جاتی امرا میں چور

خبر تو دو ہفتے پرانی ہے مگر میڈیا کے ہاتھ کل لگی ہے۔ خبر یہ ہے کہ نامعلوم چوروں نے وزیر اعظم نواز شریف کے فش فارم اور میاں صاحب کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کی فلور مل سے ٹرانسفارمر چوری کر لیے۔ سندر پولیس نے وزیر اعظم کے مچھلی فارم کے سکیورٹی گارڈ کی درخواست پر نامعلوم چوروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
سینئر بیورو کریٹ محمد اسلم سکھیرا ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ میں شیخو پورہ کا ڈپٹی کمشنر تھا اور جنڈیالہ شیر خان سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی پنجاب کے گورنر تھے ۔ مجھے ایس پی ضلع نے اطلاع دی کہ گورنر کے زرعی فارم سے ان کی قیمتی بھینس چوری ہو گئی ہے۔ مارشل لاء کا دور تھا‘ گورنر جیلانی صوبے کے سخت گیر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے قابل اعتماد ساتھی۔ میری تو جیسے جان نکل گئی۔ دونوں افسر بھاگم بھاگ موقع واردات پر پہنچے اور اس سے پہلے کہ خبر پھیلے اس رنگ‘ قد‘ عمر اور نسل کی بھینس گورنر کے قابل اعتماد منتظم کے حوالے کی اور مقامی پولیس کو مستعدی سے تفتیش کی ہدایت کر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر واپس آ گئے۔
دوسری صبح ایس پی اور مجھے گورنر ہائوس پہنچنے کی ہدایت موصول ہوئی۔ پہلے تو گورنر بہادر نے اس بات پر جھاڑا کہ جب میرے گائوں میں امن و امان کی حالت اس قدر مخدوش ہے میرے مویشی محفوظ نہیں تو باقی ضلع کی صورتحال کیا ہو گی اور عام آدمی کا کون پرسان حال ہو گا۔ مگر انہیں زیادہ غصہ اس بات پر تھا ہم نے ایک دوسری بھینس لا کر سنگین واردات پر مٹی ڈالنے اور میری آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے دست بستہ عرض کی کہ مقصد صرف عوام کے احساس تحفظ میں اضافہ تھا کہ چوری کی واردات کے تھوڑی دیر بعد بھینس مل گئی مگر جیلانی صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ انہوں نے اصل بھینس شام تک بازیاب کرنے ورنہ نتائج بھگتنے کی تنبیہ کی اور ہم جل تو جلال تو ‘ آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے گورنر ہائوس سے آ گئے ۔ دونوں افسران کا خون یہ سوچ کر خشک ہوئے جا رہا تھا کہ ''اگر چوروں نے گورنر کی بھینس خود ذبح کر دی یا کسی قصاب کے ہاتھ بیچ دی تو ہم اصل بھینس کہاں سے لائیں گے اور ہمارا کیا بنے گا‘‘
میاں نواز شریف اور کیپٹن (ر) صفدر کے لیے نئے ٹرانسفارمر لگوانا مشکل ہے‘ نہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ اب تک فش فارم اور فلور مل ٹرانسفارمر نہ لگنے کی بنا پر بجلی سے محروم ہوں گے۔ یہ افتادگان خاک کا درد سر ہے‘ اگر محلے میں ٹرانسفارمر جل یا چوری ہو جائے تو پورا محلہ ہفتوں شدید گرمی میں بجلی سے محروم رہتا ہے اور جب تک مرد و خواتین‘ بوڑھے بچے جلوس نکال کر سڑکوں گلیوں میں پولیس کی لاٹھیاں نہ کھا لیں اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی کھڑکیاں‘ گاڑیاں اور میز کرسیاں نہ توڑ دیں ٹرانسفارمر لگتا ہے نہ بجلی بحال ہوتی ہے ممکن ہے اب تک فش فارم پر 50کے وی کے ٹرانسفارمر کی جگہ 100کے وی کا ٹرانسفارمر لگ چکا ہو۔ عوام کے لیے پریشان کن بات مگر یہ ہے کہ چوروں سے وزیر اعظم کا فش فارم محفوظ نہیں تو وہ بے چارے کس کھیت کی مولی ہیں اور اپنے تحفظ کی ضمانت کس سے مانگیں۔
خبر میں تو نہیں بتایا گیا کہ فش فارم اور فلور مل کی حفاظت پر پنجاب پولیس کے کتنے اہلکار مامور تھے ۔ جس طرح جاتی امرا میں پالتو مور کی حفاظت میں ناکامی پر پولیس اہلکاروں اور افسروں کو سزا ملی‘ اسی طرح فش فارم‘ فلور مل کے ٹرانسفارمرز کی حفاظت میں ناکامی پر کوئی اہلکار زیر عتاب آیا یا نہیں؟ تاہم مقدمہ چونکہ سکیورٹی گارڈ نے درج کرایا‘ اس لیے یقینی بات ہے کہ یہاں سکیورٹی کا معقول انتظام تھا مگر چوروں نے سکیورٹی کی پروا کی ‘ نہ پنجاب پولیس کے حفاظتی انتظامات اور اس محفوظ علاقے میں گشت سے خوفزدہ ہوئے اور نہ انہوں نے ایک قومی لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم کو بخشا اور اپنا کام دکھا گئے۔
جس ملک میں سانحہ بلدیہ ٹائون جیسے المناک اورشرمناک واقعات رونما ہوں‘ دو سو ساٹھ افراد زندہ جلا دیئے جائیں ‘ کسی ملزم کو سزا نہ ملے۔ ہسپتالوں سے نومولود بچے اٹھا لیے جائیں اور مائیں زندگی بھر رونے پر مجبور ہوں‘ جہاں ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ کر بیچ ڈالی جائیں کوئی باز پرس کرنے والا نہ ہو اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار اپنی جانیں بچاتے پھرتے ہوں وہاں دو ٹرانسفارمرز کی چوری اتنا بڑا واقعہ نہیں۔ مگر ان واقعات کی اہمیت یہ ہے کہ اب صرف دہشت گرد‘ تخریب کار اور نامی گرامی ڈاکو نہیں معمولی نوعیت کے چور بھی پولیس‘ وزیر اعظم اور ان کے داماد کو خاطر میں نہیں لاتے اور وہ کوئی واردات کرتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے کہ وزیر اعظم یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اپنے اختیارات اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر ان کا دھان بچہ کولہو پلوادیگا۔
پرانے زمانے کے کسی شیر شاہ سوری‘ نواب آف کالا باغ یا جنرل (ر) غلام جیلانی کا دور ہوتا تو کوتوال شہر اور حفاظتی انتظامات کے ذمہ دار عملے کی شامت آجاتی۔ پنجاب پولیس کی تو شہرت ہی یہ رہی ہے کہ چوری اگر کسی بااثر فرد کی ہو تو وہ مجرموں کو پاتال سے نکال لاتی ہے۔ موجودہ پاکستان مغربی پاکستان تھا اور اس کے گورنر ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ مگر بڑے بڑے ‘ نامی گرامی ڈاکوئوں اور چوروں کا پتہ پانی ہوتا تھا ۔ غلام مصطفی کھر کے دور میں پولیس نے ہڑتال کی تو گورنر کے حکم پر رضا کاروں نے امن و امان کی ذمہ داری سنبھال لی مگر اس دوران لاہور میں چوری کی کوئی واردات ہوئی نہ لڑائی جھگڑے کا واقعہ پیش آیا۔ سب جانتے تھے کہ حکمران سخت گیر ہے اور انتظامی مشینری سے کام لینے کا اہل۔
پولیس اب بھی ساری کی ساری چوروں‘ ڈاکوئوں ‘ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور قاتلوں کی ساتھی ہے نہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی صرف مال پانی بنانے میں مصروف۔ یہ فورس بھر پور سیاسی مداخلت‘ نااہل اور کرپٹ افسران و اہلکاروں کی سرپرستی و حوصلہ افزائی اور دیانتدار وباصلاحیت افسران کی حوصلہ شکنی کے باوجود حتی المقدور اپنے فرائض انجام دے رہی ہے مگر جب ہر ایک کو علم ہے یہاں کسی کو ترقی اور شاباش اچھی کارگزاری پر ملتی ہے نہ سزا کسی جینوئن غلطی اور اپنے قانونی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی پر‘ تو پولیس اہلکار و افسران محض حکمرانوں کی چاپلوسی اور وقت گزاری پر توجہ دیں گے اور پست حوصلہ پولیس کی موجودگی میں چوروں ڈاکوئوں کی پانچوں گھی میں ہیں سر کڑاہی میں۔ جب قانون شکن اور جرائم پیشہ افراد اور گروہ حکومتی سرپرستی میں پل بڑھ رہے ہوں۔ وزیر مشیر‘ ارکان اسمبلی سینیٹ انتخابات‘ ترقیاتی فنڈز وغیرہ کے ذریعے کروڑوں روپوں کی دیہاڑیاں لگا رہے ہوں تو پولیس کو کیا پڑی ہے کہ وہ ٹرانسفارمروں کی حفاظت کرتی پھرے۔ چور اور کوتوال میں بھائی چارہ کیوں نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ کیوں نہ ڈالیں ۔
پولیس اور انتظامیہ میں بگاڑ کا آغاز سفارشی بھرتیوں اور سیاسی بنا پر تبادلوں و برطرفیوں سے ہوا۔ کہتے ہیں جب ایوب خان نے گورنر کی خواہش پر چیف سیکرٹری مغربی پاکستان کو تبدیل کیا اور بھٹو صاحب نے ایک سیکرٹری کو فون پر معطلی کا حکم سنایا تو ملک میں گورننس کا جنازہ اٹھ گیا پھر زوال کو عروج ملا اور رہی سہی کسر 1985ء کے بعد بحال ہونے والی کام چور‘ رشوت خور جمہوریت نے نکال دی جب پولیس میں اے ایس آئی‘ انسپکٹر اور محکمہ مال میں نائب تحصیلدار قواعد و ضوابط اور مروجہ قانونی معیار کو نرم کر کے ارکان اسمبلی کی سفارش پر بھرتی کئے گئے۔ یہی سفارشی بھرتی اب تمام صوبوں میں امن و امان اور انتظام و انصرام کی ذمہ دار ہے اور نتیجہ معلوم۔ جس ملک کے وزیر اعظم کا اپنا فارم چوروں کی دستبرد سے محفوظ نہیں‘ وہ عوام الناس کی جان و مال‘ عزت و آبرو کو تحفظ کس طرح فراہم کریگا یہ سوچنے کی بات ہے مشہور کہاوت ہے کہ چور نہیں چور کی ماں کو مارو‘ چوروں کی ماں کیا دادی اور نانی بھی کوئی اور نہیں حکومت ہے صرف موجودہ نہیں سابقہ اور اس سے بھی پہلے کی سول و فوجی حکومتیں۔ جن کی غفلت چشم پوشی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے جرائم پیشہ دیدہ دلیر ہوئے اور شریف شہری مایوس اور دل گرفتہ ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ عشروں سے کانٹے بونے کا شوق گلاب موتیا اور چنبیلی کے پھول تو نہیں کھلا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں