کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

بلدیاتی انتخابات اور تحریک انصاف دونوں کا شکریہ۔ بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد نہ ہوتی اور عمران خان شور نہ مچاتے تو کسان و کاشتکار بے چارے اتنے خوش قسمت کہاں کہ انہیں وزیر اعظم کھربوں روپے کی مراعات سے نوازتے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ حقیقی اپوزیشن اور نچلی سطح پر منتخب ادارے عوامی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کسان کنونشن میں کسانوں کے لیے 341ارب مالیت کے پیکیج کا اعلان کیا‘ تو حکومت کے حامیوں نے حسب دستور داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے اور اپوزیشن نے حسب عادت پیکیج میں کیڑے نکالے۔ بعض زرعی ماہرین نے بھی اپوزیشن رہنمائوں کی ہاں میں ہاں ملائی مگر یہ آدھے خالی اور آدھے بھرے گلاس والی بحث ہے۔ امید پرستوں کے نزدیک کچھ نہ ہونے سے کچھ ہوتے رہنا بہتر ہے۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔ مگر مثالیت پسندوں کے نقطہ نظر سے اول اس پیکیج سے کسانوں اور کاشتکاروں کے درد کا درماں نہ ہو گا‘ دوسرے‘ چائے کی پیالی اور منہ کے درمیان فاصلہ بہت ہیع
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
اور اگر عملدرآمد کی نوبت آئی بھی تو حکومت کے چہیتے زمیندار اور جاگیردار مستفید ہوں گے غریب آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔ ماضی میں وزیر اعظم کے اعلان کردہ پیکیج سرد خانے میں پڑے آخری سانس لے رہے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ
گزشتہ روز گورنر ہائوس میں ملک اللہ بخش کلیار کی قابل مطالعہ کتاب ''اسرار دل‘‘ کی تقریب رونمائی میں ملتان کے ممتاز صحافی ظہور احمد دھریجہ گلہ کر رہے تھے کہ شہر کو مزید یونیورسٹیوں‘ کیڈٹ کالج‘ زرعی تحقیق کے اداروں‘ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کی ضرورت ہے‘ مگر تخت لاہور میٹرو بس کو ملتانیوں کے درد کا درماں سمجھ کر سرائیکی وسیب پر احسان دھرنا چاہتا ہے۔ دھریجہ صاحب کچھ غلط بھی نہیں۔ حکومت کی بے اعتنائی اور غلط ترجیحات کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں آم اور انار کے باغات اجڑ رہے ہیں اور کپاس کے کاشتکار رو پیٹ کر تھک گئے ہیں‘ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بچہ بھوک سے بلک‘ پیاس سے تڑپ رہا ہے اور بخار کی شدت سے اس پر تشنج جاری ہے‘ مگر مسیحا اُسے خوش رنگ چوسنی سے بہلانے اور اس کے رونے دھونے کو اظہار مسرت ثابت کرنے پر مُصر ہے۔
یہ اکیلے ملتان یا سرائیکی وسیب کا مسئلہ نہیں‘ پورے ملک میں صورتحال کم و بیش یکساں ہے۔ لوگ صاف پانی‘ دو وقت کی روٹی‘ بخار کی گولی اور جان و مال‘ عزت و آبرو کے تحفظ کو ترستے ہیں‘ مگر حکمران کہیں میٹرو بس‘ اورنج لائن ریلوے اور دنیا کے سب سے بڑے سولر پارک کے فوائد گنواتے ہیں اور کہیں مفاہمتی سیاست اور جمہوریت کے لیے قربانیوں کی لوری سناتے ہیں۔ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے نقد‘ سینکڑوں سرکاری محافظ‘ عیش و عشرت کا سامان‘ غیر ملکی دورے‘ بینک اکائونٹس اور بیرون ملک جائیدادیں مگر عوام کے لیے محض لوریاں اور جھنجھنے۔
قوم کی اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ جب وہ سکول اور ہسپتال مانگتی ہے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر زور دیتی ہے‘ کسان ٹیوب ویل کے لیے رعایتی نرخوں پر بجلی طلب کرتا ہے اور گندم‘ کپاس‘ دھان اور گنے کے کاشتکار سرکاری نرخوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ آئی ایم ایف نے زر تلافی دینے پر پابندی لگا دی ہے‘ ہمارے ہاتھ بندھے ہیں‘ خزانہ خالی اور وسائل کی کمی ہے اور بھلے وقتوں کا انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے مگر نمائشی منصوبوں کے لیے وسائل کی کمی ہے‘ نہ لوٹ مار کے لیے وسائل کا فقدان اور نہ بلدیاتی انتخابات کے علاوہ عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کسانوں اور کاشتکاروں کو پانچ ہزار روپے فی ایکڑ نقد رقم دینے میں کوئی مضائقہ۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تین گنا کم ہونے کے باوجود مقامی مارکیٹ میں صارفین کو آٹے میں نمک کے برابر رعایت دینے والی حکومت کاشتکاروں پر اچانک مہربان کیسے ہو گئی؟ اور اسحق ڈار 341 ارب روپے کی کثیر رقم دینے پر آمادہ کیونکر ہوئے؟
میاں صاحب نے خیر پورے ملک کے کسانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) پر تسلسل سے لگنے والا یہ الزام دھویا کہ یہ برسر اقتدار آ کر محض شہری بابوئوں اور تاجر و سرمایہ دار طبقے کے حقوق کی پاسداری کرتی‘ انہیں مراعات و سہولتوں سے نوازتی ہے مگر ان کی دیکھا دیکھی جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ اور کراچی پر مہربان ہو گئے۔ اربوں روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا۔ حتیٰ کہ کراچی میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بھی فنڈز مختص کر دیئے۔ حالانکہ سندھ میں پیپلز پارٹی 2008ء سے حکمران ہے اور کراچی کو کمی کا سامنا آج سے نہیں پچھلے ایک عشرے سے ہے مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کو پتہ اب چلا ہے۔
ہمارے منتخب حکمرانوں اور سیاسی دیوتائوں کی انہی غلط بخشیوں اور عجوبہ روزگار حرکتوں کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر دیکھتے‘ اور کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ ماضی کو تو چھوڑیے گزشتہ سات سال سے منتخب جمہوری حکومت سیاہ و سفید کی مالک ہے مگر پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور اے این پی سے پوچھا جائے کہ ان سات برسوں میں کون سا کارنامہ انجام دیا‘ تو جواب میں اٹھارہویں ترمیم کا حوالہ دیا جائے گا۔ آغاز حقوق بلوچستان یا حکومتوں کی طرف سے اپنی مدت پوری کرنے کا‘ ان میں سے ایک بھی کارنامہ ایسا نہیں جس نے عوام کو آسودگی اور خوشگوار تبدیلی کے احساس سے سرشار کیا ہو۔ اس دوران کتنے کھرب روپے لوٹ کر بیرون ملک بھیجے گئے‘ کتنے مجبور اور بے بس خواتین و حضرات نے خودکشی و خود سوزی کی‘ کتنے بے گناہ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے اور بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں کے علاوہ جمہوری حکمرانوں نے کس طرح شریف شہریوں کی حق حلال کی کمائی طاقت اور اختیار کے زور پر ہتھیائی۔ اس کا حساب کوئی دے سکتا ہے نہ دینے کو تیار۔ حساب دوستاں در دل۔
ان دنوں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا غلغلہ بلند ہے اور حکمران اشرافیہ کے حاسدانہ جذبات چھپائے نہیں چھپتے۔ مگر سول بالادستی کے ان علمبرداروں سے کوئی پوچھے کہ حضور! عوام نے دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور اغوا کاروں سے نمٹنے کا مینڈیٹ آپ کو دیا تھا۔ مشرف دور کے لوٹوں لٹیروں کا مواخذہ آپ نے کرنا تھا اور پاکستان میں دودھ شہد کی نہریں آپ نے بہانی تھیں مگر آپ نے تو قوم کے سات سال ایک دوسرے کے جرائم چھپانے اور ایک دوسرے کو لوٹ مار کے مواقع فراہم کرنے پر ضائع کر دیئے۔ دہشت گردوں سے آپ ڈرتے رہے یا ان کو تحفظ فراہم کرتے رہے۔ جرم اور سیاست کو آپ نے اس قدر گڈ مڈ کر دیا کہ اب سیاستدانوں اور مجرموں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ جس بڑے مجرم کو پکڑا جاتا ہے وہ اربوں کا ڈکیت نکلتا ہے یا بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کا سہولت کار اور جس سیاستدان پر ہاتھ ڈالا جائے اس کے جرائم کی فہرست کمپیوٹر کو ہضم نہیں ہوتی۔ قصور کس کا ہے اور جنرل راحیل شریف کو آگے بڑھنے اور سول حدود میں داخل ہونے کا موقع کس نے فراہم کیا؟ رضا ربانی سے سوال کیا جائے تو وہ ڈانٹ دیں گے یا رو پڑیں گے۔
فارسی میں کہتے ہیں: 'جائے خالی را دیواں می گیرند‘۔ خالی جگہ پر دیو بسیرا کرتے ہیں۔ سیاستدان گورننس‘ احتساب اور عوامی خدمت کا خانہ خالی چھوڑ دیں تو کون پُر کرے گا؟
قانون قدرت یہ ہے کہ خلا کبھی برقرار نہیں رہتا۔ حبس میں لوگ لو کی دعا مانگتے ہیں۔ سول حکمران اشرافیہ ان دنوں جس خوف میں مبتلا ایک دوسرے کی ڈھال بننے کی فکر میں ہے‘ یہ اس کے اپنی نااہلی‘ غفلت شعاری‘ بے نیازی اور ہوس اقتدار و ہوس زر کا نتیجہ ہے۔ غلط ترجیحات‘ غلط فیصلوں اور غلط طرز عمل کا شاخسانہ۔ لوگ مانگتے کچھ ہیں‘ ملتا کچھ ہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ ان میگا پروجیکٹس اور میگا پیکیجز سے عوام کو کیا ملے گا اور عوام کے ''خیر خواہوں‘‘ کو کتنی بچت ہو گی؟ نندی پور اور سولر پارک کا قصہ عوام نے سن لیا۔ ایل این جی ڈیل کے پوشیدہ حقائق سامنے آنے میں زیادہ دیر نہیں۔ اگر ٹڈاپ‘ رینٹل پاور‘ آئی این سی ایل‘ نندی پور‘ سولر پارک‘ این ایل جی سکینڈل میں ملوث لوگ پکڑے گئے تو ''بی جمہوریت‘‘ خطرے میں پڑ جائے گی لہٰذا کوشش یہی ہے کہ جمہوریت بچ جائے‘ تب تک عوام کے لیے میگا پروجیکٹس اور میگا پیکیجز کے کھلونے حاضر ہیں ؎
تمنائوں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں