نندی پور پاور پلانٹ کے ایم ڈی کیپٹن محمد محمود کو ‘ایک سال قبل پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز''ستارہ ٔامتیاز‘‘دینے والی حکومت نے گزشتہ روز اپنے منصب سے فارغ کر دیا۔ محمود کو ''ستارۂ امتیاز‘‘نندی پور پاور پلانٹ کے سلسلے میں بہترین خدمات انجام دینے پر عطا ہوا اور اب انہیں فارغ بھی اسی ناکام پلانٹ کی ناقص کار گزاری پر کیا گیا ہے۔ مگر کیا نندی پور پاورپلانٹ کی لاگت میں کئی گنا اضافہ‘ ناکامی اور حکومت کے لیے شرمندگی کے تنہا ذمہ دار کیپٹن محمود ہیں یا انہیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔؟
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ساہیوال کول پاور پلانٹ پر کام روکنے کا حکم دیا کیونکہ عدالت کے سامنے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ کول پاور پلانٹ ماحولیاتی سروے کرائے بغیر تعمیر کیا جا رہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی‘ حدت میں اضافہ ہو گا اور موسم کی شدت بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ درخواست گزار کا موقف سو فیصد غلط نہیں۔ دنیا بھر میں کوئلے کے پلانٹ سستی بجلی پیدا کرنے کے باوجود ماحولیاتی آلودگی اور موسمی شدت میں اضافے کا باعث ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پریشان ماہرین امریکہ‘ یورپ اور چین پر مسلسل دبائو بڑھا رہے ہیں کہ وہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر بند کر کے متبادل ذرائع تلاش اور استعمال کریں۔
پاکستان میں کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ چین کے تعاون سے لگائے جا رہے ہیں۔چین عالمی برادری کو یقین دہانی کرا رہا ہے کہ وہ کوئلے پر انحصار کم کرے گا۔ 2013ء میں چین نے اعلان کیا کہ وہ بیجنگ کے نواح میں موجود چار کول پارو پلانٹ2017ء تک بند کر دے گا۔ مارچ 2015ء میں اس نے تیسرا پلانٹ بند کر دیا اور چوتھا اگلے سال بند ہو جائے گا۔ چین نے یہ فیصلہ محض عالمی دبائو پر نہیں کیا بلکہ سائنسی بنیادوںپر مرتب کئے جانے والے نتائج نے حکومت کو ان پلانٹس کی بندش پر مجبور کیا۔ سائنسی تحقیق کے مطابق شمالی چین میں جہاں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ نصب ہیں‘ درجۂ حرارت دریائے ہوئی کے دوسری طرف یعنی جنوبی چین کے مقابلے میں پچپن فیصد زیادہ ہے اور شرح اموات بھی تشویشناک۔ 2010ء میں پندرہ لاکھ افراد قبل از وقت موت کا نشانہ بنے اور یہ شرح اب بھی پانچ لاکھ افراد سالانہ ہے۔ شمالی چین کے باشندوں کی اوسط عمر پانچ سال کم ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ پورا چین اس سے متاثر ہو رہا ہے۔
اس سال جون میں جب کراچی میں یکدم لوگ گرمی سے مرنے لگے تو اس وقت کے وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان نے ایک کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ان اموات کا ایک سبب راجستھان میں کام کرنے والے کول پاور پلانٹ ہیں جو بھارت نے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لگا رکھے ہیں۔ مشاہد اللہ خان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ حکومت پاکستان مکمل تحقیق کے بعد بھارت کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کرے گی مگر پھر انہوں نے اچانک بم کو لات مار دی اور قیادت کی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔'' آں قدح بشکست وآں ساقی نہ ماند‘‘ ہماری وزارت ماحولیات کو کچھ یاد رہا‘ نہ کراچی میں گرمی کی شدت سے موت کو گلے لگانے والوں سے کسی کو ہمدردی تھی کہ حکومت کو یاد دلاتا۔ع
یہ خون خاک نشیناںتھا‘ رزقِ خاک ہوا
جنگوں‘ ماحولیاتی آلودگی اور قوانین قدرت سے مسلسل انحراف کی بنا پر گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں شور برپا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے‘ یہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کی کوئی تدبیر کرنے کے بجائے مسلسل اضافے میں مصروف ہیں۔ درختوں کی کٹائی‘ جنگلوں میں کمی‘ شہروں کے پھیلائو ‘گلیشئرزکے تیزی سے پگھلنے‘پہاڑی علاقوں میں بے ہنگم آبادیاں اور اوپر سے تھرمل اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تنصیب۔ درجہ ٔ حرارت کو بڑھانے کے لیے جس قدر ہم بے تاب ہیں‘ کوئی دوسرا شائد و باید۔
دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹ شہری آبادیوں سے دور‘ دریائوں اور سمندر کے قریب لگائے جاتے ہیں تاکہ ان پلانٹس کے ماحولیاتی اثرات سے انسان جس حد تک ممکن ہے محفوظ رہیں مگر بجلی کی کمی دور کر کے اگلا الیکشن جیتنے کے خواہش مند ہمارے حکمرانوں نے یہ پلانٹ پنجاب کے عین وسط میں ساہیوال کے قریب قادر آباد میں لگانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے ایک ہزار ایکڑ زیرِ کاشت زرعی زمین درکارتھی‘ جہاں اب فصلوں‘ درختوں اور پانی کے نالوں کی جگہ بجری کے انبار اورریت کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
درآمدی کوئلے کی قادر آباد تک سپلائی بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہے مگر سپلائی کے دوران کراچی یا گوادر سے قادر آباد تک باریک ذرات کی شکل میں کوئلہ ماحول پر جو منفی اثرات مرتب کرے گا‘ اس کا احساس کسی کو نہیں۔ صرف پلانٹ کے اردگرد کا علاقہ ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ پورے سندھ‘ جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کو گلے اور سانس کی بیماریوں کا تحفہ ملے گا۔ گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا اور 1350میگاواٹ بجلی سے مستفید ہونے والوں کو بل کے علاوہ دوائیوں کے زائد اخراجات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ اسی بنا پر عدالت عالیہ نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کی طرح ساہیوال کول پاور پلانٹ بھی موجودہ حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گا کیونکہ پلانٹ کی تکمیل اصل مسئلہ نہیں ‘اسے کامیابی سے چلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جس طرح لاہور کے گرد چار پاور پلانٹس گیس کی عدم فراہمی اور حکومت کی طرف سے عدم ادائیگی کی بنا پر بند پڑے ہیں جو 800میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اسی طرح اگر ساہیوال پراجیکٹ بھی تکمیل کے بعد چل نہ سکا تو یہ نندی پور کے ناکام تجربے کا اعادہ ہو گا ۔
نندی پور پاور پراجیکٹ کے ایم ڈی کو سبکدوش کرنے کا فیصلہ کس سطح پر ہوا ؟کسی کو معلوم نہیں۔ انہیں تمغۂ امتیاز دینے والوں سے کوئی سوال ہو سکتا ہے نہ فارغ کرنے والوں سے۔ شاہانہ طرزِحکمرانی میں فیصلے اسی طرح ہوتے ہیں اور سزا پوری قوم کوبھگتنا پڑتی ہے۔ اردو کا پرانا محاورہ ہے ۔ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا۔ وزارت بجلی و پانی میں ان دنوں معلوم نہیں کتنے سفید‘ سیاہ اور چتکبرے ہاتھی جمع ہو کرباقیماندہ گھاس کا نقصان کر رہے ہیں۔ محمود اسی لڑائی میں کام آئے یا خود بھی ذمہ دار تھے‘تفتیشی کمیٹی بتا سکتی ہے ۔
ہاتھیوں یا سانڈ وں کی لڑائی صرف وزارت بجلی و پانی میں نہیں‘ وفاقی کابینہ میں ان دنوں دال‘ سری پائے‘ کھد‘ نہاری اور شب دیگ جوتیوں میں بٹ رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان اور خواجہ آصف میں کُٹی ہے۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال کے خلاف صف آراء ہیں۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کی آپس میں نہیں بنتی۔ اور عابد شیر علی اپنے والد کے ساتھ مل کر صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کو ''فیصل آباد بدر‘‘ کرنے کے درپے ہیں۔مزید کتنے وزیر مشیر ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہیں؟ میاں نواز شریف جانتے ہوں گے یا فواد حسن فواد مگر نقصان بہرحال قوم کا ہو رہا ہے اور وزیر اعظم مرغوں کی اس لڑائی سے محظوظ ہوتے ہیں ‘ورنہ اپنے دو قریبی ساتھیوں نثار علی خان اور خواجہ آصف کی بول چال ضرور بحال کرا دیتے۔
میڈیا جب کرپشن‘ بدانتظامی اوربے ضابطگی کا کوئی معاملہ طشت ازبام کرتا ہے اور عوام کو زرداری دور یاد آنے لگتا ہے تو حکمران اصلاح احوال یا بے رحمانہ احتساب کے بجائے قربانی کا کوئی بکرا ڈھونڈ کر بلی چڑھا دیتے ہیں۔ اپنی غلطی مانتے ہیں نہ آئندہ شاہانہ انداز کے فیصلے نہ کرنے کی یقین دہانی ۔قائد اعظم سولر پارک‘ نندی پور پراجیکٹ اور اب ساہیوال پاور پلانٹ؟ مجھے یقین ہے کہ بالآخر قوم کے سامنے تعمیراتی لاگت بڑھنے اور لوڈشیڈنگ کم نہ ہونے کا ذمہ دار اس حکم امتناعی کو ٹھہرایا جائے گا اور اگر عدالت نے اجازت دیدی تو تعمیراتی لاگت میں اضافے کا معقول جوازمل جائے گا۔ نندی پور پراجیکٹ پچیس ارب سے پچاسی ارب تک پہنچا ‘اب ساہیوال کی باری ہے۔
حکومت چاہتی تو ساری توجہ‘ وسائل اور توانائی پن بجلی کے منصوبوں کے لیے وقف کرتی‘ کالا باغ‘ داسو ‘ اوربھاشا دیامیر سے سستی بجلی اور زراعت کے لیے وافر پانی میسر آتا ہے اور یہ ماحولیات دوست منصوبے کئی عشروں تک کارآمد‘ مگر ہمارے حکمران آج نقد ‘ نہ کل ادھار کے اُصول پر یقین رکھتے ہیں۔ مقصد عوام کو سستی بجلی‘زراعت کو وافر پانی اور معیشت کو پائیدار استحکام ہو توطویل المیعاد منصوبے بنتے ہیں‘ مگر جب نصب العین ہی صرف اگلا الیکشن جیتنا ہے تو پھر قلیل المدت مہنگے منصوبے قوم کی قسمت میں لکھے جائیں گے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ مدبر قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے اور سیاستدان صرف اگلے الیکشن کے حوالے سے۔‘مگر مدّبر ہماری قسمت میں کہاں؟ اپنے آج کے بارے میں سوچنے والوں کا سیاست‘ وسائل‘ اختیارات اور اقتدار پر قبضہ ہے اور وہ کمال مہارت سے کشتوں کے پُشتے لگا رہے ہیں۔ کیپٹن محمود کی طرح‘ معلوم نہیں‘ مزید کتنے کشتہ ٔ ستم ہوں گے۔