انیس سو اٹھاون میں پاکستان میں پہلا تمغۂ حسنِ کارکردگی عالمی شہرت یافتہ مصور عبدالرحمن چغتائی کو دیا گیا۔ ہر طرف سے داد و تحسین کی گئی۔ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس نے اس فیصلے کی تعریف نہ کی ہو۔ لاہور کے محلہ چابک سواراں کی ایک گلی سے اٹھنے والا اپنے کام کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا تھا۔ اس کے فن پر ہمارے ایک مہربان دوست نے ایک ضخیم کتاب مرتب کی‘ جس میں چغتائی کے فن کی تفہیم بھی کی گئی اور خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔ اقبالؔ نے انہیں صبغۃ اللہ (الٰہی رنگ ) میں غرق ہنرور قرار دیا تھا۔ فیضؔ نے ہی انہیں مصورِ مشرق کہا تھا۔ نصف صدی گزر گئی‘ آج بھی اس انتخاب پر کوئی انگلی رکھے تو جل جائے۔ یہ ساری آپا دھاپی اسّی کے عشرے سے شروع ہوئی اور آج کل اپنی ڈائمنڈ جوبلی منا رہی ہے۔ کیا تمغے اور کیا ہال آف فیم میں ادبی شخصیات کا انتخاب۔ ''ہال آف فیم‘‘ تخلیق کرنے والے کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس کا گیت یوں فساد کی جڑ بنے گا اور ایسی ہاہاکار مچے گی۔
حال ہی میں ایک ہال آف فیم کا افتتاح ہوا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فرضی ہال ہوتا ہے‘ جہاں ہیروز کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ایسے دو ہال ہیں اور دونوں پر بحث‘ مباحثے اور ان کے انتخاب پر تنقید جاری ہے۔ کرکٹ کے ہال آف فیم سے اوول کے ہیرو فضل محمود اور حنیف محمد غائب ہیں۔ ان دو بڑے ناموں کو‘ تنقید اور حرفِ ملامت سننے کے بعد بورڈ نے شامل کیا۔ پہلی لسٹ میں یہ دونوں ہیرو شامل نہیں تھے۔ کیوں شامل نہیں تھے؟
امورِ مملکت خویش خسرواں دانند
ہم اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ البتہ اپنے پیٹی بھائیوں کے بارے میں ضرور عرض کریں گے کہ یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی نے شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا:
جگر کا درد جگر میں رہے تو اچھا ہے
جو بات گھر کی ہو‘ گھر میں رہے تو اچھا ہے
امیر مینائی تو یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ سیروں تنِ شاعر کا لہو خشک ہوتا ہے‘ تب ایک مصرعۂ تر کی صورت نکلتی ہے۔
ایک استاد سے اس کے ہونہار شاگرد نے پوچھا: اگر ایک مصرع پر پورے جسم کا خون صرف ہو جاتا ہے تو شاعر بھائی زندہ کیسے رہتے ہیں؟ فرمایا: جب اس کی تخلیق پر اسے داد ملتی ہے اور اسے سراہا جاتا ہے‘ تب اس میں دوگنا خون بڑھ جاتا ہے۔
سات سمندر پار‘ آج سے باسٹھ سال پہلے یعنی 1959ء میں ہال آف فیم نام کی ایک البم ریلیز ہوئی تھی۔ کائونٹ بیسی (Count Basie) کی یہ البم ایسے مقبول ہوئی کہ اب مختلف شعبوں میں نمایاں نہیں‘ اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو ان میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ گائیک نیو جرسی کے سرخ کنارے نامی ضلع میں پیدا ہوا۔ اس کے گیت اور البم تاریخ ساز تھی۔ سرخ کنارے کی‘ پچھلے عشرے میں‘ کل آبادی دس ہزار تھی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کہ آج سے نصف صدی پہلے وہاں کتنے لوگ رہتے ہوں گے۔ ایک ہزار‘ دو ہزار‘ تین ہزار یا اس سے کچھ کم‘ کچھ زیادہ۔ یہ سرخ کنارہ نام بھی اس کا اس لیے پڑا کہ وہاں‘ اس علاقے کے اصل مالک ریڈ انڈینز رہتے تھے۔ کولمبس اور اس کے ساتھیوں نے وہاں ساحل پر سرخ رنگ کے لوگوں کو ہندوستانی ہی سمجھا تھا۔ ایک ہی تو مملکت تھی تب پوری دنیا میں جہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی؛ یعنی ہندوستان۔ شمال سے اور مغرب سے اس پر حملہ آور چیلوں کی طرح جھپٹتے تھے۔ مشرق میں آبادی نہیں تھی ورنہ مشرق سے بھی قزاق آ جاتے۔ واسکوڈے گاما اور کولمبس کیا تھے ؟ بحری قزاق ہی تو تھے۔ یہ وہی سال ہے‘ جب سقوطِ غرناطہ ہوا۔ ایک سلطنت اور ایک طاقت کا زوال اور دوسری کے عروج کا آغاز۔ یہ لوگ اپنے ملکوں میں بھوک‘ ننگ اور بیماریوں سے تنگ آ کر وہاں سے نکلے۔ جو ملک نظر آتا تھا‘ اسے ہی انڈیا سمجھ لیتے تھے۔ اسی لیے سرخ کنارے کے لوگ بھی سرخ ہندوستانی ہی کہلائے۔ بیسی نے تین سال ریاضت کی‘ محنت کی‘ اس کو توڑا‘ مروڑا اور آخرکار یہ البم ریلیز کر دی۔
ہمارے پیٹی بھائیوں کے ہال آف فیم میں بہت نامی گرامی ادبا اور شعرا شامل ہیں۔ اقبال، فیض، راشد، مجید امجد، بابائے اردو سے لے کر عبداللہ حسین تک‘ ایک سے ایک بڑا تخلیق کار، ایک سے ایک بڑا ناول نگار، اپنا اپنا الگ اسلوب رکھنے والے لوگ۔ پنجابی زبان کے دامن سے لے کر فقط دامن تک۔ کیا پنجابی زبان کا دامن واقعی اتنا تنگ ہے ؟ کہیں نجم حسین سید نظر نہیں آئے ؟ افضل حسین رندھاوا، شریف کنجاہی اور غزل کو ایک نیا رنگ روپ دینے والے پیر فضل گجراتی‘ سبھی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ پنجابی کلاسیک کا ذکر کرنا بھی شاید گناہ ہے۔ احسان دانش، صوفی تبسم، ضیا جالندھری اور ظفر اقبال تک موجود نہیں۔ عطاالحق قاسمی‘ جو مزاح میں اپنے اسلوب کا سکہ جما چکے ہیں‘ کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ ناول اور افسانے میں مستنصر حسین تارڑ کو گول کر دیا گیا۔ تنقید میں ڈاکٹر وزیر آغا سے ناانصافی ہوتے‘ صدی ہو چلی ہے۔ کرتا دھرتائوں نے ان کو مرنے کے بعد بھی چین سے سونے نہیں دیا۔ عطاالحق قاسمی کا سیاسی نقطہ نظر اپنی جگہ‘ کیا ادب میں بھی سیاسی نقطۂ نظر سے فیصلے کیے جائیں گے ؟ آبِ رواں، گل آفتاب اور غبار آلود سمتوں کا سراغ تو اپنے خالق کے نام سے بھی بے نیاز ہیں۔ مذکورہ شخصیات کے بغیر اردو اور پنجابی ادب کا تذکرہ نامکمل ہے۔ سنا تھا ادب انصاف کا نام ہے کہ اس میں وہ تعصب نہیں ہوتا‘ جو تاریخ روا رکھتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ادیب تو متعصب ہی ہوتا ہے۔
نجم حسین سید نے اتنا لکھا ہے اور ایسا لکھا کہ اس کی مثال لانا مشکل ہے۔ استاد دامن کا احترام اپنی جگہ لیکن کیا استاد کا کام نجم حسین سید سے زیادہ وقیع ہے ؟ جن شعرا کو اس اعزاز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے‘ ان میں کئی نام بھرتی کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تمام غزل مرصع نہیں ہوتی‘ اس میں بھرتی کے اشعار سے بھی کام چلایا جاتا ہے کہ استاد نے کہی ہے‘ کس نے اعتراض کرنا ہے۔ شاید اسی روایت کا احترام کرتے ہوے ان میں بھرتی کے شعرا شامل کیے گئے ہیں۔ پیر فضل ہمیں رہ رہ کر یاد آتے ہیں، ان کی کتاب ''ڈوہنگے پینڈے‘‘ ایک شاہکار ہے۔ ادب کے جن مشاہیر کا اوپر ذکر ہوا ہے‘ ان کی اس فیصلے سے کیا حیثیت تبدیل ہو جانی ہے؟ اگر ان اصحاب کا نام اس فہرست میں شامل ہوتا تو اس فہرست کے اعتبار میں اضافہ ہونا تھا۔ باقی ان کے کام نہ کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہمارے چند حروف لکھنے سے ان کا مقام بلند ہو جانا ہے۔ حق بحق دار رسید کا شاید زمانہ لد گیا ہے مگر ان شخصیات کا نام آج نہیں تو کل‘ شامل ہو جانا ہے۔ غزالی مشہدی نے کہا تھا:
شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم
ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے۔
کسی پر تو زور نہیں چلنے والا؛ البتہ اپنی شکایت سرخ کنارے کے کائونٹ بیسی سے ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہ وہ تین سال ریاضت کرتا‘ نہ وہ اپنی مشہورِ زمانہ البم 'ہال آف دی فیم‘ ریلیز کرتا اور نہ ملکوں ملکوں‘ شعبوں شعبوں میں ہال آف فیم بنتا۔ ویسے شاید عمران خان دنیا کے پہلے وزیراعظم ہیں جو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازے گئے تھے۔ یہ 1983ء کے بھلے وقتوں کی بات ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ایسے فیصلے کوئی اکیلا نہیں کرتا‘ باقاعدہ SOPs کا خیال رکھا جاتا ہے مگر اول و آخر ذمہ داری ادارے کے سربراہ کی ہی ہوتی ہے۔ کوئی ٹیم جیتتی ہے تو سہرا کپتان کے سر بندھتا ہے اور غلط فیصلوں کی وجہ سے دنیا کے مانے ہوے کھلاڑی ویرات کوہلی کو بھی استعفیٰ دیتے ہی بنتی ہے۔ اچھے کاموں پر نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور غلط فیصلوں پر ذمہ داری بھی لینا پڑتی ہے۔ غلط فیصلوں کے امکان کی وجہ سے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء تا 1976ء‘ تمغۂ حسنِ کارکردگی کا اعلان نہیں کیا تھا۔