تُو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر

کیا عمران خان کو اب بھی یقین نہیں کہ عوام بالخصوص نوجوان اسے دیکھنے اور سننے آتے ہیں‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی‘ ابرار الحق اور سلمان احمد کی موسیقی اور دھماچوکڑی سے لطف اندوز ہونے نہیں؟ اگر ہے اور اسے اپنی کرشمہ ساز شخصیت پر اعتماد ہونا چاہیے تو پھر ایک پولیٹیکل شو کو میوزیکل شو میں تبدیل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟۔
تحریک انصاف کا جلسہ حسب سابق بھر پور تھا‘ حاضری‘ جوش و جذبے اور انتظامات کے اعتبار سے متاثر کن‘ مگر بعض نوجوانوں کی ہلڑ بازی اور عمران خان کی ربط و ارتکاز سے محروم گفتگو نے ناقدین کو باتیں بنانے کا موقع فراہم کیا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد یہ کہنا کہ اصل بات تو میں بھول ہی گیا ‘کس کیفیت کی غمازی کرتا ہے؟ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر سردار سورن سنگھ کا قتل انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا۔ اقبالؒ اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کا ذکر کیا مگر ٹکٹ کے تنازع پر ہونے والے قتل کو شہادت قرار دینا؟ کیا الفاظ کا بہتر چنائو ایک قومی لیڈر کی ذمہ داری نہیں۔ 
تحریک انصاف کو قائم ہوئے بیس سال گزر گئے مگر ڈسپلن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کی یہی حالت ہے اور مختلف مقامی لیڈر اور کارکن محض اپنی قیادت اور میڈیا کے سامنے چہرہ نمائی کے لیے بدنظمی کا مظاہرہ کرتے اور اپنے مخالفین کے علاوہ سنجیدہ فکر پاکستانیوں کی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ جوش و خروش‘ والہانہ پن اور جذبہ و جنون‘ ہلڑ بازی کا رنگ اختیار کر لے‘ تو یہ کسی جماعت اور قیادت کے لیے وجہ افتخار نہیں باعث ندامت ہے۔
معاشرے میں نظم و ضبط مفقود ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد و گروہ بھی ہیجان‘ بدنظمی اور ہنگامہ و احتجاج کی راہ پر گامزن ہیں۔ گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات کے حق میں او پی ڈیز بند کر کے مریضوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا‘ بڑے شہروں میں ان دنوں ٹریفک جام روز مرہ کا معمول ہے کیونکہ کسی نہ کسی سرکاری محکمے اور ادارے کے ملازمین مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر موجود پائے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ نے ڈھٹائی کی نعمت سے وافر نوازاہے جب تک لوگ سڑکوں پر نکل کر خلق خدا کی آمدو رفت میں خلل نہ ڈالیں اور نجی و سرکاری املاک پر سنگ باری نہ کریں حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی مگر احتجاجی گروہ بھی حکومت سے مطالبات منوانے کے لیے اپنے ہی جیسے محروم‘ مظلوم‘ بے بس اور ضرورت مند شہریوں کو تنگ کرنا اور ان کی بددعائیں لینا ضروری خیال کرتے ہیں یہی معاملہ سیاسی کارکنوں کا ہے جن کی تربیت سیاستدانوں کا فرض ہے مگر انہیں ایک پُرامن ‘ پرسکون اورہنگامہ آرائی و ہلڑ بازی سے پاک ہجوم شائد ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ شور شرابا‘ نعرہ بازی اور دھکم پیل کو وہ جوش و جذبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
عمران خان چونکہ قائد اعظم ؒکا ذکر تسلسل سے کرتے ہیں اور پاکستان کو قائد اعظمؒ کے خوابوں کی تعبیر ریاست بنانے کے حوالے سے پرعزم ہیں لہٰذا انہیں قائد اعظمؒ کے پسندیدہ نعرے ایمان‘ اتحاد اورنظم و ضبط پر توجہ دینی چاہیے۔ قائد اعظم عوامی اجتماعات میں بھی ‘ بے جا نعرے بازی کو پسند کرتے‘ نہ ہلڑ بازی ہونے دیتے۔ قائد اعظمؒ کی آمد پر سامعین کی خاموشی قابل دید ہوتی تھی اور وہ حاضرین سے اپنی بات توجہ سے سننے کی توقع کرتے۔
لاہور اور اسلام آباد کے اجتماعات میں گفتگو کا مرکزی نقطہ پاناما لیکس اور حکمران خاندان کے مالی معاملات رہے۔ وزیر اعظم نے دو بار قوم سے خطاب‘ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن کی تشکیل اور ملک کے طول و عرض میں عوامی اجتماعات کے انعقاد سے اپوزیشن کے دبائو کو تسلیم کر لیا ہے۔ انہیں شائد احساس ہے کہ وہ نشری خطاب سے قوم کو مطمئن نہیں کر سکے لہٰذا براہ راست عوام سے رابطہ اور اپنا موقف تفصیل سے بیان کرنا چاہیے۔ یہ وزیر اعظم اور حکومت کی ذہنی پسپائی ہے یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں کہ وزیر اعظم مڈٹرم الیکشن کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم پر نکلے ہیں اور من پسند ٹی او آرز کے ذریعے انکوائری کو طویل دینے کا مقصد زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا ہے۔ اگر حکمران خاندان کے مالیاتی معاملات شفاف اور شکوک و شبہات سے پاک ہوتے تو وہ تاخیری حربے‘ مخالفین پر الزام تراشی اور گنجلک ٹی او آرزکا سہارا لینے کے بجائے اپنے پہلے خطاب میں قوم کے سامنے لندن میں اپنے خاندان کی جائیداد کی دستاویزات پیش کر دیتے، کہ (1)یہ کب ؟کس کے نام پر؟ خریدی گئی(2)ٹیکس ریٹرنز کی تفصیلات تاکہ پتہ چلے کہ خریداری کے لیے کتنی رقم خرچ ہوئی اور (3) اس بنک کی دستاویزات جہاں سے رقوم قانونی طریقے سے منتقل ہوئیںتو ہنگامہ برپا نہ ہوتا۔ یہ مشکل کام تھا نہ کسی جوڈیشل انکوائری کا محتاج‘ کسی بھی معقول شخص سے جب ٹیکس حکام سوال کرتے ہیں تو وہ اپنی آمدنی کا ذریعہ‘ اخراجات اور اثاثوں کی تفصیل اور لین دین کے ذرائع سے آگاہ کرتا ہے کمشن کی تشکیل یا ملک بھر میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف انکوائری کا مطالبہ نہیں کرتا۔ دستاویزی ثبوت دیتا ہے‘ چوک چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مظلومیت کا رونا نہیں روتااپنی خدمات کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا ۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ بھارت کے تربیت یافتہ اور مراعات یافتہ کارندوں نے اندرون ملک سازشوں‘ تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ نریندر مودی پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور مداخلت کے خلاف واویلا کر رہا ہے۔ اور اقتصادی راہداری کو روکنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے امریکہ نے ایک بار پھر حقانی نیٹ ورک کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے اور ایران و افغانستان کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں مگر وزیر اعظم اپنے فرائض منصبی پر توجہ مبذول کرنے کے بجائے قوم کے خرچے پرسیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو ناک آئوٹ کرنے کے لیے تدبیریں سوچی جا رہی ہیں اور ہفتے میں دو بار عوامی اجتماعات سے خطاب کا پروگرام ہے۔ اس فیصلے پر محروم التفات عوام اور مسلم لیگی کارکن بہرحال خوش ہیں ؎
تجاہل تغافل‘ تبسم‘ تکلم 
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں سے امریکہ میں ایک خاتون کا مکالمہ ان دنوں سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے جس میں وہ خاتون کہہ رہی ہیں کہ آپ لوگ اور وزیر اعظم ہم سے اندرون ملک کاروبار اور سرمایہ کاری کی اپیل کرتے ہیں۔ مگر اپنا سرمایہ باہر رکھتے اور کاروبار بھی بیرون ملک کرتے ہیں۔ یہ ہر اوورسیز پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار کا سوال ہے اور وزیر اعظم کے علاوہ ان کے ساتھیوں کو بیرون ملک ہر محفل میں اس سوال کا سامنا رہے گا جب تک وہ ٹھوس شواہد کے ساتھ اپنی صفائی پیش نہیں کرتے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک بار پھر پنجے گاڑ چکا ہے اور کرپشن کے الزامات نے حکومت کی سیاسی و اخلاقی ساکھ تباہ کر دی ہے۔ جن حکمرانوں کے مالیاتی معاملات پر اندرون و بیرون ملک انگلیاں اٹھ رہی ہوں‘ جن کے خلاف عوامی اجتماعات میں احتساب کا مطالبہ کیا جا رہا ہو اور جن کا واحد دفاع اب یہ رہ گیا ہو کہ ان کے مخالفین بھی پاک دامن نہیں ان کی طرح آلودہ ہیں وہ خوش اسلوبی سے حکومتی معاملات کس طرح چلا سکتے ہیں؟ یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔چور چور کا شور مچانے اور 1947ء سے احتساب شروع کرنے سے حکومت کی پاک دامنی ثابت نہیں ہوتی۔ جو کام نیب‘ ایف بی آر اور ایف آئی اے کے کرنے کا ہے وہ جوڈیشل کمشن کو سونپا جا رہا ہے اور جو وزیر اعظم خود کر سکتے ہیں اس پر آمادہ نہیں۔ نیت نیک ہو تو اپنے بچوں کے حوالے سے کمیشن کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ کر وزیر اعظم غیر جانبدار نیب کو تمام قرض خور‘ ٹیکس چور‘ قومی خزانے کو لوٹنے اور بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں تاکہ بلا تفریق احتساب (Across The Board)کے تقاضے پورے ہوں احتساب کی کسوٹی پر پورا اُترنے کے بعد وزیر اعظم ہر ایک کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں پھر عمران خان ‘ پرویز مشرف ‘ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ آصف علی زرداری‘ خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن میں سے جو قومی مجرم ثابت ہو اسے قانون کے مطابق سزا دینا آسان ہو گا۔ اس پر بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ امریکی سفارت کار سوزن رائس کو درمیان میں ڈالنے کی ضرورت کیا ہے؟۔آخر میں حضرت واصف علی واصفؒ کا قول:بادشاہ کا جرم‘ جرائم کا بادشاہ ہوتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں