چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں

کراچی میں رینجرز نے بیریئرز ہٹانے کا آغاز سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے گھر سے کیا‘ 1990ء کے عشرے میں لاہور کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے میئر کے طور پر میاں محمد اظہرنے کارروائی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ایک قریبی عزیز کی طرف سے قائم تجاوزات ہٹا کر کی تو اپنے بیگانے سب نے داد دی ۔شریف خاندان نے بھی سراہا کہ ان دنوں ہر معاملے کو سیاست اور ذاتی و خاندانی مفاد کی عینک سے دیکھنے کا رواج نہ تھا۔
یہ تجاوزات کے خلاف کامیاب مہم کا نقطہ آغاز تھا۔ ہر شہری کے لیے واضح پیغام کہ اگر بیڈن روڈ پر وزیر اعظم کے قریبی اور قابل احترام عزیز کی دکان کا تھڑا گر سکتا ہے تو کسی دوسرے کو امان کیوں؟ بلدیہ لاہور کے بلڈوزر چلے تو ہر تھڑے ‘ دیوار‘ دکان‘ کھوکھے اور رکاوٹ کو مسمار کرتے چلے گئے ۔ حتیٰ کہ شہر کا ہر گلی کونا نکھرنے لگا۔
کراچی میں آپریشن دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘ اغواکاروں‘ بھتہ خوروں کے خلاف شروع ہوا ہے۔ بیریئر چونکہ آپریشن میں رکاوٹ ڈالتے ہیں لہٰذا رینجرز نے چار پانچ روز قبل انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ان کا جینا حرام ہو چکا تھا‘ جگہ جگہ تلاشی‘ آمدو رفت میں دقّت اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ طاقتور افراد اورتنظیموں کے بد لحاظ اورجھگڑالو کارکن اور نام نہاد سکیورٹی کمپنیوں کے اجڈ اور گنوار گارڈز کی طرف سے بدتمیزی کون سا شریف آدمی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا ہے مگر ظلم کے آگے زاری‘ جنگل کا قانون رائج ہو تو پابندی ہر کمزور کو کرنی پڑتی ہے۔
سابق آرمی چیف کے گھر سے بیریئر ہٹا کر رینجرز نے اپنی نیک نیتی اور سنجیدگی ظاہر کی ہے اور ایم کیو ایم ‘ پیپلز پارٹی ‘ اے این پی‘ سنی تحریک اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ شہر کو ایک کھلا اور محفوظ شہر بنانے کی راہ پر گامزن ہے اور کسی نوگوایریا کی موجودگی برداشت نہیں کرتی‘ خواہ وہ حفاظتی اقدامات کے نام پر قائم ہوں یا کسی شخص یا گروہ کی طاقت و قوت اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دفاتر بھی موجود ہیں اور جسٹس رفیق تارڑ‘ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہیں بھی‘ جن کے سامنے سے ٹریفک گزرتی ہے اور ان کے دفاتر اور گھروں کے سامنے سے گزرنے والے پاکستانیوں کو ذلت آمیز تلاشی اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور حکمران قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اور اپنے قول و فعل سے قانون کی پاسداری اور مثبت روایات کی حوصلہ افزائی کا تاثر ابھارتے ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم نرالا ہے ۔ یہاں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے الا ماشاء اللہ ہمیشہ قانون کی مٹی پلید کی اور اچھی روایات کا قلع قمع کیا ۔یہاں جرم‘ سیاست و حکومت کی چھتر چھایا میں پروان چڑھا اور صرف کراچی ہی نہیں ملک کے دوسرے صوبوں میں ہر دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ اغوا کار‘ بھتہ خور‘ ڈاکو‘ سمگلر ‘ منشیات فروش اور راہزن کو کسی نہ کسی سیاسی تنظیم‘ گروہ اور رہنما کی سرپرستی حاصل رہی‘ تبھی جرم پھلتا پھولتا رہا۔
کیا خیال ہے دس دس پندرہ پندرہ سال تک سزا یافتہ قاتل کسی قانونی پیچیدگی یا انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے کیفر کردار تک نہ پہنچ سکے یا سیاسی دبائو بروئے کار آیا؟ ہر حکمران اور سیاستدان نے جرم‘ لاقانونیت اور لوٹ مار سے اس لیے چشم پوشی کی کہ اس کا اپنا اور چہیتوں کا دائو بھی لگا رہے۔ اس حمام میں سب ننگے جو ہوئے۔ مگر اب شاید قدرت کو اس قوم پر رحم آیا ہے خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ شمالی وزیرستان سے شروع ہونے والے آپریشن کا دائرہ وسیع ہونے لگا ہے۔ صرف مجرم اس کی زد میں نہیں آ رہے بلکہ ان کے سرپرستوں کے چہرے بھی بے نقاب ہونے لگے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی سے خائف سیاسی وڈیرے اور لٹیرے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو بچانے کے لیے نئی جتھے بندی کر رہے ہیں۔
کراچی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے‘ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘ اغوا کاروں اوربھتہ خوروں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور اس آپریشن پر مخالفانہ آوازیں بھی مدہم پڑنے لگی ہیں‘ کیونکہ فوجی قیادت اور وفاقی حکومت نے ابھی تک کمزوری دکھائی نہ اپنے موقف میں لچک پیدا کی۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق برطانوی حکومت کے ذریعے حکومت کو موصول ہونے والا مشروط معافی نامہ بھی فی الحال زیر التوا ہے البتہ ایک وقت میں کئی محاذ نہ کھولنے کی حکمت عملی کے تحت فی الحال آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ اور دوسرے گروپوں تک وسیع نہ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نہیں چاہتی کہ پیپلز پارٹی کھل کر ایم کیو ایم کا ساتھ دے اور سندھ حکومت رینجرز کو واپس بلانے کی ریکوزیشن داغ سکے۔
مگر کیا یہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کا دانشمندانہ فیصلہ ہو گا؟ کیا محض اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے اور بلاول ہائوس کو ہر قاعدے ‘ قانون اور کارروائی سے مستثنیٰ ثابت کرنے سے سندھ اور کراچی کو فائدہ ہو گا اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بلال ہائوس کے مکینوں کے بارے میں عوامی سطح پر خوشگوار اور مثبت جذبات جنم لیں گے؟ یہ صرف سندھ حکومت نہیں وفاقی حکومت کوبھی سوچنا چاہیے۔ جان و مال کا تحفظ کیا صرف سابق صدور اور طاقتور افراد کا حق ہے؟ لوگ ٹیکس ان کی شان و شوکت برقرار رکھنے کے لیے دیتے ہیں؟ عام آدمی کا بھی کوئی پرسان حال ہے یا نہیں؟ قانون کے امتیازی اطلاق کی بنا پر ہی تو مسلح جتھے وجود میں آئے اور سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ بنے۔
ایم کیو ایم کے لیے نشو و نما اور بقا کا راستہ اب بھی کھلا ہے وہ ایک پُرامن اور اختلاف رائے برداشت کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔ الزامات کے باوجود اس کے کسی رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو آج تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے چھیڑاگیا نہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری اور مہلک‘ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے باوجود نائن زیرو مرکز کی تالہ بندی ہوئی‘ لہٰذا ان گرفتار شدگان یا فی الحال مفرور‘ ان کے جرائم پیشہ ساتھیوں کی خاطر ایم کیو ایم کو اپنی سیاست دائو پر نہیں لگانی چاہیے اور مخالفین کے اس تاثر‘ الزام کو درست ثابت نہیں کرنا چاہیے کہ عسکری ونگ کے بغیر ایم کیو ایم ایک دن سیاست نہیں کر سکتی۔ اگر الطاف بھائی سمیت اہم ترین لیڈروں کو اپنے مناصب کی قربانی بھی دینی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ اب سابق طور طریقے چل سکتے ہیں نہ قومی اداروں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل۔
قوم تو اس آپریشن کے بارے میں پُرامید ہے مگر گورنر کی تبدیلی‘ عزیر بلوچ کی واپسی میں تاخیر اور آصف علی زرداری کے ناقابل فہم طرز عمل کے علاوہ سندھ حکومت کی ڈھلمل یقین پالیسی کی وجہ سے دودھ کے جلے کراچی والے چھاچھ کو فی الحال پھونکیں مار رہے ہیں ماضی کے دو آپریشنوں کا حشر وہ دیکھ چکے اور ان میں جوش و جذبے سے حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کا انجام بھی۔ انہیں خوف یہ ہے کہ آپریشن کا دائرہ وسیع ہوا‘ زد‘ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں‘ قاتلوں اور لٹیروں پر پڑی تو یہ اپنے چھوٹے موٹے سیاسی اختلافات بھلا کر ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے اور فوج اور رینجرز کے خلاف یوں صف آرا ء ہوں گے جیسے یہ قومی ادارے واقعی کریمنلز کو نہیں جمہوریت کے محافظوں کی سرکوبی کر رہے ہیں‘ بے چاری جمہوریت! ایک جرائم پیشہ کو سیاسی کارکن اور جمہوریت پسند بنتے اور سیاستدانوں کو اپنا موقف بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ برسوں سے یہ تماشا جاری ہے اور قوم کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کسی کو مجرم‘ قانون پسند‘ جمہوریت پرست اور جمہوریت دشمن قرار دینے کا معیار کیا ہے؟
رینجرز کراچی کی ہر سڑک‘ گلی‘ محلے میں قائم دفتر اور محل کے سامنے سے بلا امتیاز و تفریق بیریئر ہٹانے میں کامیاب رہی اور کوئی سیاسی مصلحت ‘ انتظامی حکم اور حفاظتی بہانہ رکاوٹ نہ بنا تو سمجھیے کہ آپریشن کے اگلے مراحل بھی کامیابی سے ہمکنار ہو ں گے۔ کہیں خود ساختہ حفاظتی رکاوٹیں نظر آئیں گی نہ مسلح جتھے اور نہ ریاستی اداروں کے ذریعے مخالفین کی سرکوبی کا ماحول۔ جرائم پیشہ افراد اعلیٰ ایوانوں میں نہیں سلاخوں کے پیچھے نظر آئیں گے۔اور سیاست عوام دوست شرفا کا مشغلہ قرار پائے گا۔
عزم راسخ‘ نیک نیتی اور محنت کبھی رائگاں نہیں جاتے ؎
تو محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا‘ ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تے مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا
چمن آباد رکھ‘ بادِ صبا جانے‘ خدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے‘ مگر بے کار نئیں ویندی
دعا شاکر تو منگی رکھ‘ دعا جانے‘ خدا جانے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں