کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘ نیب نے بھی از خود یا کسی کی تھپکی پر جھرجھری لی اور سپریم کورٹ میں کرپشن کے 150میگا سکینڈلز کی فہرست پیش کر دی۔ یہ دیگ کے چند چاول ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے
یہ فہرست کیا ہے؟ ہمارے حکمرانوں اور ان کے چہیتے وزیروں مشیروں بیورو کریٹس اور سیٹھوں کے اخلاقی دیوالیہ پن اور مالی خیانت کی شرمناک داستان۔ اس فہرست پر اب تک اعتراض یہ ہوا ہے کہ مقدمات پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بنائے گئے۔
پرویز مشرف فوجی آمر تھا‘ ہر لحاظ سے گردن زدنی ‘ اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے آئین کو پامال کر کے اقتدار حاصل کیا قوم کو احتساب ‘ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھائے مگر قابل مواخذہ سیاسی ٹھگوں‘ لٹیروں‘ نوسربازوں اور خائنوں کو شریک اقتدار کر لیا۔ جو جیل کے حق دار تھے وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے اور احتساب کا نعرہ وفاداریاں تبدیل کرنے کا ہتھیار بن گیا۔ مگر کیا پرویز مشرف نے صرف یہی ایک کام کیا؟
پرویز مشرف نے سینٹ ‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بے محابا اضافہ کیا۔ خواتین کی مخصوص نشستیں بحال کیں اور این آر او کے ذریعے قاتلوں ‘ اغوا کاروں‘ لٹیروں‘ اور بھگوڑوں کی سزائیں معاف کر کے انہیں اہم ریاستی عہدوں کا اہل قرار دیا۔ کسی نے آج تک اعتراض نہیں کیا۔ 1973ء کا آئین اصل حالت میں بحال کرنے کے دعویداروں نے بھی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ان تمام آئینی ترامیم اور قوانین کو برقرار رکھا؛ البتہ ارکان اسمبلی کے لیے بی اے کی شرط ختم کر دی اور بلدیاتی نظام کو معطل کر دیا جو آج تک سندھ اور پنجاب میں معطل ہے۔ کڑوا کڑوا تھو‘ میٹھا میٹھا ہپ۔ تعلیم یافتہ ارکان اسمبلی اور بلدیاتی نظام ہمارے جمہوریت پرستوں کو ہرگز گوارا نہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے 150میگا سکینڈلز کی فہرست تو پیش کر دی ہے مگر یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ 2008ء سے اب تک ان سکینڈلز کی تحقیقات میں کیا امر مانع رہا‘ پرویز مشرف تو 2008ء کی تیسری سہ ماہی میں رخصت ہو گئے تھے اور سپریم کورٹ نے ان کے این آر او کو بھی ایک شرمناک قانون کے طور پر دیس نکالا دے دیا تھا۔ اس کے باوجود ان مقدمات کی سماعت کیوں نہ ہوئی اور قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کر ناناجی کی فاتحہ پڑھنے والوں سے بازپرس کیوں نہ کی گئی؟
جو اقتدار میں تھے نہ اس قدر بااختیار کہ نیب کی کارروائی میں رکاوٹ ڈال سکیں ان سے پوچھ گچھ کیوں نہ ہوئی‘ ان کی فائلوں کو دیمک کیوں چاٹتی رہی؟ محض اس لیے کہ یہ ماضی میں صاحب اختیار و اقتدار تھے اور مستقبل میں پھر ان کی باری آ سکتی ہے۔ گویا ہر وہ شخص جو کسی وقت بھی ایم پی اے‘ ایم این اے‘ ضلع ناظم‘ رکن اسمبلی اور وزیر‘ مشیر بننے کی اہلیت رکھتا ہے احتساب سے بالاتر ہے اور لوٹ مار‘ اختیارات سے تجاوز اور سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کا پیدائشی حق دار۔
احتساب کا نعرہ1997ء میں میاں نواز شریف نے شدومد سے لگایا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی تشکیل میں جن لوگوں سے مشاورت کی ان میں سے بعض میاں صاحب کے مخبر تھے اور چند وظیفہ خوار‘ عمران خان احتساب کا نعرہ لگا کر سیاسی میدان میں اترنا چاہتے تھے مگر مخبری ہونے پر میاں صاحب نے یہ نعرہ لگا دیا۔ سرے محل کی خریداری‘ تھرمل پاور پراجیکٹس سے کک بیکس کی وصولی اور ملک کے بااثر صنعتکاروں و تاجروں پر دبائو ڈال کر بھاری رقوم بٹورنے کے الزامات لگا کر میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مہم چلائی اور فاروق لغاری سے مل کر حکومت اور اسمبلی کو برخاست کرا دیا۔
1997ء کے انتخابات میاں صاحب نے شفاف حکمرانی اور بے لاگ احتساب کے نعرے پر جیتے اور سیف الرحمان کی قیادت میں ایک احتساب بیورو بنایا جسے بعدازاں پرویز مشرف نے نیب میں تبدیل کیا۔سیف الرحمن کا احتسابی عمل یکطرفہ تھا پیپلز پارٹی کے لیے جلاد کا کوڑا اور مسلم لیگیوں کے علاوہ ان کے اتحادیوں کے لیے شیر مادر۔ یوں لگتا تھا کہ سارے لٹیرے اور ٹھگ پیپلز پارٹی میں جمع ہو گئے ہیں اور تمام فرشتے مسلم لیگ میں مسند نشیں ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سوئس اکائونٹس اور سرے محل محض افسانہ تھے بعدازاں اپنے دور اقتدار میں آصف علی زرداری نے سیف الرحمن کے الزام پر مہر تصدیق ثبت کی۔
پرویز مشرف نے بھی اس قوم اور احتساب کے عمل کے ساتھ یہی ظلم کیا۔ نیب کو مطلوب جس سیاستدان نے پرویزی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کی وہ دودھ کا دھلا ثابت ہوا اور جس کسی نے چوں چرا کی وہ گردن زدنی ٹھہرا۔150میگا سکینڈلز بھی پرویزی دور میں سرد خانے کی نذر ہوئے کچھ پرویزی قبیلہ میں شمولیت اور کچھ این آر او کی برکت کے سبب احتساب و مواخذے سے بچ گئے مگر کیا اس قوم کی کوئی سننے والا نہیں؟ کیا احتساب کا کوڑا کبھی برسے گا نہیں اور بلا امتیازو بلا تفریق مواخذہ کی ابتدا کبھی ہو گی نہیں؟ ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
آثار یہی ہیں کہ منتخب حکمرانوں کی سہل پسندی‘ غفلت شعاری اور حد درجہ بے نیازی سے اکتا کر قدرت کو اس ملک کے مظلوم‘ بے بس مگر شریک جرم عوام کے حال پر رحم آ گیا ہے اور کسی غیبی اشارے پر سپریم کورٹ‘ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر ریاستی ادارے اچانک متحرک ہو گئے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاست اور جرم ہی اس ملک میں ایک دوسرے سے بغل گیر نہیں بلکہ دہشت گردی‘ سنگین جرائم اور کرپشن میں بھی چولی دامن کا ساتھ ہے اور جب تک ہر طرح کی کرپشن کا قلع قمع نہیں ہوتا دہشت گردی‘ اغوا کاری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور قبضہ گیری کا سدباب ممکن نہیں۔
اپنے حق میں سب سے بڑی دلیل پوّتر لٹیرے یہ لاتے ہیں کہ آج تک ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ چہ خوب۔ آج تک ان قومی لٹیروں سے کسی نے ڈھنگ کی تفتیش کب کی؟ فائیو سٹار سہولتوں سے آراستہ گھروں یا جیلوں کے مخصوص سیلوں میں ان سے پوچھ گچھ کون کرتا ہے؟ ایان علی جس دھج سے عدالت میں پیش ہوتی ہے کیا اٹک‘ راجن پور‘ چار سدہ اور خیر پور ناتھن شاہ میں چوری چکاری کے مجرم کو بھی اسی انداز میں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور حوالات و جیل میں انہیں بھی یہی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان 150میگا سکینڈلز میں ملوث شخصیات کو تھانہ شاہوالی میں تعینات کسی ڈائریکٹ حوالدار کے سپرد کیا جائے اور اسے یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ دوران تفتیش کوئی مداخلت ہو گی نہ تفتیش کے بعد وہ کسی کے عتاب کا نشانہ بنے گا تو اسے سارا کھایا پیا اگلوانے میں چوبیس گھنٹے بھی نہیں لگیں گے۔ تفتیشی کو جب علم ہو کہ ملزم سے رعایت برتنے پر ترقی درجات لازم اور کسی نازیبا حرکت پر سزا واجب حتیٰ کہ کراچی کے 200پولیس اہلکاروں کی طرح موت کا اندیشہ بھی تو بھلا کون پاگل ان سے اعترافی بیان حاصل اور مال مسروقہ برآمد کر سکتا ہے۔ رینجرز نے مجرموں پر ہاتھ ڈالا تو سندھ حکومت آڑے آ گئی اور اب رینجرز کی واپسی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے چھاپے نہ مارنے کی ہدایت جاری ہوئی ہے ۔مجرموں کے ہاتھ اتنے لمبے ہوں کہ وہ رینجرز کی میعاد میں توسیع نہ ہونے دیں تو پھر کیسی تفتیش اور کون سی سزا؟
پاکستان میں حکمران اشرافیہ نے ایک دوسرے کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ ضیاء الحق نے حکمرانوں کے کلب کی بات کی تو سب نے بُرا منایا مگر ہے یہ حقیقت۔ یہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہتے‘ ایک دوسرے کے کپڑے بیچ بازار کے اتارتے اور جی بھر کر ملاحیاں سناتے ہیں مگر کبھی کسی کو قانون کے شکنجے میں کس کر عبرت ناک مثال نہیں بناتے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں حکمرانی کے لیے باریاں لگا رکھی ہیں مگر احتساب کی باری نہیں آنے دیتے۔ میثاق جمہوریت دراصل میثاق خیانت ہے من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو
ترکی کی خاتون اول کا ہار یوسف رضا گیلانی سے برآمد ہوا‘ آصف علی زرداری سوئس اکائونٹس میں موجود چھ سو ملین ڈالر‘ قیمتی نیکلس اور سرے محل لے اڑے‘ ایل این جی کے جہاز پاکستانی بندرگاہوں پر اتر رہے ہیں کسی کو آج تک نرخ معلوم نہ اصل مالکوں کا اتہ پتہ۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں؟ نیب نے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے جن گھپلوں کی تفصیل‘ سپریم کورٹ میں پیش کی ان میں سے بعض پایۂ ثبوت کو پہنچ چکے مگر مجال ہے کہ کسی کو سزا ملی ہو یا ملنے کی امید ہو کیونکہ میثاق جمہوریت‘ این آر او اور مفاہمتی سیاست میں احتساب شجر ممنوعہ ہے۔ ایک سوال ان لٹیروں سے بھی:
Once you get beyond a million dollars, it's still the same hamburger.
یہ میرے نہیں بل گیٹس کے الفاظ ہیں۔