عدم‘ احتیاط لازم ہے

امریکی اخبارات میں شائع ہونے والے تجزیوں‘ تبصروں اور امریکی حکومت کے سرد مہری پر مبنی بیانات کے باوجود میاں نواز شریف کی جرأت رندانہ کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا۔ حبیب جالب زندہ ہوتے تو ضرور کہتے ؎
طواف کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اُڑا اے دل
نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
اس انجمن میں نہ کر عرض مدّعا اے دل
دیے ہیں داغ بہت اس کی دوستی نے تجھے
اب اور دشمنِ جاں کو نہ آزما اے دل
افغانستان میں ناکامی کی خفّت مٹانے کے لیے امریکہ ابھی قربانی کا بکرا تلاش کر ہی رہا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ طے پا گیا اور روس کے ساتھ دو ارب ڈالر کی لاگت سے گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھے۔ جبکہ طالبان نے بھی افغانستان میں انگڑائی لی اور قندوز پر قبضے سے امریکی فوجی انخلا کے پروگرام پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ بھارت نے یہ موقع غنیمت جانا اور جان کیری سے لے کر اوباما تک سب کو باور کرا دیا کہ پاکستان ایک بار پھر ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور اس کے حقانی نیٹ ورک جیسے سٹریٹجک اثاثوں کے علاوہ سمارٹ ایٹمی ہتھیار امن عالم کے لیے خطرہ ہیں۔
یو این جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران امریکیوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے جو سلوک کیا‘ اس کی روداد اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب منیر اکرم نے اپنے مضمون میں تفصیل سے لکھی ہے۔ جان کیری کا نیو یارک اور سوزن رائس کا اسلام آباد میں انداز گفتگو اور طرز عمل دوستانہ تھا‘ نہ سفارتی آداب کے مطابق۔ منیر اکرم نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ دورۂ واشنگٹن ملتوی کریں۔ تاہم اُن کا یہ مشورہ اس وقت منظر عام پرآیا جب میاں صاحب پابہ رکاب تھے۔ اگر وزارت خارجہ کے ذریعے انہوں نے یہ مشورہ قبل از وقت دیا تو کسی کے علم میں نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف دورے میں بھارتی چہرہ بے نقاب کرنا چاہتے ہیں جس کی رعونت تنگ نظری ‘ انتہا پسندی اور مسلم و پاکستان دشمنی بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ پاکستان میں براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ایک سیکولر ریاست میں گائے کا گوشت گھر میں رکھنے اور ٹرک پر گائے لے جانے کے الزام میں بے گناہ مسلمان شہری سرعام قتل ہو رہے ہیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین کرکٹ میچ کے ریفری علیم ڈار کو اپنا فرض ادا نہ کرنے کی دھمکی مل رہی ہے۔ نجم سیٹھی اورشہریار خان پاک بھارت کرکٹ میچ کا شیڈول مانگنے ممبئی جاتے ہیں تو بی سی سی آئی کے دفتر پر ہلّہ بول کر شیو سینا کے کارکن اپنی جنونیت ظاہر کرتے ہیں اور بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے عہدیدار پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقات منسوخ کر دیتے ہیں مگر امریکہ نواز شریف کی بات سننے اور اپنا عالمی کردار ادا کرنے کے بجائے بھارت کے صدقے واری جا رہا ہے اور یکطرفہ طور پر ایجنڈا تبدیل کر کے ہمیں دبائو میں لانے اور بھارتی دوستوںکو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ محبّت اور نفرت بلکہ زیادہ درست الفاظ میں محبت اوربے وفائی پر مبنی ہے۔ ہم امریکہ کے ہاتھوں خوب استعمال ہوئے مگر سارا الزام امریکہ کو دینا درست نہیں: منیر نیازی کے الفاظ میں ؎
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن‘ 
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن‘ 
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
1962ء میں چین کے ہاتھوں بھارت کو مار پڑ رہی تھی تو امریکہ کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں پاکستان چین کے اکسانے پر بھارت کو دبوچ نہ لے۔ اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے فرمائش کی کہ وہ بھارت پر حملہ نہ کریں‘ ہم مسئلہ کشمیرحل کر ا دیں گے۔ فیلڈ مارشل نے امریکی وعدے پر اعتبار کر لیا اور پھر عمر بھر پچھتائے۔ 1965ء میں بھارت حملہ آور ہوا تو امریکی سفیر ایوب خان سے یہ کہنے پہنچ گئے کہ ''جناب صدر! بھارت نے آپ کی گردن دبوچ لی ہے‘‘۔ امریکیوں پر یہ عقدہ ‘ بعد میں کھلا کہ لالے گیلی دھوتی کے ساتھ میدان سے بھاگ گئے ہیں۔
میاں نواز شریف پاکستان کے منتخب رہنما ہیں۔ عوامی جذبات و احساسات سے آگاہ اور قومی مفادات کے محافظ۔1998ء میں انہوں نے ایٹمی تجربات کے ہنگام امریکی صدر کلنٹن کا فون ضرورسنا‘ دبائو قبول نہیں کیا۔ اب بھی وہ اگر نامساعد حالات میں امریکہ چلے ہیں تو سوچ سمجھ کر ہی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر نے امریکی دورے سے واپسی پر واشنگٹن کے موسم اور موڈ سے انہیں تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا ہو گا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو نصیحت کی تھی کہ امریکہ کے دشمنوں سے زیادہ دوست خسارے میں رہے‘ لہٰذا ہوشیار۔ امریکی ایوان نمائندگان نے جس خوشامدانہ انداز میں میاں نواز شریف کی آمد پر شادیانے بجائے‘ قرار داد تشکر منظور کی وہ مسرت و شادمانی نہیں غورو فکر کا مقام ہے ؎
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
میاں صاحب اگر دورۂ امریکہ سے قبل پوری پارلیمنٹ نہ سہی‘ اپوزیشن رہنمائوں اور قومی میڈیاکو اعتماد میں لیتے‘ سیاسی درجۂ حرارت میں کمی لاتے اور ایک ایسے رہنما کے طور پر ڈیلاس ایئر پورٹ پر اُترتے‘ حزب اختلاف جس کی پشت پر ہے تو شاید امریکی رہنمائوں کا لب و لہجہ بھی بدل جاتا‘ کسی کو انہیں مسٹر پرائم منسٹر کے بجائے مسٹر نواز کہنے کی جرأ ت ہوتی‘ نہ نریندر مودی اورسشما سوراج کا آموختہ دہرانے کا حوصلہ۔ خورشید محمود قصوری کی کتاب میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ایوب خان امریکی صدر لنڈن بی جانسن کے گال یوں تھپتھپا رہے ہیں جیسے بزرگ ناسمجھ بچے کا تھپتھپاتا ہے۔ ایک غریب' مفلوک الحال مگر خوددار ملک کے وزیر اعظم لیاقت علی خان پہلے دورۂ امریکہ پر گئے تو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنی کابینہ کے ہمراہ نیشنل ایئر پورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا۔ انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ایوان نمائندگان سے خطاب اور نیو یارک میں خیر مقدمی پریڈ کا اہتمام کیا گیا جو بہت کم سربراہان حکومت کے اعزاز میں منعقد ہوئی۔ اب ہم نیو کلیئر پاور ہیں مگر صدر اور وزیر اعظم کو کبھی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس کے لیے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور کبھی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کرسٹینا روکا اور رچرڈ بائوچر ایئر پورٹ پر اترتے فوجی صدر سے ملتے اور واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔ اپنا یہ حال ہم نے خود کیا ہے۔ میاں صاحب اگر اس بار جان کیری کے دفتر جانے سے گریز فرمائیں اور صدر اوباما سے ون آن ون ملاقات کے شوق پر قابو پالیں تو یہ ان کا اپنے آپ اور ملک پر احسان ہو گا کیونکہ امریکی اس ملاقات کو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات بگاڑنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو پہلے ہی سو فیصد ہموار نہیں۔
سیدہ عابدہ حسین سابق آرمی چیف جنرل(ر) آصف نواز مرحوم کے دورۂ واشنگٹن کا احوال بیان کرتی ہیں کہ کس طرح موصوف ان کے روکنے کے باوجود ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار سے علیحدگی میں ملے اور واپسی پر بدلے بدلے نظر آئے۔ اس ملاقات کی وجہ سے اسلام آباد میں سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اگر آصف نواز کو پیغامِ اجل نہ آتا تو میاں نواز شریف شاید اپریل1993ء تک اقتدار میں نہ رہ پاتے۔ میاں صاحب کی اوباما سے ون آن ون ملاقات ہوئی تو میاں صاحب شاید اکیلے ہوں‘ اوباما کے ساتھ اُن کا سیکرٹری آف سٹیٹ یا سکیورٹی ایڈوائزر ضرور موجود ہو گا۔ اس ملاقات کی روداد معلوم نہیں راولپنڈی کے کانوں تک کس طرح پہنچے اور میاں صاحب جو گفتگو فرمائیں‘ اوباما یا ان کے مشیر اس سے کیا مطلب اخذ کریں‘ لہٰذا احتیاط لازم ہے۔ ویسے بھی واشنگٹن کی ملاقاتیں غضب کی ہوتی ہیں‘ جونیجو صاحب جیسے مرنجاں مرنج وزیر اعظم کے وجود میں بجلیاں بھر دیتی ہیں۔ میاں صاحب کے پاس تو 1999ء کی طرح ہیوی مینڈیٹ ہے ؎
شیخ میخانے میں آنے کو مسلماں آئے
کاش میخانے سے نکلے تو مسلماں نکلے
تنہائی کی ملاقاتوں سے جو‘ جوچاہے اپنی مرضی کا مفہوم نکال سکتا ہے‘ کون وضاحت کرے اور سنے گا ؎
اکنوں کرا دماغ کہ پُرسد ز باغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد
(بھلا کس کی مجال کہ باغباں سے دریافت کرے۔ بلبل نے کیا کہا‘ پھول نے کیا سنا اور ہوا نے کیا کر دیا)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں