ترجیحات

پرویز مشرف کی دوبئی روانگی پر میاں نواز شریف کے ساتھی بلاوجہ وضاحتوں پر اُتر آئے ہیں جو کسی کو مطمئن کر سکتی ہیں‘ نہ اس ندامت کا مداوا جو بڑبولوں کو اُٹھانی پڑی۔
روز اوّل سے واضح تھا کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف کا غدّاری کیس میں بال بیکا نہیں کر سکتی۔ طبقاتی غیرت کے مفہوم سے ناآشنا ہمارے سیاست دانوں کو علم ہی نہیں کہ اپنے سابقہ یا موجودہ چیف کے بارے میں فوجی افسر اور جوان کس قدر حسّاس ہوتے ہیں۔ بھٹو‘ نواز شریف اور بینظیر بھٹو جب اقتدار سے محروم ہوئے‘ تو مٹھائی سابقہ فوجیوں نے نہیں‘ سیاسی طبقے نے تقسیم کی۔ طبقاتی غیرت ہوتی تو کم از کم سیاست دان خوشی سے پاگل ہونے کے بجائے خاموش ہی رہتے۔
پرویز مشرف کی غلطیاں اور قومی جرائم اپنی جگہ‘ مگر 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدام پر غداّری کا مقدمہ چلانے کی سوچ بچگانہ تھی‘ اور محض پوائنٹ سکورنگ کے لیے کئے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہمیشہ پشیمانی ہوتا ہے۔ 
حکومت کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے مگر وہ ہمیشہ ترجیحات کے تعین میں ٹھوکر کھاتی ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے اور زمینی حقائق سے یکسر نابلد‘ مغرب سے مرعوب مخصوص شہری طبقے سے واہ واہ کرانے کے لیے اٹھایا جانے والا قدم کبھی کامیابی کی منزل کی طرف بڑھ نہیں سکتا۔
پرویز مشرف تو فرد واحد تھا‘ چلا گیا‘ خس کم جہاں پاک‘ حکومت کو پچھتانے کے بجائے سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ''رسیدہ بود بلائے ولے‘ بخیر گزشت‘‘ مگر تحفظ نسواں ایکٹ اس سے بھی بڑی مصیبت ہے۔ یہ ایکٹ اسمبلی سے منظور ہوا‘ ابھی تک نافذالعمل نہیں‘ مگر اس کے منفی اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران اس ایکٹ نے تین گھرانے اُجاڑ دیئے ہیں اور کسی سنگدل و ڈھیٹ کے سوا کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس ایکٹ میں خیر پوشیدہ ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وہاڑی میں موبائل فون میاں بیوی میں وجہ نزاع بنا‘ بات بڑھی اور بیوی نے غصّے میں آ کر تھانے میں شکایت کر دی کہ مجھے اپنے خاوند سے جان کا خطرہ ہے۔ روبینہ نے تھانہ لڈن میں شکایت کی تو پولیس نے رات ایک بجے گھر پر دھاوا بول کر خادم حسین کو پکڑا اور حوالات میں بند کر دیا۔ خادم حسین کو تھانے میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی بیوی کی شکایت پر ہوئی ہے۔ اگلے روز ضمانت کرانے کے بعد خادم گھر آیا اور اُس نے بیوی کو طلاق دے دی۔ خادم کے ہمسائے انوار کے مطابق خادم حسین کو پولیس نے ڈرایا کہ دوبارہ شکایت پر اُسے کڑا بھی لگ سکتا ہے جبکہ اُسے تین روز تھانے میں رہنے کی وجہ سے تذلیل کا احساس بھی تھا۔ 
روبینہ کو طلاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بھائی نے اپنی بیوی اور خادم کی بہن بشریٰ کو تین بچوں سمیت گھر سے نکال دیا کیونکہ وٹے سٹے کی شادی تھی‘ یوں ایک شوہر کے خلاف بیوی کی شکایتی درخواست کے نتیجے میں دو گھر برباد ہو گئے اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ انہیں آباد رکھنے میں ناکام رہا۔ دوسرا واقعہ رحیم یار خان میں پیش آیا جہاں شیخ سلمان اور اس کی بیوی تسنیم کے مابین خانگی تنازع کی بنا پر معاملہ طلاق تک پہنچا اور پولیس کے پاس شوہر کے خلاف شکایت درج کرانے پر آٹھ سالہ خوشگوار ازدواجی زندگی خانہ بربادی پر منتج ہوئی۔ تسنیم نے تھانے میں شکایت کی تھی کہ شوہر نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر مجھے زد و کوب کیا‘ لہٰذا نئے قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور معاملہ طلاق تک پہنچ گیا۔ دونوں نے پسند کی شادی کی تھی۔
جب رانا ثناء اللہ‘ سلمان صوفی اور ان کے ہمنوا سوال کرتے ہیں کہ علما کرام بتائیں‘ اس ایکٹ میں خلاف شرع کیا ہے؟ تو ہر معقول آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ملک اور صوبے میں باقی سارے کام شریعت کے مطابق اور علما کی مشاورت سے انجام پاتے ہیں۔ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ بھی شرعی تقاضوں کے مطابق مدّون ہوا جس پر مذہبی گروہوں کا اعتراض بیجا ہے‘ صوبے بھر میں قائم قمار بازی‘ جنس فروشی اور عریانی و فحاشی کے اڈے‘ تھیٹر کے نام پر مقدس رشتوں کی برسر عام تذلیل اور رقص و سرود کی محفلیں‘ شریعت کے عین مطابق اور عوامی جذبات و احساسات کی عکاس ہیں؟ اور تحفظ نسواں ایکٹ میں بھی یہ اہتمام کیا گیا ہے مگر معترضین خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ معاملہ خوشگوار عائلی زندگی اور خاندانی نظام کو برقرار‘ اور زن و شوہر کے رشتے کو محبت و مودّت کی آفاقی و اسلامی بنیادوں پر استوار رکھنے کا ہے‘ جبکہ مذکورہ تین واقعات اس ایکٹ اور حکومتی دعوووں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ کیا ہم بھی مغرب کی طرح نکاح اور شادی کے بندھنوں سے نجات پا کر مرد و عورت کے ناجائز اور ناپاک تعلق کی حوصلہ افزائی پر مُصر ہیں؟ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے قبیح تصّور کو پروان چڑھانا مقصود ہے؟
چند سال قبل شکاگو کے قریب ایک قصبہ میں‘ مُجھے مارک اور وکّی نامی دو مہربان میاں بیوی کی میزبانی سے لُطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ خوش اخلاق اور اپنے خاوند پر جان چھڑکنے والی وکّی نے اپنے دو پیارے پیارے بچوں کا تعارف کرایا‘ مگر ہم جب کھانے کی میز پر جمع ہوئے تو وہاں بارہ چودہ سال کی ایک بچی بھی موجود تھی۔ وکّی نے بتایا کہ میری سہیلی کی بیٹی ہے جو ویک اینڈ ہمیشہ ہمارے ساتھ گزارتی ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ بچی کا والد اس کی ماں کو چھوڑ کر کہیں جا چکا ہے‘ حالات کی ماری تنہا خاتون نے دوسری شادی کر لی مگر دوسرا خاوند شرابی‘ جھگڑالو اور دیگر اخلاقی عیوب کا مجموعہ ہے۔ شریف خاتون ہمیشہ اس ڈر سے کہ بچی ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار اور سوتیلے باپ کی زیادتی کا نشانہ نہ بن جائے‘ ہر ہفتے یہاں چھوڑ جاتی ہے۔ پاکستان میں خواتین اجڈ‘ گنوار‘ عیاش اور اسلامی تعلیمات سے ناواقف مردوں بالخصوص وڈیروں اور نودولتیوں کے ہاتھوں زد و کوب اور ذلیل ہوتی ہیں‘ مگر مغرب میں جہاں عورت مرد کے دل بہلانے کا ذریعہ اور کمائی کا وسیلہ ہے‘ وہ شوقیہ بھی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ 
پاکستان میں تیزاب پھینکنے کے واقعات اتنے زیادہ نہیں جتنے برطانیہ‘ امریکہ اور دیگر ''مہذب‘‘ ''ترقی یافتہ‘‘ اور ''حقوق نسواں کے علمبردار‘‘ ممالک میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سرکاری ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2004ء سے 2015ء تک یہ تعداد دُگنی ہو چکی ہے۔ 2015ء میں 124 خواتین اپنے چہرے کا علاج کرانے ہسپتالوں میں داخل ہوئیں جو تیزاب سے جھلس گئے تھے۔ برطانیہ میں خواتین کو قانونی تحفظ حا صل ہے۔ وہاں ضیاء الحق دور کے کالے قوانین نافذ نہیں‘ اور مولویوں کی تنگ نظری اور قبائلی فہم اسلام کے باعث معاشرہ عورت دشمن نہیں بنا‘ یہ وحشیانہ پن اخلاقی تعلیمات سے روگردانی اور جنسی ہوس میں اضافہ کرنے والے عوامل کا نتیجہ ہے‘ جس میں مادر پدر آزاد میڈیا اور فیشن انڈسٹری کا کردار اہم ہے۔ 
اس سے بھی سنگین ایک مسئلہ اور ہے۔ حکومت اگر چاہے تو وہ اپنی توجہ کا مرکز ان رپورٹوں کو بنا سکتی ہے جو الطاف بھائی کے قریبی ساتھیوں محمد انور‘ طارق میر کے اعترافی بیانات‘ ایم کیو ایم کے باغیوں مصطفیٰ کمال اور رضا ہارون کی پریس کانفرنسوں اور کراچی کی جیلوں میں بند ''را‘‘ کے ایجنٹوں کے انکشافات کی صورت میں سامنے آ چکی ہیں کہ بھارت نے پاکستان میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹوں کا حکومتی معاملات میں موثر کردار یقینی بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی‘ اور کراچی کو دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری‘ اغواء برائے تاوان کا منبع بنا دیا تاکہ پاکستان کے جسم سے قطرہ قطرہ خون بہتا رہے‘ اور گاندھی‘ نہرو‘ پٹیل اور نریندر مودی کی خواہشات کے مطابق اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا ملک خدانخواستہ (خاکم بدہن) صفحہ ہستی پر برقرار نہ رہ پائے۔ پرویز مشرف کو غدار ثابت کرنے پر حکومت نے دو سال اور کروڑوں روپے خرچ کئے مگر ثابت شدہ غداروں اور بھارتی ایجنٹوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی حکومت کو فرصت ہے نہ ترجیح اوّل‘ اسی بنا پر وہ اپنی فعال ایجنسیوں کے بجائے‘ سرفراز مرچنٹ اور مصطفیٰ کمال سے ثبوت مانگتی ہے۔ انہی غلط ترجیحات اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی عادت کی بنا پر حکومت خود بھی مشکلات میں گھری ہے‘ اور قوم بھی مسائل کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ کیا قوم توقع کر سکتی ہے کہ حکومت ایک خصوصی عدالت ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے بھی قائم کرے گی جو ''دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ کرے۔ پرویز مشرف کے حوالے سے غلطی کا احساس حکومت کو دو سال بعد ہوا۔ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ برقرار رکھنے کی ضد اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں سے درگزر‘ اس سے زیادہ سنگین اور مہلک غلطیاں ہیں جس کا احساس معلوم نہیں کب ہو گا؟ اب یا کبھی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں