دال میں کچھ کالا ہے

عمران خان نے اچھا کیا‘ لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی دستبرداری کا نوٹس لیا اور چھان بین کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔ خواجہ احمد حسان کے مقابلے میں دستبردار ہونے والے امیدوار طوطا مینا کی جو کہانی سنا رہے ہیں وہ بے حد مشکوک ہے۔
دبائو پر کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد لاہور کی قیادت کو یہ باور کرانا کہ انہیں پولیس نے ہراساں کیا اور وہ سرکاری امیدوار کے مقابلے میں دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے مگر مجبور ہو گئے‘ پنجابی محاورے کے مطابق گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔ یہ بات دونوں امیدوار وںنے دستبرداری سے قبل اپنی قیادت کے گوش گزار کیوں نہ کی؟ بیک وقت دونوںامیدوار بھیڑ کیوں بن گئے؟ اور جو ٹسوے اب بہائے جا رہے ہیں وہ پہلے کیوں نہ بہائے۔؟ وغیرہ وغیرہ
مخالف امیدواروں پر دبائو‘ پولیس و انتظامیہ کا استعمال اور بلا مقابلہ کامیابی کی کوشش ہماری سیاست میں دیرینہ معمول ہے۔ مکروہ معمول۔ ماضی میں یہ حرکت اعلیٰ ترین سطح پر ہوتی رہی۔ 1977ء میں ایسی حرکتوں کی بنا پر بھٹو حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا اور معاملہ اتنا خراب ہوا کہ فوج کو مداخلت کا موقع مل گیا۔1985ء سے 2013ء کے دوران ہونے والے عام انتخابات میں بھی اہم سیاستدان یہ اہتمام کرتے رہے اب بلدیاتی سطح پر یہ کام ہونے جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) شائد میئر لاہور کے لیے اپنے نامزد امیدوار کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ حالانکہ خواجہ حسّان اچھی شہرت‘ تواضع و انکسار اور عوامی خدمت کی بنا پر محمد نواز چودھری جیسوں کا مقابلہ اعتماد سے کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے امیدوار محمد نواز چودھری نے خیر جو کیا سو کیا‘ دبائو میں آیا‘ لالچ کا شکار ہوا یا تحریک انصاف سے کوئی پُرانا بدلہ چکایا مگر سوال یہ ہے کہ ایسے کمزور اور پارٹی ڈسپلن کو پرکاہ کے برابر وقعت نہ دینے والے امیدوار کو ٹکٹ کن خدمات پر دیا گیا؟ کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ موصوف خواجہ احمد حسّان کے مدمقابل کھڑے ہونے کی اہلیت واستطاعت بھی رکھتے ہیں یا پہلی ہی یلغار میں ڈھیر ہو جائیں گے ؟ مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ صرف نواز چودھری نے نہیں کیا۔ خواجہ احمد حسّان کی کامیابی کی راہ تحریک انصاف نے خود بھی ہموار کی۔ مگر وہ کیسے؟
تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خواجہ احمد حسان کے مقابلے میں محمد نواز چودھری اور رانا محمد اصغر پر مشتمل پینل کے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت سیاسی و انتخابی روایات کے مطابق متبادل پینل کے کاغذات جمع کرانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی حالانکہ سیانے امیدوار ایک نہیں دو دو متبادل امیدواروں کے کاغذات جمع کراتے ہیں تاکہ ایک کے بعد دوسرا امیدوار بھی دبائو کا شکار ہو‘مالی ترغیب قبول کرے یا نااہلی کا نشانہ بنے تو مخالف امیدار بلامقابلہ کامیاب نہ ہونے پائے۔ سردار ایاز صادق اور علیم خان نے اسی بناء پرمتبادل امیدواروں کے کاغذات جمع کرائے، مگر تحریک انصاف کی ''دور اندیش‘‘ قیادت نے یہاں چیئرمین اوروائس چیئرمین شپ کے ایک ایک امیدوار ہی کے کاغذات جمع کرائے اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اگر کسی قانونی یا تکنیکی بنیاد پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تو تحریک انصاف کی سبکی ہو گی اور مسلم لیگ کا امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے اس موقف کو اگر قبول بھی کر لیا جائے کہ ان کا امیدوار سرکاری دبائو کا مقابلہ نہیں کر سکا‘ جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں نے بھی یہاں اپنا پینل نامزد نہیں کیا اور خواجہ احمد حسّان کے علاوہ حکومت نے پولیس و انتظامیہ کے ذریعے آزاد امیدواروں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکا تو پھر بھی متبادل پینل اور امیدوار نامزد نہ کرنے کا کوئی ٹھوس جواز پیش کرنا مشکل ہے۔دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ چودھری محمد سرور‘شفقت محمود‘ اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید جیسے گرم و سرد چشیدہ سیاستدان اگر اتنی سی بات بھی نہیں جانتے تو پھر مسلم لیگ (ن) کی گرگ باراں دیدہ قیادت کا مقابلہ تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں اور مخالفین کو یہ کہنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ 2013ء میں بھی تحریک انصاف اپنی ایسی ہی بوالعجیبوں کی وجہ سے انتخابی اکھاڑے میں چت ہوئی۔
