''زندہ رُود‘‘ علامہ کا اپنا منتخب اور اختیار کیا ہوا نام ہے جو انہوں نے جاوید نامہ لکھتے ہوئے اختیار کیا۔ جاوید نامہ کے لکھنے کے بعد ہی انہوں نے کہا کہ ان کی تخلیقی قوتیں اس کتاب نے نچوڑ لی ہیں۔ ہماری پسندیدہ کتاب بھی جاوید نامہ ہی ہے۔ بہت سوں نے شاید اقبال ؔکا سارا کلام پڑھا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم تو اس قابل نہیں کہ کوئی دعویٰ کر سکیں‘ یا ان کے کلام کو پوری طرح سمجھنے کا کہہ سکیں۔ ان کا کام اور مقام سیاست، مذہب، معاشرت اور تہذیب‘ کسی بھی پیمانے پر پرکھ لیں‘ پوری طرح ہم ایسوں کی سمجھ میں آنے والا نہیں۔ بعض صرف ان کا کلام یاد کر کے ''ماہرِ اقبال‘‘ بن جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ وہ ان کے کلام سے پوری طرح واقف بھی ہیں۔
اقبال کی سوچ چونکہ بہت اعلیٰ و ارفع تھی اور اللہ کی ذات بھی ان پر بہت مہربان تھی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا‘ دنیا کا تمام ادب اور دوسرے علوم ان کی نظرِ عمیق سے گزرے تھے۔ شاعری کی نعمت انہیں ایسے ودیعت ہوئی کہ قربان ہو جائیے ایک ایک ترکیب پر‘ ایک ایک مصرع پر۔ مصارع ہیں کہ ست رنگے موتی۔
پھر نظم یا بند کا اختتام ایسے کرتے ہیں کہ سارا مقصد سامنے آ جاتا ہے۔ قاری شعر کے مطالب اور الفاظ کے شکوہ میں گم ہو جاتا ہے۔ اقبالؔ جیسا شاعر شاید ہی اب اردو زبان کو نصیب ہو کہ ایک صدی ہونے کو ہے‘ ایسی عالمگیر ادبی شخصیت اردو زبان کو نہیں نصیب ہوئی۔ ادبی دنیا میں جتنا کام اور جتنی تحقیق ان کی زندگی اور کلام پر ہوئی ہے‘ اس کی مثال لانا مشکل ہے۔ ان کی شخصیت کی کئی جہات تھیں جن کا احاطہ کرنا کلی طور پر ناممکن ہے۔ جتنا انہوں نے کام کیا ہے اس کی توصیف ہو سکتی ہے مگر اس سارے کام کی جتنی تشریح اور توضیح ہو‘ کم ہے اور لگ بھگ ناممکن ہے۔ یہ ایک سمندر ہے جس نے سارے اردو ادب کو اپنے کنڈل میں لیا ہوا ہے۔ ان پر جتنے اعتراض ہوئے‘ اپنی موت آپ مر گئے اور ان کا مقام بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔ اس بارے میں قطعاً کوئی دوسری رائے نہیں۔ ان کا کل کلام پڑھنے کے بعد ہم ذاتی طور پر اس قابل نہیں کہ کہہ سکیں کہ ان کے پیغام کو ہم نے سمجھ لیا ہے۔ یہ ایسا موتیوں بھرا ساحل ہے جہاں سے ایک آدھ موتی نصیب سے مل جائے تو غنیمت ہے۔ یہ ہماری بلکہ ہر پاکستانی کے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد پہلا شعر یا سب سے پہلی نظم جس شاعر کی سننے کو ملتی ہے‘ وہ شاعرِ مشرق کی ہے۔ بچپن میں ہی ''بچے کی دعا‘‘کے عنوان سے سکول کی اسمبلی میں کورس کی صورت وہ نظم روزانہ سکول میں سنائی اور پڑھائی جاتی ہے۔ وہی نظم جسے سکول کے بچوں کا قومی ترانہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو بچپن میں ہی بچوں کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے اور ساری زندگی یاد رہتی ہے۔ اس نظم کا پیغام بھی زندگی بھر حرزِجان بن جاتا ہے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اتنے آسان لفظوں میں اقبالؔ نے یہ پیغام دیا ہے جو بچوں کی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے اور بچوں کو اس کا مفہوم بار بار کی دہرائی سے بھولتا بھی نہیں۔یوں بچوں کا اقبالؔ سے تعارف ہو جاتا ہے اور ان سے اَن دیکھی محبت بھی ہو جاتی ہے۔ ہر بچہ ان سے ایک رومانس میں بندھ جاتا ہے۔ یہ نظمیہ دعا پاکستان میں ہی نہیں‘ بھارت میں بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے اور سکولوں میں اسمبلی کے دوران کورس کی صورت گائی جاتی ہے۔ بچپن میں جو نظم لہک لہک کر پڑھی جائے اس کا کمال یہ ہے کہ ساری زندگی یاد رہتی ہے۔ یہ چھ شعروں کی مختصر سی نظم ہے جو بچوں کے مزاج اور سمجھ بوجھ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ورنہ طویل نظم بچے کسی صورت یاد بھی نہ کر سکتے اور اس کے سحر میں یوں گرفتار بھی نہ ہوتے۔
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے‘ ضعیفوں سے محبت کرنا
یہ سبق بچہ ساری زندگی حرزِ جان بنائے رکھتا ہے کہ اس میں پیغام کے علاوہ ایک امیج بھی ابھرتا ہے جو بچے کے دل اور دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔ ہم نے بھی یہ نظم وہیں اسمبلی میں یاد کی تھی اور اب بھی یاد ہے۔ مگر نوخیزی اور اٹھتی نوجوانی کے عالم میں اقبال کی ایک اور نظم ہے جو ہمیشہ یاد رہتی ہے ؎
اے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
یہ نظم ''لینن خدا کے حضور میں‘‘ ہے جو بالِ جبریل میں شامل ہے۔ جو عالمِ نوخیزی میں نہ صرف جذبات کو بھڑکاتی ہے بلکہ دنیا میں انصاف اور مساوات پر مبنی نظام ہائے سیاست کی جانب دل کھنچا چلا جاتا ہے۔ چونکہ اس نظم کا متکلم لینن ہے جو خدا کے سامنے اپنی گزارشات پیش کرتا ہے سو لازماً لینن سے قاری کا محبت بھرا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جو اسے اشتراکیت کے جانب اور اس کے مطالعہ کی جانب لے جاتا ہے۔ خود ہم کالج کے زمانے میں بحث مباحثوں میں یہی نظم حوالے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
کارل مارکس ویسے بھی اقبال کا پسندیدہ فلاسفر رہا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیسرا مشیر مارکس کو ان الفاظ میں یاد کرتا ہے:
وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
ویسے اب اقبالؔ کی کتابوں کے ڈھونڈنے اور فہرست تلاش کرنے کے جھنجٹ سے آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ سینکڑوں سائٹس پر ان کا کلام موجود ہے۔ کشافِ الفاظ اقبالؔ کے تحت کوئی نظم، کوئی شعر، کوئی لفظ دیکھنا آسان ہو گیا ہے۔ ان کے کلام کی جتنی شرحیں ہیں‘ وہ بھی نیٹ پر دستیاب پر ہیں۔ نیٹ ویسے اب پری خانہ ہے جہاں جائیں‘ جہاں ہیں‘ یہ خزانہ آپ کے ساتھ ہے۔ نہ ریفرنس تلاش کرنے کی دقت نہ کتابیں ساتھ رکھنے کا تردد۔
ایک نظم ''اشتراکیت‘‘ کے عنوان سے ہے جو ضربِ کلیم میں شامل ہے مگر مدعا اس کا بھی یہی ہے کہ تمام ذرائع پر انسان کو مساوی حقوق حاصل ہیں‘ کسی کو کسی پر برتری نہیں ہے۔ مساوات ہی اسلام کا بنیادی معاشرتی اصول ہے جو معاشرے میں انصاف پیدا کرتا ہے۔ جس معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہو گا وہ معاشرہ زنگ آلود ہو جاتا ہے اور حقوق کی پامالی عوام کو خونیں انقلاب کی طرف لے جاتی ہے۔ لہٰذا بنیادی انصاف کی شرط کے ساتھ تمام عوام کو برابر مواقع مہیا کیے جائیں اور ہر ایک کے لیے جدوجہد اور تگ وتاز کے لیے ایک جیسا ماحول بنیادی شرط ہے۔
جو حرف ''قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
''قل العفو‘‘کا مطلب جب قومیں سمجھ جائیں گی تبھی سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبے گا اور بندہ ٔمزدور کے اوقات سہل ہوں گے۔ تب بچپن میں سکول کی اسمبلی میں یاد کرائی ہوئی دعا کے بھی مفہوم سمجھ میں آئیں گے۔ جیسے پنڈت روی شنکر نے اقبالؔ کا ترانۂ ہندی گایا تھا۔ اسی طرح یہ دعا بھی اے آر رحمن جیسا کوئی کلاکار گائے گا تب ہی اصل مساوات قائم ہونی ہے۔یہ نظم ضربِ کلیم میں شامل ہے اور اس کا پہلا شعر یوں ہے ؎
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ گفتار
اقبال کو سمجھنے کے لیے یہ تین نظمیں ہمارے لیے کافی ہیں کہ یہ بچپن، جوانی اور پختگی کے استعارے بھی ہیں اور سہارے بھی۔