سندھ کے سائیں سید قائم علی شاہ واقعی قبر پھاڑ کے بولے ہیں۔ وفاق پر الزام لگایا کہ اُس نے نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے سندھ پر چڑھائی کر رکھی ہے اور رینجرز کو دھمکایا کہ وہ دہشت گردی کو چھوڑ کر کرپشن کے خلاف مہم میں گھس گئی ہے۔ تان انہوں نے اس پر توڑی کہ کرپشن کا آغاز لیاقت علی خان مرحوم کے دور سے ہوا۔ لیاقت علی خان کے دور میں کرپشن کی بات درفنطنی نہیں حقیقت ہے مگر سیاق و سباق سے ہٹ کر۔
لیاقت علی خاں صرف مسلم لیگ کے جاںنثار اور باوقار لیڈر‘ قائد اعظم کے وفادار ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہی نہ تھے بلکہ ان کی امانت و دیانت بھی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ ریاست کرنال کے اس نواب نے ہجرت کی تو محکمہ بحالیات کے اصرار کے باوجود کوئی گھر الاٹ نہ کرایا‘ متعلقہ افسر کو جواب دیا'' جب تک آخری مہاجر کو گھر نہیں مل جاتا‘ میں اس کا حقدار نہیں‘‘۔ راولپنڈی میں گولی کا نشانہ بنے تو پوسٹ مارٹم کرنے والے عملے کی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور پیدائشی نواب کی جرابیں اور بنیان پھٹی ہیں اور شیروانی نے ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھا ہے۔
ایک بار نواب صاحب بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی دعوت پر نوابزادہ صاحب ڈیرہ نواب صاحب آئے تو کشادہ دل و کشادہ دست نواب نے کراچی میں موجود اپنی ایک کوٹھی کی چابی انہیں پیش کی۔ نواب صاحب اپنی ایک کشادہ کوٹھی حکومت پاکستان کو پیش کر چکے تھے مگر ایک بے گھرنواب نے دوسرے نواب کا یہ تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ قائد اعظم کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ جب محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خاں کے درمیان شکررنجی سے پریشان ہو کر نوابزادہ لیاقت علی خاں نے زیارت میں اپنا استعفیٰ پیش کیا تو قائد نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا''لیاقت !دو خواتین کے باہمی تعلقات ہمارے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے چاہئیں۔ آئندہ اس بارے میں سوچنا بھی نہیں‘‘۔
یہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہی تھے جن کے دور حکمرانی میں سندھ کے ایک وزیر اعلیٰ کواختیارات کے غلط استعمال اور معمولی نوعیت کی کرپشن کے الزامات میں اپنے منصب سے برطرف کیا گیا اور قائد اعظم نے اس کی منظوری دی۔ اس فیصلے کے بعد سندھ کے میروں‘ پیروں اور جاگیرداروں وڈیروں نے انہیں کبھی نہیں بخشا ۔اس معاملے میں پنجاب کا میڈیا اور جاگیردار بھی پیچھے نہ رہا۔ حتیٰ کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے لباس‘خاندانی پس منظر اور خدمت نسواں کی سرگرمیوں کا بھی مضحکہ اُڑایا گیا۔کرپشن کی جو شکایت سندھ کے سیاستدانوں سے قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کو تھی وہی فوج‘ رینجرز اور ملک کے ہر شریف‘ دیانتدار اور رزق حلال کمانے والے شہری کو ہے۔مگر آج تک سیاستدان کسی کی سننے کے بجائے کرپشن کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں اور احتساب پر برہم۔
کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی شہر روز اول سے ملک کا معاشی مرکز ہے اور یہاں کرپشن نے ہی بہت سی دوسری سنگین برائیوں کو جنم دیا۔ یہی غریب نواز شہر ایم کیو ایم کے قیام اور پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی سے پہلے سارے ملک کے بے روزگاروں کی پناہ گاہ اور باقی شہروں کے لیے رول ماڈل تھا ۔جو بھی حالات کا مارا کراچی کا رخ کرتا ‘روزگار کے علاوہ سکھ چین کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتا۔ کسی وڈیرے کا ڈر‘ نہ پنجاب کی طرح بے رحم پولیس کا خوف۔ کراچی میں سرکلر ریلوے پر 56ٹرینیں چلتی تھیں جس کی وجہ سے دور دراز رہنے والے شہری بھی آرام سے اپنے دفاتر اور کاروباری مراکز پہنچ جاتے۔ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ایک ہزار کے قریب بسیں اس کے علاوہ تھیں اور صاف ستھرا پانی ہر ایک کو میّسر ۔ قبضہ گروپ کا نام و نشان تھا‘ نہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا تصور کہ رینجرز بلانی پڑے۔
1987ء میں ایم کیو ایم نے بلدیہ کراچی کا چارج سنبھالا اور 1988ء میں سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد کراچی کو امن تبھی نصیب ہوا جب یہاں رینجرز نے کبھی آپریشن کیا۔ اب یہی امن و سکون اور رینجرز قائم علی شاہ اور ان کے حواریوں کے لیے ڈرائونا خواب ہے ‘مگر کیوں؟ ڈاکٹر عاصم حسین اور ان کے ہسپتال کے ڈی ایم ایس کے اعترافی بیان کے علاوہ جے آئی ٹی رپورٹ میں دہشت گردوں کے جن سہولت کاروں کا ذکر موجود ہے ‘یہ اگر گرفتار ہو جائیں توپیپلز پارٹی کے پاس باقی کچھ بچتا نہیں۔ چودھری نثار علی خاں نے ڈاکٹرعاصم کے بیان کی ویڈیو سامنے لانے کی بات کی ہے مگر وہ شائد لائیں گے نہیں‘ کیونکہ بہت سے پردہ نشیں بے نقاب ہوں گے۔صرف کراچی نہیں پورے ملک میں ہر طرح کے دہشت گردوں ‘ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں نے تین عشرے تک جو اودھم مچائے رکھا ‘کیا وہ بااثر اور صاحب اقتدار افراد اور خاندانوں کی سرپرستی اور معاونت کے بغیر ممکن تھا؟ شاہ سائیں بخوبی جانتے ہیں کہ سندھ حکومت اور پی پی قیادت کی جان جس طوطے میں ہے وہ اگر زیادہ عرصہ رینجرز کی تحویل میں رہا تو کسی کی خیر نہیں۔ ادّا‘ ادّی اور چاچے مامے سب حوالۂ زنداں ہوں گے۔
فوج اور رینجرز سے سودے بازی کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ انتونی بلنکن جو چار نکاتی فارمولا لے کر قلب ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد وارد ہوئے تھے ان میں افغان طالبان سے مذاکرات میں مدد ‘ لشکر طیبہ کے خلاف سخت کارروائی اور داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ بننے کے علاوہ کرپٹ اور دہشت گردوں کے سہولت کارسیاستدانوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا نکتہ سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ گفتگو کا حصہ رہا۔ عاصم حسین کے حوالے سے مزاحمت اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے والے سیاستدانوں کو تھپکی مل چکی ہے اور ان کا خیال ہے کہ بیرونی سرپرستوں اور اسلام آباد میں میثاق جمہوریت کی ڈور میں بندھے حکمرانوں کی خاموش آشیر باد سے کامیابی خارج ازامکان نہیں ۔
رینجرز کا کراچی میں قیام عوام کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے کہ اس کی کارروائیوں کے طفیل انہیں دن کا چین اور رات کا سکون ملا۔ تاجر اور سرمایہ کار خاص طور پر خوش ہیں کہ ان سے بھتہ وصول کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی اور اغوا ہونے کے خدشات باقی نہیں رہے ۔وہ رینجرز کی واپسی کے حق میں نہیں۔ حکمرانوں اور طاقتوروں کا یہ درد سر نہیں۔ ان کی اور ان کے چہیتوں کی حفاظت کے لیے پولیس‘ نجی حفاظتی انتظامات اور بہت کچھ ہے۔ بیرون ملک کاروبار اور اقامت گاہیں بھی موجود ہیں جہاں ملک سے بھاگ کروہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ لہٰذا وہ دبائو بڑھا کر فوج اور رینجرز کو پولیس کی سطح پر لانا چاہتے ہیں؛ تابعدار‘ اطاعت گزار اور وفادار۔
قوم کی نفسیات وہ خوب جانتے ہیں کہ جب تک اقتدار ان کے پاس ہے ان کے گن گائیں گے کیونکہ غلام قوم کے معیار بقول مولانا عبید اللہ سندھی عجیب ہوتے ہیں۔ وہ شریف کو بے وقوف ‘ مکار کو چالاک‘ قاتل کوبہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتی ہے اور اس پر فخر سے اتراتی ہے۔چودھری نثار علی خاں کی پریس کانفرنس بجا مگر جب تک وہ کوئی مضبوط‘موثر اور دلیرانہ قدم نہیں اٹھاتے‘ تاثر یہی رہے گا کہ قائم علی شاہ کو دبئی اور اسلام آباد دونوں کی آشیر باد حاصل ہے۔ لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانتے۔آج ایف آئی آر میں نامزد دیگر افراد کو پکڑ لیں‘ ڈاکٹر عاصم اور قائم علی شاہ دونوں کے بیانات بدل جائیں گے۔
اگر رینجرز‘ نیب‘ ایف آئی اے اور وفاقی حکومت ڈاکٹر قائم علی شاہ اور ان کے سنگی ساتھیوں کے سامنے بے بس ہے؟ فوج اگر نیشنل ایکشن پلان کے چھٹے نکتے یعنی دہشت گردوں کے مالی وسائل بند کرنے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے میں دقت محسوس کر رہی ہے؟ اور قاتلوں‘ لٹیروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں نے سیاسی عصبیت کی آڑ میں اسے ایکشن کے قابل نہیں چھوڑا تو پھر مزید وقت ضائع کرنے اور معاشرے میں مایوسی و بے چینی پھیلانے کے بجائے ابھی سے آبرو مندانہ پسپائی اختیار کرلی جائے اور سیاستدانوں کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ عوام کے حسن انتخاب کا بدلہ چکا سکیں۔ وفاق اور صوبہ آپس میں لڑیں‘ نہ پولیس اور رینجرز آمنے سامنے آئے اور نہ کوئی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی کرپشن کا جواز لیاقت علی خاں مرحوم پر الزام تراشی کے ذریعے پیش کرے۔
کیا جمہوریت پر پھر کڑا وقت آنے والا ہے؟آغاز اس بار بھی کراچی سے ہو گا؟انتظار کرتے ہیں۔