عمران خان نے امیدواروں کو شوکاز نوٹس دیا اور معاملے کی چھان بین کے لیے کمیٹی تشکیل دی مگر یہ جنگ کے بعد یاد آنے والا مکّا ہے جسے سیانے اپنی ناک پر مارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک دوسرے امیدوار شفقت ‘ کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔ عمران خان کو ایک بار پھر ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کی نامزدگی کے معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے محض صوبائی حکومت‘ پولیس اور انتظامیہ کے خلاف اپنی بھڑاس نکال کر مطمئن ہو کر بیٹھ جانا کسی مسئلہ کا حل ہے‘ نہ دھاندلی کا شور مچا کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا تقاضائے دانشمندی۔ مخالفین سے یہ توقع کرنا کہ وہ ماضی کی طرح پولیس و انتظامیہ پر انحصار نہیں کریں گے اور تحریک انصاف کی غلطیوں بلکہ حماقتوں سے درگزرکریں گے خوش فہمی ہے جس کی سیاست میں گنجائش نہیں۔
تحریک انصاف لاہور میں بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ حلقہ این اے 122کا معرکہ اگر وہ سر نہ کر سکی تو اسے عوام اور اپنے پُرجوش کارکنوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ ٹربیونلز کے فیصلوں سے اسے مسلم لیگ (ن) پر جو اخلاقی برتری حاصل ہوئی اسے برقرار اور کارکنوں کو آئندہ عام انتخابات تک متحرک ر کھنا اس کی مجبوری ہے۔ صرف لاہور ہی نہیں پورے پنجاب و پاکستان میں مضبوط‘ منظم اور متحد تحریک انصاف ہی یہ اہداف حاصل کر سکتی ہے مگر یو سی107میں تحریک انصاف کی کارگزاری ایسی نہیں کہ کارکن امیدوں کی فصل کاشت کر سکیں۔
یوں تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس میں دھڑے بندی نہیں یا وہ تنظیمی کمزوریوں سے پاک ہے‘ اب تو جماعت اسلامی بھی اس سے مبرا نہیں‘ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں یہ بھی دھڑے بندی کا شکار ہوئی مگر تحریک انصاف اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بدنام ہے۔ یو سی 107میں ناقص حکمت عملی‘ کے علاوہ دھڑے بندی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ورنہ اتنی بڑی غلطی کاارتکاب یوں آسانی سے نہ ہوتا۔ عمران خان نے اگر خود لاہور میںبیٹھ کر یہ دھڑے بندی ختم نہ کرائی تو حلقہ 122کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اتحاد و اتفاق کے جوہر سے محروم ہونے کے بعد کامیابی کی منزلیں آسانی سے طے نہیں کر سکتیں۔ پیپلز پارٹی ان دنوں اس مرض کا شکار ہے اور سندھ میں مسلم لیگ اسی بنا پر پیپلز پارٹی کے سامنے کھڑے رہنے کے قابل نہیں۔
تحریک انصاف نے تو ابھی وہ عروج دیکھا ہی نہیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دیکھنے کے بعد اضمحلال اور زوال کی طرف گامزن ہیں۔ تحریک انصاف کا اصل سرمایہ بلاول ہائوس‘ جاتی اُمرا اور ظہور پیلس کی منڈیر سے اُڑ کر بنی گالہ کے دالان میں اترنے والے فصلی بٹیرے ہیں نہ کپتان کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کرنے والے الیکٹ ایبلز‘صرف اور صرف مخلص ‘ پرجوش اور باشعور کارکن ہی پی ٹی آئی کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن اگر بلدیاتی انتخابات میں بھی انہیں نظر انداز کر کے لوٹوں‘ لٹیروں اور طاقتور امیدوار کے سامنے بھیگی بلی بن جانے والوں کو ٹکٹوں سے نوازا گیا تو نتیجہ 2013ء کے انتخابات سے مختلف نہیں ہو گا۔2013ء میں تو دھاندلی کے الزام نے دھڑے بندی‘ ناقص حکمت عملی‘ ٹکٹوں کی خریدوفروخت اور متنازعہ فیصلوں پر پردہ ڈال دیا تھا مگر اب عوام کوئی عذر تسلیم کریں گے نہ کارکن سننے پرآمادہ ہوں گے۔
سیاسی جماعتیں جب تک یونین کونسل کی سطح پر منظم نہیں ہوں گی‘ فیصلے کور کمیٹی جو بالعموم سربراہان کے دوست احباب پر مشتمل ہوتی ہے‘ کے بجائے نچلی سطح سے منتخب ہونے والی ایگزیکٹو کونسل اور جنرل کونسل میں نہیں ہوں گے اور ٹکٹیں عوامی مقبولیت ‘ اچھی شہرت اور پارٹی خدمات کی بنا پر تقسیم نہیں کی جائیں گی‘ کوئی سیاسی جماعت اپنا قومی کردار بطریق احسن ادا کر سکتی ہے‘ نہ جمہوریت کے استحکام میں مددگار ثابت ہو گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے پہلو تہی کی‘ انجام سامنے ہے۔ تحریک انصاف کم از کم ان غلطیوں سے گریز کرے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں