عمان

آج کل سلطنتِ عمان کا اعلیٰ تجارتی وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ وفد چار سے نو جنوری تک‘ پانچ روزہ دورے پر پاکستان آیا ہے۔ حکومتی عہدیداروں سے مل کر سرمایہ کاری کے مواقع اور منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
عمان جدید ترین ملک‘ امن و امان کی جگہ اور سرمایہ کاروں کی جنت ہے۔ گوادر شہر سے محض دو ہزار کلومیٹر دور۔ عمان کا مطلب ہے آباد‘ یہ لفظ بدو کا الٹ ہے۔ عمان سے پاکستان کا انس بہت گہرا ہے۔ دو رشتے ایسے ہیں جن کا ذکر از حد ضروری ہے۔ عمان حضرت ہود علیہ السلام کی جائے تبلیغ ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام کا زمانہ تقریباً چھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آپ سے منسوب روضہ سلالہ شہر کے پاس ہے۔ آپ سام کے پوتے اور حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے تھے۔ پاکستان کا شہر گوادر‘ کبھی عمان کی ملکیت تھا ۔ اگرچہ عمان کی ملکیت سے پہلے یہ بلوچستان کے حکمرانوں کا علاقہ تھا جسے عمان کے ایک باغی شہزادے کو دے دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم فیروز خان نون کے عہدِ حکومت میں گوادر کو ساڑھے پانچ ارب روپوں کے عوض واپس لیا گیا۔ زیادہ تر رقم سر آغا خان نے فراہم کی۔ سی پیک کی جان گوادر‘ پاکستان کا مستقبل گوادر۔ عمان کے چیمبر آف کامرس کے پچیس رکنی وفد میں ہمارے پاکستانی بزنس مین قمر ریاض بھی شامل ہیں۔ وہ بھی عمان کی طرح ایک کامیابی کی داستان ہیں۔ صفِ اول کے بزنس مین اور عمان میں اردو ادب کے روحِ رواں۔ وہ اپنا بزنس کافی دیر سے اسی ملک میں کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے ماربل امپورٹ کرتے ہیں اور عمان میں بڑے بڑے پروجیکٹس کے بانی مبانی ہیں۔ عمان بحیرۂ عرب کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ ہندوستان کی تلاش میں واسکوڈے گاما اس کے ساحل پر بھی دھکے کھاتا رہا ہے۔ عمان‘ تصوارتی جزیرے زنجبار والا عمان۔ یہ چھوٹا سا ملک ہے مگر ترقی اور خوشحالی کا ایک استعارہ ہے۔ اس ملک پر کبھی برطانیہ اور کبھی پرتگال نے قبضہ کیے رکھا۔ اب عمان ایک کامیابی کی داستان ہے۔ نہ اس کا کوئی ثانی ہے اور نہ اس کی مثال۔ اس وقت سلطنت کے پاس پانچ ارب چھ کروڑ بیرل‘ لگ بھگ اٹھارہ ارب ڈالر کے تیل کے ریزرو ہیں۔ ایک سو تیس آئل فیلڈز ہیں اور آٹھ ہزار جاری فنکشنل کنویں ہیں۔ چوراسی فیصد آمدنی اسی تیل سے ہے۔
سلطان قابوس کو عمان میں بانی رہنما کا مقام حاصل ہے۔ وہ قوم کے بلوچ اور اباضی تھے۔ اباضی عدم تشدد اور رواداری کے قائل تھے مگر ظالم حاکم کے خلاف اٹھنا شرعاً جائز سمجھتے تھے۔ بنو امیہ کے خلاف بغاوت کرتے اور بار بار کی لڑائی کی وجہ سے نیست و نابود ہو گئے۔ جو بچ گئے‘ وہ الجزائر اور عمان کی طرف نکل گئے اور جنگ و جدل سے توبہ کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمان ایک روادار اور میانہ رو سوسائٹی ہے۔ اس سبب سے عمان ایک کامیابی کی داستان ہے۔ انہوں نے انڈسٹری کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا کہ دنیا کے ہر خطے سے وہاں سرمایہ کاری ہونے لگی۔ قسمت کے دھنی تھے ہن ایسے برسا کہ کوئی مثال نہیں۔ یہی ماحول دیکھ کر علی پور چٹھہ کا نوجوان پچیس سالہ قمر ریاض کاروبار کے خواب سجائے عمان کیا گیا اور وہیں کا ہو گیا۔ آج کل کراچی میں ماہی گیری ، صحت اور پانی کے منصوبوں کے لیے حکومت سندھ سے مذاکرات کرنے والی ٹیم میں وہ شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے چالیس سالوں میں عمان ترقی میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ یہی زمانہ ہماری (1980ء سے لے کر اب تک) ناکامی کی ایک کہانی ہے۔ کوئی ایسی بدحالی نہیں جس میں ہمارا ملک دنیا میں صفِ اول میں نہ ہو۔ عمان میں کم از کم اجرت ڈیڑھ لاکھ ہے اور ہمارے ہاں سترہ ہزار۔ وہاں فی کس آمدنی بیس ہزار ڈالر ہے یعنی ہمارے ساڑھے پینتیس لاکھ کے برابر۔ اس سلسلے میں ہمارا موازنہ افریقی ممالک کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی طاقتیں ہر ریجن میں طاقت کو ''ری بیلنس‘‘ کر رہی ہیں۔ جیو سٹریٹیجک سے جیو اکنامک کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ''سرخ فیتہ‘‘ ہمارے راستے میں بیجا مزاحم نہ ہو تو ہم یہاں بھی کامیابی کی داستان دہرا سکتے ہیں مگر اہلکاروں نے تو جیسے قسم کھائی ہوئی ہے کہ کسی کو کام نہیں کرنے دینا۔
عمان اور دوسرے قریبی ہمسایوں سے تجارتی تعلقات وقت کی آواز ہیں۔ اس وقت عمان میں صحت ، پانی اور عمارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی بہت گنجاش ہے۔ وفد کی وزیراعظم‘ وزیر خارجہ اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات ہو چکی ہے۔ مڈل ایسٹ کے سارے اسلامی ممالک ایک خوشحال معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پچھلے پچاس سالوں میں ان ممالک کی قلبِ ماہیت ہو چکی ہے۔ اس میں ہمارے لیے بہت سارے سبق پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچا ہے اور آپس میں تعاون بڑھایا ہے۔ ایک زمانے میں گلف کوآپریشن کونسل بہت متحرک تھی۔ یہ تمام ممالک رواداری اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنے بنیادی عقائد سے سمجھوتا کیے بغیر مذہبی رواداری میں ڈھلے ہیں‘ سیاحت کی طرف توجہ دی ہے کہ تیل اب ان کا آخری آپشن نہیں۔
قمر ریاض کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی غزل دیکھیں کہ وہ اپنی مٹی‘ اپنے ملک اور اپنے وژن سے اٹوٹ وابستگی کی ایک عمدہ مثال ہیں۔
میں نے اک بار محبت کی ہے
پھر لگاتار محبّت کی ہے
پڑھ مِرا چہرہ‘ مجھے غور سے دیکھ
میں نے اے یار! محبت کی ہے
اس کی نسلیں بھی سنور جاتی ہیں
جس نے سرکار! محبت کی ہے
یہ جو ہم جیت گئے ہیں دونوں
دوست! یہ ہار محبت کی ہے
جان حاضر ھے تمہاری خاطر
نہیں، انکار محبت کی ہے
اے قمرؔ! جو نہ خدا سے کی ہو
پھر تو بے کار محبت کی ہے
رپورٹ کے مطابق عمان سے وفد دس سال کے بعد پاکستان کے سرکاری دورے پر آیا ہے۔ اس دورے میں کلیدی کردار عمان میں پاکستان کے سفیر کا ہے۔ ان کی سفارتی سرگرمیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر باقی سفرا بھی اسی دلچسپی سے اپنے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں تو پاکستان کے دن بدل سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمان کی دولت تیل کے ذخائر کی وجہ سے ہے مگر کیا پاکستان میں معدنی خزانوں کی کمی ہے ؟ قطعاً نہیں! ارادہ اور مصمم ارادہ درکار ہے۔ جب ارادہ ہی نہ ہو تو خزانے از خود تو باہر آنے سے رہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارا سمندری ہمسایہ عمان سی پیک کے منصوبے میں بھی ساجھے دار ہے۔ پاکستان اور عمان کی آپس کی تجارت بہت کم ہے اس کو بڑھانے کے بہت مواقع ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں