خوش خوراکی و خوش ذوقی

وزیراعظم کی نشری تقریر اور مختلف چینلز پر حسین نواز کی گفتگو سُن کر ایک چالاک گاہک اور سادہ لوح حلوائی کا لطیفہ یاد آ گیا۔ میاں صاحب کو لطائف اور لطیفہ باز ویسے بھی پسند ہیں ‘یہ لطیفہ بھی شائد انہیں پسند آئے۔
ایک شخص حلوائی کی دکان پر گیا اور برفی کا نرخ پوچھا۔ حلوائی نے نرخ بتایا تو گاہک بولا ایک پائو پیک کر دو۔ دکاندار نے پیک کی تو گاہک نے کہا لڈو کا بھائو کیا ہے؟ حلوائی نے بھائو بتایا تو گاہک بولا برفی رکھ لو‘ اس کے عوض لڈو دے دو‘ دکاندار نے ایسا ہی کیا۔ اچانک گاہک نے گلاب جامن کی طرف اشارہ کر کے نرخ پوچھے تو غصّے پر قابو پاکر حلوائی نے اس کا نرخ بتایا ۔گاہک بولا لڈو چھوڑو‘ گلاب جامن دے دو‘ پھر رس گُلا مانگا اور جب دکاندار رس گُلا پیک کرنے لگا تو گاہک بولا مجھے پلیٹ میں رکھ کر دے دو ‘یہاں کھا لیتا ہوں۔ حلوائی نے تعمیل کی۔ گاہک نے رس گُلے کھائے‘ ڈکار لیا اور چل پڑا۔ حلوائی نے کہا بھائی! رس گلے کی قیمت تو ادا کرو۔ گاہک بولا رس گلے تو میں نے گلاب جامن کے عوض لیے تھے۔ حلوائی بولا تو پھر گلاب جامن کی قیمت؟ وہ تو تم نے لڈو کی جگہ دیئے۔ چلو لڈو کی ادائیگی تو کریں‘ حلوائی عاجز آ کر بولا۔ وہ بھی برفی کے بدلے لیے تھے! گاہک اطمینان سے بولا۔ حلوائی سٹپٹا گیا۔ گاہک کی دلیل مان لی اور بولا تو ٹھیک ہے! برفی کے پیسے یہاں رکھو ‘زیادہ چالاک نہ بنو۔ کون سی برفی ؟ وہ تو میں نے واپس کر دی تھی۔ گاہک معصومیت سے بولا۔
پارک لین لندن کے فلیٹس کی خریداری کا معاملہ 1998ء میں منظرعام پر آیا جب ایک برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے 20 اکتوبر کی اشاعت میں Pakistan PM Made Millions in UK کے عنوان سے اینڈریو بن کمب کی سٹوری شائع کی۔ اس سٹوری میں قاضی فیملی‘ شریف خاندان کے ایک قریبی ساتھی اور 
میاں صاحب کے زیر تعلیم صاحبزادے کے علاوہ چار لگژری اپارٹمنٹس کا ذکر ہے۔ مگر وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز ان اپارٹمنٹس کی خریداری کا سن 2006ء بتاتے ہیں‘ جب انہوں نے سعودی عرب میں سٹیل مل فروخت کی اور آف شور کمپنیاں بنائیں۔اس تضاد کے علاوہ سوال یہ ہے کہ سٹیل مل آپ کے خاندان نے اگر سعودی بینکوں کے قرضوں سے بنائی تو ضمانت کے طور پر کونسی جائیدادیںبینکوں میں رہن رکھیں؟ شریف خاندان تو جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں سب کچھ لٹا کر عازم جدہ ہوا۔ اتفاق فائونڈری اور دیگر کاروباری ادارے بینکوں کے پاس رہن تھے۔ ماڈل ٹائون والے گھر حکومت کے قبضے میں تھے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب میں کاروبار کو کوئی خطرہ نہ ہونے کے باوجود سرمایہ برطانیہ منتقل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور وہ بھی آف شور کمپنیوں کی خریداری کے لیے اور ایسے ممالک میں جو کالے دھن اور ناجائز دولت کو تحفظ دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ آف شور کمپنی کا قیام غیر قانونی نہ بھی ہو مگر یہ تو ثابت کرنا ہی پڑے گا کہ یہ دولت ٹیکس چوری‘ منی لانڈرنگ‘ ڈرگ ڈیل‘ ہتھیاروں کی سمگلنگ یا دیگر مجرمانہ ذرائع سے حاصل نہیں کی گئی۔
حسین نواز نے وجہ یہ بتائی کہ انہیں ٹیکس بچانے کا قانونی حق ہے۔ بجا، مگر پاکستان میں اُن کے خاندان کی حکومت ہے جس نے ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ٹیکسوں کی وجہ سے غریب تو درکنار متوسط طبقہ بھی تعلیم اور صحت کے لیے مناسب وسائل سے محروم ہے مگر حکمران خاندان اپنی دولت کو ٹیکس سے بچانے کے لیے مشکوک آف شور کمپنیوں کا سہارا لینے میں آزاد ہے ‘ سبحان اللہ! حکمران طبقہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کاہل قوم کا خون نچوڑنا‘ بدن بھنبھوڑنا اور وسائل بیرون ملک منتقل کرنا اس کاپیدائشی حق ہے۔ جو قوم کیمیکل ملا دودھ خوشی سے پی رہی ہے‘ گندے نالے سے دھلی سبزیاں کھاتے نہیں جھجکتی‘ جہاں گدھے کا گوشت بک رہا ہے‘ کچے پھل سپرے کر کے بیچے جا رہے ہیں‘ اینٹوں کا برادہ ملا کر مرچیں اور چنے کے چھلکے ملا کر چائے کی پتی بآسانی بک رہی ہے‘ وہاں بیرون ملک سرمائے کی منتقلی اور آف شور کمپنیوں کے قیام پر بھلا کون اعتراض کر سکتا ہے؟ کوئی کرے بھی تو اس کا مُنہ جوڈیشل کمشن بنا کر بآسانی بند کیا جا سکتا ہے۔ قوم دھنیا پی کر سوئی ہوئی ہو تو یہی ڈرامے ہوتے ہیں۔
آئس لینڈ کی آبادی تین لاکھ انتیس ہزار ہے۔ پانامہ پیپرز میں وزیراعظم سگمنڈر گنولکسن پر الزام لگا تو ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اس وقت گھروں کو واپس لوٹے جب وزیراعظم نے صدر کو استعفیٰ پیش کر دیا۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ توڑنے کی کوشش کی تو صدر نے ناکام بنا دی کیونکہ وہ ایک آزاد اور باوقار قوم کا صدر ہے۔ وزیراعظم کا ممنون نہیں کہ پارلیمنٹ توڑ کر سگمنڈر کو خفت سے بچاتا۔ پانامہ پیپرز میں صرف شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں اور جائیدادوں کا ذکر نہیں ۔اس حمام میں اور بھی بہت سے سیاستدان بشمول بھٹوز‘ جج‘ جرنیل‘ بیورو کریٹس‘ تاجر اور صنعتکار ننگے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ پانامہ پیپرز کا بغور جائزہ لے رہا ہے تاکہ بدعنوان عناصر کے خلاف ثبوت اکٹھے کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ برطانوی ٹیکس ایجنسی ایچ ایم ریونیو اینڈ کسٹمز نے آئی سی آئی جے سے معلومات کے تبادلے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ ٹیکس چور افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کر سکے جبکہ یوکرین کے وزیراعظم نے اپنے ہی ملک کے صدر پیٹرو پورشنکو کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پانامہ پیپرز پر ایک بااختیار و آزاد تحقیقاتی کمشن بنانے کے بجائے ایسا لولا لنگڑا بے اختیار کمشن بنانے کی تجویز ہے جس میں ثبوت شریف خاندان کے مخالفین کو پیش کرنے کا پابند کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ یہ کسی خاندان نہیں ملک کی غیرت و وقار‘ ٹیکس دھندگان کے حقوق اور قومی خزانے میں خیانت کا مسئلہ ہے ۔
میاں صاحب اور اُن کے صاحبزادے پانامہ پیپرز کے حوالے سے جو وضاحتیں اب قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں ‘اگر وہی آئی سی آئی جے کی طرف سے تفصیلی سوالنامہ موصول ہونے پر بھیج دیتے تو خواہ مخواہ شور مچتا نہ ملک اور حکمران خاندان کی بدنامی ہوتی۔ ان وضاحتوں سے نئے سوالات اور اعتراضات نے جنم لیا اور معاملہ الجھتا چلا گیا۔ حسین نواز نے یہ منطق بھی پیش کی کہ برطانیہ میں آف شور کمپنیوں کا کاروبار غیر قانونی نہیں ۔بجا! اگر واقعی یہ قانونی کاروبار ہے تو پاکستان میں اس کی اجازت کیوں نہیں ؟اور بے نامی کھاتے قانون کی گرفت میں کیوں آتے ہیں؟ اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں جسم فروشی جرم نہیں‘ تو کیا کسی پاکستانی خاتون کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہاں جا کر وہ یہ کام شروع کر دے اور پاکستان میں پوچھنے پر یہ موقف اختیار کرے کہ جہاں میں نے یہ جھک ماری وہاں اس پر قانونی پابندی نہیں‘ لہٰذا میں کسی کو جوابدہ نہیں۔
ریمنڈ ڈبلیو بیکر نے اپنی کتاب Capitalism's Achilles Heel میں پاکستان کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ''خطرناک ملک‘ جہاں پر کرپشن اور جرائم کا آتش فشاں موجود ہے اور مفاد پرست سیاستدانوں‘ لالچی جرنیلوں‘ منشیات کے سمگلروں اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ وحشت ناک دلدل بنتا جا رہا ہے ۔کرپشن اور ظلم کا یہ سلسلہ اُوپر سے نیچے کی جانب چلتا ہے۔یہاں کے سیاسی خاندان مسلسل قومی دولت کولوٹ رہے ہیں... پاکستان پر بحث کو اس بات پر سمیٹا جا سکتا ہے کہ یہاں کا حکمران طبقہ بددیانت اور کرپٹ تھا اور مسلسل ہے۔ مغربی بینک ان کی کرپشن کو ماضی میں اور اب بھی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر بیرون ملک لائے گئے ۔یہاں پر کروڑوں لوگ غریب اور ناخواندہ ہیں ‘نشہ آور اشیاء کی سمگلنگ آزادانہ ہوتی ہے اور دہشت گردوں کی یہ جائے پناہ ہے۔ آخر میں غریب اور ناخواندہ عوام بے چینی اور کرب کے سمندر میں غوطے لگانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے دہشت گردی کو پروان چڑھنے کے لیے بہترین بنیاد ملتی ہے‘‘ ۔جوڈیشل کمشن کا قیام مٹی پائو سکیم ہے۔ کسی کمشن کی سفارشات کو کبھی سرکاری سطح پر پذیرائی نہیں ملی۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر حکومت کے قائم کردہ باقر نجفی کمشن کی رپورٹ کو جس بُرے طریقے سے ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا اور نوّے کے عشرے میں جس طرح من پسند رپورٹیں حاصل کی گئیں‘ اس کی وجہ سے کسی کو اعتماد نہیں۔ حکمران اپنی جگہ سچے ہیں کہ جب عوام شانت ہیں ‘اپوزیشن نالائق و منقسم اور نیب‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر جیسے ادارے تابعدار تو میڈیا اور سیاسی مخالفین کی آواز پر وہ کان کیوں دھریں؟ حلوائی اور گاہک والے لطیفے سے محظوظ کیوں نہ ہوں۔یہی خوش خوراکی اور خوش ذوقی کا تقاضا ہے۔جس ملک میں حکمران خاندان کاروبار سے خوفزدہ ہے‘ وہاں دوبار سبکدوشی اور ایک بار جلا وطنی کے بعد میاں صاحب کا سیاست اور حکومت کرنا دل گردے کا کام ہے۔ مرحبا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں