محترم وزیر اعظم صاحب!
السلام علیکم! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ آج کل عوام کو آپ کی پریشانی کی خبروں نے بے چین کیا ہوا ہے۔ ابھی بلدیاتی انتخابات کی شکست کا زخم تازہ تھا کہ نواز شریف کی واپسی کی خبریں عام ہو گئی ہیں۔ لگتا ہے جیسے حکومت کے دن گنے جا چکے ہوں۔ آپ کو تو یاد ہو گا کہ عوام نے کتنے مان سے آپ کو ووٹ دیے تھے۔ سوچا تھا کہ باقی سارے تو آزمائے ہوے سیاستدان ہیں‘ ایک آپ تھے جن کو آزمایا نہیں گیا تھا۔ دوسرے لیڈر دس دس‘ بیس بیس سال کے آزمائے ہوے تھے۔ لوگ ان سے بیزار تھے کہ وہ سارے آپس میں ایک تھے۔ یہی ان کی طاقت تھی اور یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری۔ وہ اکٹھے ہوتے تو لوگوں کے کان کھڑے ہو جاتے کہ کس ''جمہوریت‘‘ کے لیے یہ لیڈران یکجا ہو رہے ہیں۔ سب کے سب‘ کوئی وفاق اور کوئی صوبے میں اقتدار کی یخنی چسکی چسکی پی چکا تھا۔ ان پر کوئی کیسے اعتبار کر لیتا۔
ایک آپ کی آزمائش ہونا تھی۔ دو کامیابیاں ایسی تھیں جن کی وجہ سے آپ کو پذیرائی مل رہی تھی۔ ایک کرکٹ ورلڈ کپ اور دوسرا شوکت خانم میموریل ہسپتال۔ عوام نے آپ کی محبت میں ہر اس رائے کو مسترد کر دیا جس سے آپ کی مقبولیت کے گراف پر اثر ہو سکتا تھا۔ آپ کو قائد اعظم کے ساتھ ملانا شروع کیا۔ یہ آپ کی محبت اور پہلے سیاستدانوں کو آزمانے کے بعد کیا تھا۔ کہا جاتا کہ قائد اعظم بھی سیاست سے کنارہ کش ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ آپ بھی ان سیاستدانوں اور میدانِ سیاست سے بیزار ہیں۔ ایک دانشور صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ بھارت نے جواہر لال نہرو کے بعد کوئی لیڈر پیدا نہیں کیا مگر پاکستان کو دو لیڈر ملے؛ ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے آپ۔ وقت آپ کے ساتھ تھا‘ لوگ آپ کے پاس تھے۔ 2018ء سے پہلے آپ ملک کے مقبول ترین لیڈر بن چکے تھے۔
مشہور ہے کہ مقابلے کے امتحان میں پاس ہونے والوں کا فائنل انٹرویو جو پینل لے رہا تھا‘ اس کی ایک خاتون ممبر نے ایک امیدوار سے آپ کا اور ذوالفقار علی بھٹو کا موازنہ کرنے کو کہا۔ امیدوار نے کہا: ان دونوں کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں‘ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں عمران خان ؟خاتون ممبر تو جیسے جھلا اٹھی اور انٹرویو کے دوران ہی کہہ دیا کہ عمران خان بھٹو سے زیادہ طلسمی شخصیت کے مالک ہیں۔ امیدوار نے بہر حال یہ موازنہ کرنے پر معذرت کر لی۔ اب کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اس امیدوار کی حالات پر نظر کس قدر گہری تھی۔ سچ یہی ہے کہ آپ کا اور بھٹو کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔ آپ نے اپنے کسی وعدے کو نہ صرف پورا نہیں کیا بلکہ اپنے کہے پر لکیر بھی مار دی ہے۔ یوں بھی اس دورِ حکومت کے کارہائے نمایاں اس قدر ہیں کہ ان کو گننا آسان نہیں۔
آپ کو یاد ہو گا جب آپ آئے اور سریر آرائے حکومت ہوئے تو پورے ملک میں اور چہار دانگ عالم میں ایک خاموشی تھی۔ اپوزیشن تو جیسے صمٌ بکمٌ سی حالت میں تھی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف جیل میں اور ان کے حلیف زیادہ تر خاموش تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس وقت تمام حالات آپ کے حق میں سازگار تھے‘ طاقت کے مراکز صدقِ دل سے آپ کے ساتھ کھڑے تھا۔ لوگ پُرجوش تھے کہ گویا ان کے سامنے تاریخ بننے جا رہی ہو۔ کتنے سال انتظار کے بعد‘ ایک طویل جدوجہد کے بعد کسی کو کامیاب ہوتے دیکھا تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے شروع ہوئی۔ پی این اے کی تحریک کا دکھ بھی تھا کہ کیسے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا۔
آپ کے دور میں پی ڈی ایم نام کا اتحاد بنا تو رائے تھی کہ انہی لوگوں نے تو ملک کو اس حالتِ زار تک پہنچایا ہے۔ عوام کا دوبارہ ان کی طرف لوٹنا ممکن نہیں تھا مگر آپ نے خود اپوزیشن کے غبارے میں ہوا بھری، بالخصوص مریم نواز شریف کو ایک قومی لیڈر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یوں وہی مریم نواز حکومت کے اعصاب پر سوار ہوتی گئیں۔ حکومت کی بات بہ بات ان پر تنقید اور ان کا جارحانہ لہجہ ان کو ایک مقبول لیڈر بنا گیا۔ یوں ان کو ''لانچ‘‘ کرنے میں ساری مدد حکومت نے از خود فراہم کر دی۔
آپ نے کہا تھا کہ آپ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایں گے‘ کشکول کو توڑ دیں گے۔ کام مگر آپ نے اس کے برعکس کیا۔ آپ مالیاتی اداروں کے پاس کیا گئے اور عوام کی رہی سہی قوتِ خرید بھی ان کے پاس گروی رکھ دی۔ دوسری جانب ضمنی انتخابات تھے‘ جس میں آپ کی جماعت ہر صوبے میں ہارتی چلی گئی۔ 2018 ء کے بعد جتنے ضمنی الیکشن ہوئے‘ بیشتر آپ ہارتے چلے گئے۔ کوئی ایسا الیکشن نہیں تھا جس میں پتا چلتا کہ لوگ آپ کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں۔ یہ ایسی بازی تھی جو مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھی۔ آخری فیصلہ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں ہوا‘ آپ کو اپنے ہی گڑھ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد تو جیسے حکومت سنبھل ہی نہیں سکی۔ اس شکست کے اثرات ابھی زائل نہیں ہوئے تھے کہ مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کی واپسی کی چہ میگویاں شروع ہو گئیں۔ اس بحث کا آغاز بھی آپ ہی کے بیان سے ہوا کہ ایک سزا یافتہ کو کیسے چوتھی دفعہ وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے‘ اسے سپریم کورٹ نے سزا سنائی ہے۔
یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ آپ کی قوت مڈل کلاس نہیں تھی بلکہ اشرافیہ کی وہ کلاس تھی جو اس سے قبل ہر قسم کے سیاسی جھمیلوں سے کوسوں دور تھی۔ اس میں کیا شک ہے کہ آپ کی ایک آواز پر اشرافیہ کے بچے اور خواتین لبیک کہنے والوں میں سب سے آگے تھیں۔ چونکہ وہ ایک پڑھی لکھی کلاس تھی لہٰذا سب سے پہلے امیدوں کے شیشے کو چکنا چور کیا اور اجتماعی طور پر اس جھنڈے کے نیچے سے نکلتے چلی گئی۔ ان کو جیسے ملک کے مسائل سے غرض نہیں تھی‘ وہ محض آپ کی شخصیت کے دیوانے تھے۔ یقین جانیں کہ ایک وقت تھا کہ آپ کی حمایت سٹیٹس سمبل بن گئی تھی۔ اشرافیہ آپ کی فین ہو گئی اور اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب پوش ایریا میں پلی بڑھی خواتین اور بچیوں نے آپ کی پکار پر ڈیفنس لاہور میں دھرنا دیا اور تپتی گرمی میں وہ تین دن سڑک پر بیٹھی رہیں۔ ان لوگوں کی امیدوں کا محل جلد ہی مسمار ہو گیا اور وہ واپس اپنے اپنے بڑے ولاز میں چلے گئے۔ اب اس کلاس کے دوبارہ باہر آنے کا امکان بہت کم‘ نہ ہونے کے برابر ہے۔ رہ گئی مڈل کلاس‘ تو وہی اب تک ایک امید کے ساتھ آپ کو دیکھتی تھا۔ اسی کا خاتمہ آپ کی حکومت کے ہاتھوں ہوا۔ نہ ان میں قوتِ خرید کی سکت رہی نہ وہ خرید و فروخت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والوں کا کچھ بگاڑ سکتے تھے۔ ساڑھے تین سال ہونے کو آئے ہیں اور آفرین ہے کہ حکومت اب تک محض وعدے کر رہی ہے۔ ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ لوگ پچھلے دور کو ایک سہانا زمانہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیںکہ اِس دور میں طرز ِ حکمرانی ہی ایسی لاجواب تھی کہ عام آدمی کو اسحاق ڈار ایک کرشماتی ماہرِ معیشت لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دورِ حکومت کی کوتاہیاں اور کمیاں قصۂ پارینہ ہو گئی ہیں۔ ہر کوئی ملک کی ڈوبتی معیشت اور اس کی حالتِ زار کا ذمہ دار آپ کو اور آپ کی حکومت کی پالیسیوں کو سمجھنے لگا۔
آپ کے سو دن کے وعدے کا موازنہ اب ضیاء الحق کے نوے دن کے وعدے سے کیا جا رہا ہے۔ اب وزیر داخلہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پانچویں سال میں حالات ٹھیک ہوں گے۔ سچ یہ ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا حشر نشر کر دیا ہے اور وہ گزشتہ حکومتوں کو یاد کر رہے ہیں کہ ان کا دور اب قابلِ رشک لگ رہا ہے۔حکومت کا شکریہ کہ اس نے پہلے دن سے لے کر آج تک درجنوں ایسے 'سنہری‘ اقدامات کیے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور ضمن میں اس کا کردار کبھی بھلایا نہیں جائے گا۔ والسلام! آپ کا ایک ووٹر!