پشتون غیرت

یہ اکیلے محمود خان اچکزئی کا المیّہ نہیں۔ کانگریس کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی نے تو پاکستان کو ایک آزاد‘ خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا مگر صوبہ سرحد اور بلوچستان کے کانگریس پرفریفتہ گاندھی مرتے دم تک اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی فکری و عملی جدوجہد سے قائم ہونے والے ملک کی آزادی کو ہضم نہ کر سکے۔ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان مرحوم اور بلوچستانی گاندھی عبدالصمد اچکزئی مرحوم کی آل اولاد بھی۔ خان عبدالغفار خان مرحوم کے بغض اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے پاک سرزمین کے بجائے افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہونا پسند کیا جو ان دنوں (1988ء میں )سوویت یونین کا مقبوضہ علاقہ تھا۔
محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور اس حیثیت میں ایک بار نہیں کئی بار پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھا چکے ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے اس پاکستان کی وفاداری کا حلف لیا جس کے آئین میں خیبر پختونخوا کا صوبہ اور فاٹا اس کا قانونی حصہ اور ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد ہے۔ 1952ء میں فخر افاغنہ خان عبدالغفار خان نے افغان حکومت سے مل کر پختونستان کا شوشہ چھوڑا تو برطانوی پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا گیا کہ ڈیورنڈ لائن تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے اور افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کو تسلیم کرنے کے بعد یہ تنازعہ کھڑا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی نے 1970ء میں بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد آزاد و خودمختار پاکستان کی وفاداری کا حلف اُٹھایا اور مرتے دم تک پاکستان کے شہری رہے۔ ڈیورنڈ لائن کی بین الاقوامی حیثیت کو شاہ شجاع کی حکمرانی کی آڑ میں متنازعہ بنانا تاریخی بددیانتی ہے کیونکہ اگر شاہ شجاع کی حکمرانی کی بنا پر خیبر پختونخوا اور فاٹا افغانستان کا حصہ ہے تو پھر راجہ رنجیت سنگھ کے دور حکمرانی کو تاریخ کے صفحات سے حذف نہیں کیا جا سکتا جب کابل تخت لاہور کا باجگزار اور جزولاینفک تھااور ہری سنگھ کے نام پر ہری پور اور مان سنگھ کے نام پر مانسہرہ کے شہر بسائے گئے۔ ویسے بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں افغانستان نے دہلی کی اطاعت قبول کی اور دہلی کے حکمرانوں کا سکہ افغانستان کے طول و عرض میں چلتا رہا۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کی نالائقی ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن پر سیاست کرنے والوں کی ناز برداری میں مصروف رہے اور ناقابل تردید ثبوتوں کی موجودگی میں بھی افغان اور بھارتی حکومت کے وظیفہ خوروں کے خلاف موثر کارروائی نہ کی۔ جمعہ خان صوفی نے ''فریب ناتمام‘‘ میں ان وظیفہ خواروں کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ 
محمود خان اچکزئی قائداعظمؒ ثانی میاں نوازشریف کے قابل اعتماد قریبی ساتھی ہیں۔ پاکستانی فوج کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طعن و تشنیع کے لیے ہمیشہ بلوچی گاندھی کے صاحبزادے ہی بروئے کار آتے ہیں۔ افغان حکمرانوں سے باچہ خان کے خانوادے کی طرح ان کی گاڑھی چھنتی ہے‘ خواہ وہ سوویت یونین کے مسلط کردہ ترکئی‘ امین‘ کارمل اور نجیب اللہ ہوں یا امریکہ کے گماشتہ کرزئی ۔مگر افغان عوام جب سوویت یونین کے خلاف برسر پیکار خاک و خون کا سمندر عبور کر رہے تھے تو یہ انہیں امریکہ کے اجرتی اور اپنی جان و مال ‘عزت و آبرو اور ایمان بچا کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کو بھگوڑے قرار دیا کرتے تھے۔ جن افغان مہاجرین سے آج یہ ہمدردی جتا رہے ہیں انہیں بھگوڑا قرار دینے والے اچکزئی کے دل میں ہمدردی کا سمندر اس وقت موجزن ہوا جب وفاقی وزیر نثار علی خان نے جعلی پاسپورٹوں اور شناختی کارڈوں کو معطل اور منجمد کرنے کا بیڑا اٹھایا اور پاسپورٹ و شناختی کارڈ بنانے میں مددگار و سہولت کار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ ظاہر کیا۔ مخالفین کا موقف یہ ہے کہ بلوچستان میں جعلی شناختی کارڈ بنوا کر کاروبار کرنے والے افغان باشندوں کو اچکزئی خاندان کی اخلاقی و عملی تائید و حمایت حاصل ہے اور وزارت داخلہ کے اقدامات سے بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے منتخب ہونے والے اُن سیاست دانوں کی سیاسی و انتخابی اجارہ داری ختم ہونے کا اندیشہ ہے‘ جن کا پورا خاندان چند نشستوں کی بنا پر مرکز اور صوبے میں اہم سرکاری و پارلیمانی مناصب پر فائز اور ہر طرح کی مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
افغان مہاجرین کو زبردستی نکالنا زیادتی ہے اور اس حوالے سے محمود خان اچکزئی کا موقف غلط نہیں۔ کچھ افغان مہاجرین نے جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا اور ناجائز دھندوں مثلاً منشیات کی سمگلنگ اور اندرون ملک ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں ملوث رہے تو ایسے لوگ گردن زدنی ہیں‘ لیکن انہیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے والے مقامی لوگوں سے بازپرس کس کی ذمہ داری ہے ؟جنہوں نے صرف چند ٹکوں کی خاطر پاکستانی شناخت فروخت کی اور مملکت خداداد کی بدنامی کا راستہ کھولا۔ کیا یہ سب بھی افغانی تھے؟ افغانی و بھارتی ایجنسیوں کے آلہ کار یا محض موجودہ کرپٹ نظام کی پیداوار ؟جس نے پیسے کو مقصد حیات اور انسانی قدر و منزلت کا واحد زینہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ 
جو لوگ افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کے پاس مضبوط ترین دلیل یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ افغان حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کر رہے ہیں اور ڈاکٹر اشرف غنی کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کی حکومت پورے افغانستان میں اپنا قانونی وجود منوا چکی ہے‘ اُن کی حکومت کی کمک کے لیے امریکی فوج موجود ہے اور بھارت بھی۔ پھر کیوں نہ افغان مہاجرین بھی اپنے وطن واپس جا کر اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن محمود خان اچکزئی اس نقطہ نظر کے جواب میں کوئی دلیل اور معقول شہادت پیش کرنے کی بجائے ڈیورنڈ لائن اور شاہ شجاع کے زمانے کے افغانستان کا قضیہ لے کر میدان میں اُتر آئے اور تاریخ کو مسخ کر ڈالا۔ عبدالصمد اچکزئی اور باچہ خان کو قیام پاکستان کے بعد اپنے بھارت نواز موقف اور پاکستان مخالف نظریات کی بنا پر قید و بند کی اذیتوں سے گزرنا پڑا اور ان دونوں قائدین کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے مگر اسفندیار ولی اور محمود خان اچکزئی کو تو میاں نوازشریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے سر آنکھوں پر بٹھایا‘ حق حکمرانی تسلیم کیا اور جائز و ناجائز مراعات سے نوازا۔ پاکستان میں شریف خاندان اور زرداری خاندان کے بعد اچکزئی خاندان ہی وہ خوش نصیب خاندان ہے جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ ایک بھائی گورنر‘ دوسرا صوبائی وزیر اور ایک درجن کے قریب عزیز و اقارب مرد و زن سرکاری و پارلیمانی مناصب پر فائز‘ اس کے باوجود جب موقع ملتا ہے موصوف کبھی پاکستان کے قیام پر انگلی اٹھاتے ہیں‘ کبھی اس کی آزادی و خودمختاری اور کبھی تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحدوں کو جھٹلاتے ہیں۔ 
بلوچستان میں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا بھارت کی سرکاری سرپرستی میں چلنے والا نیٹ ورک پکڑا گیا تو موصوف کی زبان گنگ ہو گئی اور ندامت کا ایک لفظ اُن سے ادا نہ ہوا۔ طورخم پر افغان فوج نے فائرنگ کر کے بلوچستان کے ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے میجر چنگیزی کو شہید کر ڈالا تو غیرت مند پشتون خاموش رہا۔ پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ افغانستان میں بے قصور افغان شہریوں کا خرگوشوں کا شکار کرتے رہے‘ اچکزئی کی رگ حمیت نہیں پھڑکی‘ اُلٹا وہ مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے کیونکہ مزاحمت کار کلمہ گو تھے جن کے بدن سے روح محمدؐ نکالنے کے لیے شیطان کے چیلے ہمیشہ تیغ بکف رہے ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو 
محمود خان اچکزئی کے بیان پر پرویز خٹک نے ردعمل ظاہر کیا مگر عمران خان چپ رہے حالانکہ دھرنے کے دنوں میں ان کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔ مسلم لیگ نون کے تو اچکزئی حلیف ہیں اور موقع ‘محل کے مطابق استعمال ہونے والے کارآمد ہتھیار۔عابد شیر علی‘ طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور ماروی میمن کیوں بولیں؟ لیکن باقی سیاسی قائدین اور جماعتوں نے چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا؟ پاکستان کی مقدس بین الاقوامی سرحدیں کیا ان کے نزدیک بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ؟پہلے ایک ٹولے نے واہگہ کی سرحد کو انگریزوں کی کھینچی ہوئی لکیر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ دیئے جلا کر اس لکیر کو مٹانے کی کوشش کی‘ نریندر مودی نے آ کر ایک بار پھر پاکستانیوں پر اس لکیر کی اہمیت و افادیت واضح کر دی۔ اب اچکزئی ڈیورنڈ لائن کی من مانی تعبیر کر رہے ہیں؛ حالانکہ اب یہ سلالہ‘ طورخم اور انگوراڈا کے شہیدوں کے خون سے کھینچی گئی سرحد ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں