دل آرزدہ ہے‘ طبیعت افسردہ اور دماغ پژمردہ۔ کراچی آپریشن کیا تین سال بعد بھی پائیدار امن کی ضمانت فراہم کرنے سے قاصر ہے؟ نامور قوال امجد فرید صابری کا قتل ان بلند بانگ دعووں کی نفی ہے کہ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی کمر ٹوٹ چکی اور اب وہ کسی بڑی کارروائی کے قابل نہیں رہے۔ سندھ حکومت‘ کراچی پولیس اور سب سے بڑھ کر کراچی میں قیام امن کی ذمہ دار رینجرز کی منصوبہ بندی‘ فعالیت اور کار گزاری پر یہ سوالیہ نشان ہے۔ رینجرز کی ساکھ سب سے زیادہ مجروح ہوئی ہے۔
دنیا میں ہر باصلاحیت ریاضت کیش اور انفرادیت پسند شخص کے حصے میں شہرت آتی ہے۔ کچھ شہرت کے ساتھ عزت بھی کماتے ہیں اور مقبولیت کی انتہائوں کو چھونے والوں میں سے کچھ اپنے چاہنے والوں کی والہانہ محبت کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ امجد صابری کی موت پر ہر گھر میں دکھ محسوس کیا گیا‘ جنازے اور تدفین کے موقع پر جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے‘ وہ اس ملنسار‘ ریاضت کیش‘ صوفی منش اور منفرد گلوکار کو ملنے والی شہرت‘ عزت اور محبّت کا ثبوت تھے۔ حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں دو افراد بھی یہ رائے دیں کہ وہ اچھا انسان ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کو میری امت سے اتنا پیار ہے کہ وہ اس شخص کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ امجد صابری کے اچھا انسان ہونے کی شہادت تو ملک بھر میں لاکھوں افراد دے رہے ہیں‘ چہ عجب کہ اللہ تعالیٰ وفات سے چند گھنٹے قبل سحری ٹرانسمشن میں کی گئی اس کی التجا بھی قبول فرمائے ؎
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا
میں قبر اندھیری میں گھبرائوں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آ جانا میرے آقا
روشن میری تُربت کو لِلّہ ذرا کرنا
جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا
امجد صابری کسی اندھی گولی کا نشانہ نہیں بنے۔ یہ قاتلوں کا واضح ہدف تھے۔ یہ دراصل کراچی کے عوام کو دھمکانے کی سعی ہے کہ ہم یہاں موجود ہیں‘ ہمارے ٹھکانے بھی۔ جس کو چاہیں آسانی سے موت کے گھاٹ اُتار کر کوئی سراغ چھوڑے بغیر روپوش ہو جائیں‘ کوئی ہمارا بال بیکا نہیںکر سکتا۔ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے مقاصد مخفی نہیں۔ ایک نامور‘ مقبول اور بااثر شخص پر چلنے والی گولی دراصل اس شخصیت سے ذاتی‘ طبقاتی اور روحانی طور پر وابستہ لاکھوں عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر حکومت‘ ریاست اور ریاستی مشینری اس بااثر شخص کا تحفظ نہیں کر سکی‘ تو ہم آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ نامور شخص قاتلوں کا ہدف سکیورٹی اداروں کی کارگزاری کا پول کھولنے اور مقامی و عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ پانے کے لیے بنا۔ دو روزہ میڈیا کوریج سے یہ عقدہ کھلا۔
کراچی آپریشن‘ ضرب عضب آپریشن سے کم و بیش آٹھ نو ماہ قبل شروع ہوا۔ ذاتی طور پر میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا وزیر اعظم نواز شریف نے جب آپریشن کا کپتان وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو قرار دیا۔ عمر رسیدہ شاہ جی ''نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کی عملی تصویر ہیں۔ سندھ پولیس واضح طور پر نسلی اور لسانی گروہوں میں بٹی ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے سیاسی مقاصد کے لیے بھرتیاںکیں اور تھانے بکتے رہے۔ تقرر‘ ترقی اور تنزلی میں میرٹ کا خیال ماضی میں رکھا گیا‘ نہ اب رکھا جا رہا ہے۔ اہلیت و صلاحیت محدود اور دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں سے نمٹنے کا جذبہ مفقود‘ انتظامیہ بھی ان جراثیم سے پاک نہیں‘ جبکہ دو عشروں سے کراچی میں قیام امن کے لیے تعینات رینجرز بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ آلائشوں سے سو فیصد پاک ہے۔ اسی بناء پر ناقدین کو فوج اور رینجرز پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل رہا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ قیام امن کے لیے جملہ اختیارات ملنے کے بعد بھی رینجرز چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے صاحبزادے اویس شاہ کے اغوا کاروں اور قوال امجد فرید صابری کے قاتلوں کو مذموم کارروائیوں سے روک سکی‘ نہ اب تک ان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی‘ آخر سندھ پولیس اور رینجرز میں فرق کیا ہے؟
کراچی آپریشن اگر حتمی کامرانی کی منزل سے دور ہے تو اس کے اسباب عیاں ہیں۔ رینجرز اور پولیس بلکہ حکومت سندھ ایک دوسرے کی ہم نفس و ہمنوا نہیں‘ مدمقابل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں اپنے اپنے الگ پراسیکیوٹر مقرر کرکے رینجرز اور حکومت سندھ نے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کیا۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے وفاقی حکومت کا طرز عمل کنفیوزڈ ہے۔ نثار علی خاں اور اسحق ڈار کی سوچ الگ الگ ہے‘ صرف ایم کیو ایم کے باب میں نہیں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے بارے میں بھی۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری‘ دونوں فوج کے ضمن میں تحفظات کا شکار ہیں اور کراچی آپریشن بالخصوص پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے چیدہ چیدہ افراد کی گرفتاریوں کو کسی گریٹ گیم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسلام آباد اور کراچی میں ہر شخص اور ادارہ ایک دوسرے کے خلاف چارج شیٹ لئے پھرتا ہے۔ سندھ حکومت اور پولیس کو رینجرز سے گلہ ہے‘ قائم علی شاہ نثار علی خاں سے شاکی ہیں‘ رینجرز سندھ حکومت اور عدالتوں کے عدم تعاون کا پرچار کرتی ہے اور عدالتیں ناقص تفتیش کا۔ اس کشمکش میں عوام کی زندگی اجیرن ہے اور جان و مال‘ عزت و آبرو غیر محفوظ۔ وہ تاحال یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رینجرز اور فوج کیا واقعی دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے علاوہ ان کے سیاسی سرپرستوں اور مالیاتی سہولت کاروں کا مکمل قلع قمع چاہتی ہے‘ اور نیب کی فعالیت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی کڑی ہے یا سب دکھاوا ہے۔ اگر واقعی مقصد سیاسی سرپرستوں اور مالیاتی سہولت کاروں کے علاوہ قومی دولت لوٹنے والوں کا سدّباب ہے تو پھر سانحہ بلدیہ ٹائون میں ملوث بعض کرداروں اور پنجاب سے چشم پوشی کیوں؟ اسلام آباد میں سول ملٹری تعلقات میں خرابی کے تاثر سے آپریشن ضرب اور کراچی آپریشن کی کامیابی میں کس قدر مدد مل سکتی ہے؟ اگر پونے تین سال میں سندھ حکومت کی بے عملی کراچی آپریشن پر ناروا بوجھ ثابت ہوئی ہے اور رینجرز کو آزادی عمل میّسر نہیں تو مستقبل میں خیر کی خبر کیسے ملے گی؟ جبکہ تحریک طالبان پاکستان‘ لشکر جھنگوی‘ اور ''را‘‘ کے تربیت یافتہ ٹارگٹ کلرز کے علاوہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا قلع قمع بھی تاحال نہیں ہو سکا‘ ورنہ ہمیں ہر دو چار ہفتوں بعد کسی ناخوشگوار سانحہ سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ ایم کیو ایم اور خدمت خلق فائونڈیشن نے امجد صابری کی لاش پر سیاست کرنے کی سعی کی‘ جو افسوسناک تھی۔ یوم علیؓ قریب ہے‘ اویس شاہ اور امجد صابری کے واقعات نے کراچی کے عوام کو پھر بے یقینی سے دوچار کر دیا ہے۔ ان کا سراغ رساں اداروں خفیہ ایجنسیوں‘ رینجرز‘ پولیس اور ایس ٹی ڈی پر اعتماد مجروح ہوا ہے‘ اور دیکھا جائے تو دہشت گرد اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔ کیا کراچی میں واحد کمان کے تحت آپریشن کی تکمیل ممکن ہے؟ کیا میاں نواز شریف آصف علی زرداری اور جنرل راحیل شریف یکسو ہو کر کراچی آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں؟ سندھ میں گورنر راج کے بغیر ایسا ممکن بھی ہے؟ یا عمر رسیدہ قائم علی شاہ کی کپتانی میں یہ شتر گربہ نظام چلتا رہے گا۔ ایک نئے سانحے کے انتظار میں عوام سولی پر لٹکے رہیں گے‘ امجد صابری کے قتل کا سانحہ بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھولتا۔ ہم اس قاتل نظام کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں‘ جس نے کراچی کو بانجھ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے‘ تو ہو چکا آپریشن کامیاب اور جیت لی ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ کیوں نہ ہر طرف سے مایوس عوام اپنے آقا و مولا سرور کائناتﷺ کے سامنے فریاد کناں ہوں ؎
کوئی اپنا نہیں غم کے مارے ہیں ہم
آپؐ کے در پہ فریاد لائے ہیں ہم
ہو‘ نگاہ کرم‘ ورنہ چوکھٹ پہ ہم
آپ کا نام لے لے کے مر جائیں گے
خوفِ طوفان ہے‘ بجلیوں کا ہے ڈر
سخت مشکل ہے آقاؐ کدھر جائیں ہم
آپ ہی گر نہ لیں گے ہماری خبر
ہم مصیبت کے مارے کدھر جائیں گے
الطاف حسین حالی نے بھی تو عالم اسلام کے حالات سے مایوس ہو کر یہی پکارا تھا ؎
اے خاصہء خاصان رسلؐ وقت دعا ہے
امت پہ تِری آ کے عجب وقت پڑا ہے
فریاد ہے اے کشتیٔ اُمت کے نگہبان
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے