مودی اور پاگل گائے

خدا کا شکر ہے ہماری سیاسی قیادت نے انگڑائی لی۔ نریندر مودی‘ منوہر پاریکر اور کرنل (ر) وردھن راٹھور کے اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس لیا اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں بھی کھل کر بات ہوئی۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی طرح مسلم لیگی رہنمائوں چودھری نثار علی خان‘ مشاہداللہ خان‘ راجہ ظفرالحق‘ خواجہ آصف نے بھی بھارتی قیادت کو آئینہ دکھایا مگر میاں نواز شریف نے دونوں ایوانوں میں سے کسی میں اس موضوع پر اظہار خیال مناسب نہ سمجھا۔ معلوم نہیں کیوں؟ع
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
کوئی نیا ممبی ہوا نہ مقبوضہ کشمیر میں تازہ واقعہ مگر بھارتی حکومت اچانک اشتعال انگیزی پر اُتر آئی؟ اُسے1971ء کی یاد ستانے لگی؟ اور کانٹے سے کانٹا نکالنے‘ گرم تعاقب اور پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں ہونے لگیں؟ نریندر مودی ہندتوا کے پرچارک اورگئو ماتا کے پجاری ہیں‘ کوئی سوچ نہیں سکتا کہ اس سبزی خور سیاستدان نے کسی پاگل گائے کا گوشت چکھ لیا‘ اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا۔ کوئی بھارت بھگت یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جہادیوں نے معاملہ بگاڑ دیا۔ البتہ ایران کو شیشے میں اتارنے کے بعد امریکہ اس خطے میں نئی گریٹ گیم کا خواہش مند ہے‘ قرین قیاس یہ ہے کہ بھارت اس گریٹ گیم کا حصہ بننے کے لیے بے قرار ہے اور پاکستان کو رکاوٹ سمجھ کر دبائو میں لانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف بیان بازی نہیں عملی اقدامات بھی جاری ہیں۔
روزنامہ دنیا کی ایک رپورٹ کے مطابق جس کی تاحال تردید نہیں ہوئی! ''را‘‘ نے حالیہ برسوں کے دوران پاکستان میں اپنے 34 ہزار تربیت یافتہ دہشت گرد داخل کئے۔ ان میں سے 12 ہزار سندھ‘ 9 ہزار پنجاب‘ 8 ہزار خیبر پختونخوا اور 5 ہزار کو بلوچستان میں ٹارگٹس دیے گئے ہیں۔ بھارتی آرمی یونٹ ٹی ایس ڈی صرف پاکستان میں بدامنی پھیلانے پر مامور ہے اور اس کا رابطہ پاکستان کی مختلف عسکریت پسند تنظیموں سے ہے‘‘۔ ہو سکتا ہے ان بھارتی ایجنٹوں نے حالات سازگار ہونے کی رپورٹ دی ہو اور بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کو دبائو میں لانے اور 1971ء کی طرح احساس جرم میں مبتلا کرنے کے لیے دھمکیوں اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا ہو۔
1971ء میں بھارت کی تکنیک کیا تھی؟ پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف الزام تراشی کی مہم‘ انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا اور محب وطن پاکستانیوں کا دل کھول کر قتل عام۔ تربت میں مزدوروں اور بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کے علاوہ مختلف نسلی‘ لسانی اور مسلکی شناخت رکھنے والے معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے اور کراچی میں پولیس اہلکاروں پر حملے بھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں‘ جس کا مقصد حکومت کی رٹ ختم کرنا‘ مختلف علاقائی‘ صوبائی‘ نسلی‘ لسانی اور مسلکی طبقات کے مابین تعصب اور نفرت کا بیج بونا اور متاثرہ گروہوں کو بیرون ملک دیکھنے پر مجبور کرنا ہے تاکہ بھارت کوئی نئی مکتی باہنی یا مجیب باہنی آسانی سے تشکیل دے سکے۔
نریندر مودی نے ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے 1971ء میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج کی مشترکہ جدوجہد کا ذکر کیا جو پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف تھی‘ مگر ہمارے حکمران اور دانشور اب بھی قوم کو یہ بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ ریاست اور اس کی فوج مشرقی پاکستان میں آپریشن پر کیوں مجبور ہوئی جس کے دوران بعض مذموم واقعات پیش آئے‘ ناانصافی ہوئی اور ان زیادتیوں کو خوب اچھالا گیا۔ بھارتی ایجنٹوں کی ظالمانہ کارروائی کی ایک جھلک ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی رپورٹ (مئی 1971ء) میں ملتی ہے ''جن نامہ نگاروں نے ساحلی شہر چاٹگام کا دورہ کیا‘ انہیں معلوم ہوا کہ یہاں باغیوں نے ہزاروں (جی ہاں ہزاروں) غیر بنگالیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا‘ ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ باغیوں نے چاٹگام پر قبضہ کے بعد غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔ 11 اپریل 1971ء کو فوج نے بھرپور کارروائی کے بعد قبضہ چھڑایا‘‘
دی سنڈے ٹائمز (لندن) کے مطابق: ''چاٹگام میں ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کر دیا گیا۔ اس کی حاملہ بیوی سے زیادتی کی گئی اور اس کا پیٹ چاک کر کے اسے سڑک پر پھینک دیا گیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کئے گئے‘ افسر کی بیوی کا آبروریزی کے بعد پیٹ چیر دیا گیا اور برہنہ جسم پر بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔ بہت سے غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں جن کے نازک اعضا میں بنگلہ دیشی پرچم کی ڈنڈیاں گڑی تھیں‘‘ ایسی ہی رپورٹیں 1971ء میں نیو یارک ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندوں میلیکم برائون اور پیٹر گل کے حوالے سے شائع ہوئی تھیں مگر آج تک حوالہ صرف ان پمفلٹوں‘ بیانات اور تشہیری مواد کا دیا جاتا ہے جو بھارت‘ عوامی لیگ‘ مکتی باہنی نے پاکستان‘ فوج اور رضاکاروں کو بدنام کرنے کے لیے پھیلایا اور پروپیگنڈا ہوا کہ ''معصوم‘ غیر مسلح اور سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو لاکھوں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا‘ تین لاکھ خواتین سے زیادتی ہوئی اور دانشور و پروفیسر فوجی تشدد کا نشانہ بنے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
جنرل یحییٰ خان‘ ٹکا خان اور نیازی کی حماقتیں اپنی جگہ‘ غیر ملکی صحافیوں کو فائیو سٹار ہوٹل تک محدود کرنا بہت بڑی غلطی تھی جہاں سے من پسند رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں اور یہی پروپیگنڈا‘ مواد ان دنوں انٹرنیٹ پر موجود ہے مگر بنگالی سکالرز نے جو کتابیں لکھیں‘ وہ نوجوان نسل بالخصوص ہمار ے لکھاریوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں‘ بالخصوص وہ بنگالی سکالرز جو عوامی لیگ کے حامی اور پاکستان کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنعم چودھری انہی میں سے ایک ہیں جو اپنی کتاب BEHIND THE MYTH OF THREE MILLION میں بنگالیوں کے بیانات‘ واقعاتی شہادتوں سے جیوتی سین گپتا‘ عبدالحسنات اور جوہری کے دعووں اور غیر حقیقی اعداد و شمار کے بخئے ادھیڑ چکے ہیں۔
عبدالمنعم چودھری نے اپنی کتاب میں ایک بنگالی دانشور شہیداللہ قیصر کے چھوٹے بھائی ظہیر ریحان کا حوالہ دیا ہے جو اپنے بھائی کے اصلی قاتلوں کی تلاش میں حقائق اکٹھے کرتا رہا۔ اس کے پاس کچھ تصویریں تھیں اور کلکتہ میں مقیم ایک بڑے عوامی لیگی رہنما کے بارے میں معلومات مگر اسے دن دیہاڑے اغوا کر کے غائب کر دیا گیا کیونکہ اغوا کار نہیں چاہتے تھے کہ دانشوروں کے قتل کا افسانہ طشت از بام ہو اور عوامی لیگی پروپیگنڈے کی قلعی کھلے۔ اس کے باوجود پاک فوج اور پاکستان آج تک کٹہرے میں کھڑے حسینہ واجد‘ نریندر مودی اور دیگر کی دشنام طرازی سہہ رہے ہیں ؎
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں مرے طرفدار کیا ہوئے
1971ء کے سانحہ پر میاں نواز شریف‘ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری بنگالی عوام سے معافی مانگ چکے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں اور زیادتیوں پر معافی مانگنا کوئی عیب ہے نہ باعث شرمندگی مگر حسینہ واجد نے یہ معافی قبول کی نہ بنگلہ دیش کی تشکیل کے ذمہ دار بھارت نے۔ اب جبکہ نریندر مودی اور اس کے وزیروں نے خود ہی اپنی دہشت گردی‘ دراندازی اور مستقبل میں جارحانہ عزائم کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے تو محض سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی قراردادیں اور مذمتی تقریر یں کافی نہیں۔
حسینہ واجد اور نریندر مودی سے معافی کا مطالبہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع اور موثر و ٹھوس سفارتی مہم تقاضائے مصلحت ہے‘ تاکہ بھارتی حکومت پر عالمی دبائو بڑھے اور وہ خطے میں امریکہ کا چوکیدار بننے اور اس کے کندھوں پر چڑھ کر اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی اپنی مجنونانہ خواہش پر قابو پائے‘ اردگرد کے ممالک کی آزادی‘ خود مختاری‘ سلامتی اور استحکام کے لیے مسلسل خطرہ بننے والی ریاست کو سلامتی کونسل میں لا بٹھانا بھیڑیے کو بھیڑوں کی رکھوالی پر مامور کرنے کے مترادف ہے‘ جس کا احساس عالمی برادری کو ہم نہیں دلائیں گے تو کسی دوسرے کو کیا پڑی ہے۔ امریکہ کی ستم رسیدہ اقوام بالخصوص پاکستان و عالم اسلام کے لیے تو یہ دوہرا عذاب ہو گا۔
پاکستان جنگ کا خواہاں ہے‘ نہ قوم جنگی جنون میں مبتلا مگر عوام کو کنفیوژن سے نکالنا ضروری ہے۔ ہر پاکستانی کو یہ علم ہونا چاہیے کہ بھارت ہمارا دوست ہے‘ دشمن یا کاروبار ی شراکت دار۔ ہر معقول آدمی دوست‘ دشمن اور کاروباری حصہ دار سے معاملات الگ الگ انداز میں نمٹاتا ہے۔ کنفیوژن میں قوت فیصلہ ہی برقرار نہیں رہتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس اس مقصد کے لیے طلب کیا جائے۔ فوجی قیادت اور سفارتی کور بھارتی عزائم پر ان کیمرہ بریفنگ دے‘ وزیر اعظم قوم کو جوابی دفاعی حکمت عملی کے حوالے سے اعتماد میں لیں اور مہاشے کو بتائیں کہ پاگل پن کا بھی ایک طریقہ ہے (There is Method in Madness)۔ دو ایٹمی قوتوں میں ''زبان کی جنگ‘‘ کوئی مذاق نہیں۔ زبان کے زخم تلوار سے زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات بڑے تصادم کا پیش خیمہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں