پاکستان میں امن کے لیے حکومت کو کیا اور کس قسم کے اقدامات کرنا چاہئیں، کیا پاکستان کی معاشی ترقی اندرونی طور پر مستحکم اور پُرامن پاکستان کے مرہونِ منت ہے؟ پاکستان کے سکیورٹی مسائل کیا ہیں؟ سرحدوں کی صورتِ حال کیا ہے‘ اس کے تدارک کے لیے کس قسم کا لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے؟ کوئی پوچھے کہ اس سوالات میں کون سی راکٹ سائنس تھی؟
تیسرے حصے ایس ایس یعنی سٹریٹیجک سٹڈیز میں سی پیک کی اہمیت اس کے ممکنہ مستقبل کی صورت، اس کی مشکلات‘ جنوبی ایشیا میں اس کی کامیابی کے امکانات، پاکستان کے تناظر میں اس کی کامیابی اور یہ منصوبہ پاکستان کے مستقبل کے لیے کتنا سودمند ثابت ہو سکتا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ NSG یعنی نیوکلیئر سپلائی گروپ کو پاکستان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا چاہیے جو اس کا بھارت کے ساتھ ہے؟ بھارت کی اس خود ساختہ گروپ میں شمولیت جنوبی ایشیا کے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے؟ اس خطے میں چین بمقابلہ امریکا‘ کس کے مفادات پر ضرب پڑتی دکھائی دے رہی ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ زمین کی پلیٹیں جنوبی ایشیا سے ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کھسک رہی ہیں؟ سوالنامے کا چوتھا بین الاقوامی تعلقات کا متوقع حصہ یوں ہے کہ سٹرکچرل ریئلزم کیا ہے؟ریسرچ ڈیزائن کیا ہے؟ اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی کیا اہمیت ہے‘ اپنا ذاتی نقطہ نظر بتائیے؟ اور آخری اور پانچواں حصے جس کا نام LMS یعنی لیڈر اینڈ مینجمنٹ سٹیڈیز ہے‘ میں باقی چار حصوں کی طرح اسی قسم کے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں کہ سٹریٹیجک مینجمنٹ کیا ہے‘ لیڈر کی خصوصیات کیا ہیں‘ لیڈرشپ کے کوچنگ سٹائل یا طریقے ہیں‘ لیڈرشپ کے مسائل کیا ہیں؟
ہر حصے میں تین سوال ہوتے ہیں جن میں سے دو کو اٹیمپٹ کرنا ضروری ہے۔ یہ ٹیسٹ‘ جو پنجاب یونیورسٹی نے لیا تھا‘ اس میں ایک سو تیس طلبہ نے شرکت کی اور تمام کے تمام فیل قرار دیے گئے۔ سچی بات یہ ہے کہ سوال یا موضوع اتنے مشکل نہیں کہ ان کو آئوٹ آف کورس قرار دیا جائے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کے خواہشمندوں سے اسی قسم کے سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔ کیا ڈاکٹریٹ کے سوالوں کا معیار مقابلے کے امتحانات سے کم تر ہونا چاہیے؟ نہیں! ہر گز نہیں! دھیان میں رہنا چاہیے کہ یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں بھی کامیابی کی شرح انتہائی کم ہے اور دو‘ دوبار، تین‘ تین بار شریک ہونے کے بعد ہی کسی اچھے محکمے میں ایلوکیشن ہو پاتی ہے اور اس دوران چھان بورا الگ کیا جاتا ہے۔ تین سے چار لاکھ امیدواروں میں سے دو‘ سو تین سو تحریری امتحان پاس کرتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک تہائی انٹرویو کی چھلنی سے نیچے گر جاتے ہیں۔ ان کی کامیابی کی شرح بھی کم ہے اور پانچ سات فیصد کے قریب ہے۔ لگتا ہے کہ ان پی ایچ ڈی کے امیدواروں نے وہی سوال ذہن میں رکھے ہوں گے جو عام فہم ہیں ؛مثلاً اردو میں ڈاکٹریٹ کرنے والا یہی چاہتا ہو گا کہ اس سے پوچھا جائے کہ میرؔ کے کلام یا غالبؔ کی غزلوں پر نوٹ لکھیں۔ شکوہ‘ جوابِ شکوہ علامہ اقبال نے کب لکھیں؟ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کا نام بتائیے؟ یا پانچ‘ سات مشہور افسانہ نگاروں کے نام اور ان کی انفرادیت بتائیے۔
اس وقت پی ایچ ڈی کے اساتذہ (استثنا بہر حال ہے، تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں انتہائی قابل اور اپنے شعبے کے سائنس دان بھی موجود ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے) کی حالت قابلِ رشک نہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے اور کرانے والے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ایم فل کا ریٹ پچاس ہزار سے شروع ہو کر لاکھ‘ ڈیڑھ لاکھ اور پی ایچ ڈی کے لیے سلسلہ‘ یا بولی کہیے‘ تین لاکھ سے شروع ہوتی ہے۔ یہیں ایک فوٹو کاپی کرنے والا ہے‘ سارے اس کے نام سے واقف ہیں وہ پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے پورا تھیسز تیار کر کے دے دیتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ڈین اور پروفیسرزاس کے نام سے ہی واقف نہیں‘ کام سے بھی خوب واقف ہیں۔ عین شہر کے مرکز میں ایسے اور بھی لوگ ہوں گے۔
یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ ترجمان پنجاب یونیورسٹی نے کہا ہے کہ اب دوبارہ اشتہار دے کر سارا طریقہ کار دہرایا جائے گا اور پھر انٹری ٹیسٹ منعقد ہوں گے تاکہ امیدوار کامیاب ہوں اور ڈاکٹریٹ کے کورسز شروع ہوسکیں اور اس میں تین ماہ تک کا وقت درکار ہوگا۔ سوالیہ پرچے بھی دوبارہ تیار کیے جائیں گے لیکن طریقے میں نرمی وغیرہ کا کوئی چانس نہیں کیونکہ جامعہ کی پالیسی کے مطابق ہی انٹری ٹیسٹ لینے کے پابند ہیں۔ یہ اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہے‘ اس پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت جی سی یو میں ایم فل کرنے والوں کو چالیس ہزار اور ڈاکٹریٹ کرنے والوں کو ساٹھ ہزار ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ فیس کی معافی اس سے الگ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کو مبارکباد اور شاباش ہے کہ اس کے اس اقدام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کوئی تو منصور اس معاشرے میں ہے جس نے سولی کو ہنس کر چوم لیا ہے۔ کسی قسم کی رو رعایت دینے سے انکار ہے۔ دوبارہ امتحان ہو سکتے ہیں‘ سوالنامہ بھی اسی نوعیت کا ہوگا۔ فیل ہونے والے جانتے ہیں کہ سی ایس ایس کرنے والے یونہی کامیاب نہیں ہو جاتے۔ برسوں کی نیندیں تجنا پڑتی ہیں اور راتوں کو جاگنا پڑتا ہے۔ لیری پیچ کے گوگل کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ لیری پیج تب یونیورسٹی میں ہی تھا جب اس کو مختلف یونیوسٹیوں میں جا کر کتابیں پڑھنا پڑیں۔ تبھی اس نے ایک روسی کلاس فیلو کے ساتھ مل کر یہ نعمت خانہ مرتب کیا۔ جی میل بھی اسی کی پروڈکٹ ہے۔
بہر حال شعبہ ریاضی پنجاب یونیورسٹی میں پانچ طلبہ نے کامیاب ہو کر ثابت کر دیا ہے کہ ٹیسٹ کے آئوٹ آف کورس کا بہانہ محض بہانہ ہے۔ فیل ہونے والوں میں جوہرِقابل تھا ہی نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں