’’Hate India‘‘

مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی ابن کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے الفاظ نے چونکا دیا ''میرے الفاظ سن لو‘ برہان مظفروانی کی قبر کے اندر سے جہادی بھرتی کرنے کی صلاحیت‘ اس کی سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہو گی‘‘۔
برہان وانی کا جنازہ شیر کشمیر شیخ عبداللہ کے جنازے سے بڑا نہیں تو برابر ضرور تھا‘ اہم سوال یہ ہے کہ وانی کرکٹ کھیلتے کھیلتے اچانک عسکریت پسند کیسے بن گیا؟ اتنا بڑا عسکریت پسند کہ بیس بائیس سالہ نوجوان کے سر کی قیمت بھارتی فوج نے لاکھوں روپے مقرر کی اور بالآخر اسے شہید کر دیا۔ بھارتی حکومت اور فوج کے لیے یہ شہادت اس قدر اہم تھی کہ بڑے بڑے بھارتی سورمائوں نے ٹوئٹر‘ وٹس اپ اور فیس بُک پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ 1994ء میں پلوامہ کے علاقے ترال میں ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولنے والے برہان مظفر وانی کو کسی جہادی تنظیم سے سروکار تھا نہ سیاست سے علاقہ۔ وانی کو کھیل کود سے رغبت تھی اور کرکٹ سے عشق۔ جارحانہ بلے بازی کے باوجود وہ پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا اور سکول کے ہیڈ ماسٹر اپنے والد سے خوب شاباش حاصل کرتا۔ 2010ء میں اس کی زندگی ایسے حادثے سے دوچار ہوئی جس نے سوچوں کا دھارا بدل دیا اور وہ گیند بلاّ چھوڑ کر بندوق برداروں سے جا ملا۔ ایک فوجی نے برہان کے بڑے بھائی کو کسی قصور کے بغیر بھون ڈالا‘ قریب موجود برہان کو لگا کہ اس کے بھائی کو صرف کشمیری ہونے کی سزا ملی ورنہ وہ مجرم تھا نہ کسی مقدمہ میں مطلوب‘ تب سولہ سالہ برہان مظفر کا حریت پسندوں سے ربط و ضبط بڑھا۔یہ ربط و ضبط ابھی ابتدائی مراحل ہی میں تھا کہ مڈل کے امتحان میں 90 فیصد نمبر لینے والے اس ہونہار طالب علم کو گورنمنٹ ہائی سکول ترال سے خارج کر دیا گیا جس کا ہیڈ ماسٹر اس کا اپنا والد مظفر احمد وانی تھا مگر وہ اپنے ہونہار بیٹے کی مدد کرنے سے قاصر رہا۔یوں برہان مظفر حزب المجاہدین میں باقاعدہ شامل ہوا‘ عسکری تربیت حاصل کی اور سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال لیا۔ 2010ء تا 2016ء کے دوران اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتوں سے اُس نے سوشل میڈیا پر بھارتی حکومت اور فوج کے چھکے چھڑا دیئے اور بھارتی میڈیا کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا کہ صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں وانی نے ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی فوج کے مدمقابل لاکھڑا کیا‘ انہی سرگرمیوں کی بناء پر بھارتی میڈیا سے اسے حزب المجاہدین کے ''پوسٹر بوائے‘‘ کا خطاب ملا۔ بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران اعتراف کرتے کہ برہان کی بات دل سے نکلتی اور ہزاروں دلوں میں اُتر جاتی ہے۔نوجوان کشمیری اسے اپنا رہنما اور رہبر ماننے لگے ؎ 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
برہان کے جنازے پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ سرینگر کی وسیع و عریض عیدگاہ میں جگہ کم پڑ گئی اور نماز جنازہ لگ بھگ چالیس بار ادا کرنا پڑی۔ وادی کے مختلف حصوں میں ادا کی جانے والی غائبانہ نماز جنازہ اس کے علاوہ تھی۔ برہان مظفر وانی کے شوق شہادت اور دیگر کشمیری نوجوانوں کی جہاد میں رغبت کی خبریں پڑھ کر مجھے پچھلے سال پنجاب یونیورسٹی میں مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں سے تبادلہ خیال کی نشست یاد آئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران نے ان کشمیری صحافیوں کو مدعو کر کے لاہور کے اخبار نویسوں‘ کالم نگاروں اور دانشوروں سے مکالمے کا موقع فراہم کیا تھا۔ افتخار گیلانی‘ شجاعت بخاری اور دیگر کشمیری اخبار نویس اس بات پر متفکر تھے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل ایک بار پھر مایوسی کا شکار اور عسکریت پسندی کی طرف راغب ہے‘ کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ پاکستان پر دراندازی کا الزام لگا کر بھارت نے عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ پاکستان نواز تنظیموں کو بیک فُٹ پر ڈالا اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خلاف مقامی و عالمی رائے عامہ ہموار کی‘ مگر جب عسکریت پسندی میں کمی آئی‘ سیاسی عمل میں کشمیریوں کی دلچسپی بڑھی اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ بھارت ملنے والی مہلت کے دوران مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کرے گا تو اُس نے ایک بار پھر پرانے دائو پیچ آزمانے شروع کر دیئے اور پانچ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ افتخار گیلانی نے تو یہ تک کہا کہ کشمیریوں کی قیام پاکستان کے بعد جنم لینے والی نسل اینٹی انڈیا تھی مگر 1990ء میں جنم لینے والی نسل صرف اینٹی انڈیا نہیں ہیٹ انڈیا (Hate India) کی پرچارک ہے گزشتہ روز ذہین افتخار گیلانی سے فون پر بات ہوئی تو اُس نے مقبوضہ کشمیر کے دو سابق کور کمانڈرز لیفٹیننٹ جنرل (ر) عطا حسنین اور وی ڈی پٹانکر کا تجزیہ پیش کیا کہ ''مردہ برہان بھارت کے لیے زندہ برہان سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گااور امریکہ کی پیروی اسے مہنگی پڑے گی۔‘‘
برہان وانی کی شہادت اور جنازے نے کشمیریوں کی نوجوان نسل کے جذبہ حریت پسندی و شہادت کو اجاگر نہیں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی تباہ کن بزدلانہ کشمیر پالیسی اور میاں نوازشریف کے شوق تجارت سے کشمیری عوام نے حوصلہ نہیں ہارا ‘اُلٹا اپنے بل بوتے پر پُرامن جدوجہد‘ نئے جوش و ولولے سے جاری رکھنے کی خواہش مند ہے جبکہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی خواہشات کو اہمیت دیتی ہے‘ نہ مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل چاہتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق‘ جنرل پرویز مشرف اور میاں نوازشریف کے دور میں تین بار بھارتی حکومت کو یہ موقع ملا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرے کیونکہ تینوں مواقع پر پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل میں الجھ کر یا امریکی دبائو پر کشمیری عوام کی جدوجہد سے بے اعتنائی برتی اور انہیں بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مگر بھارت نے تینوں مواقع پر بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا‘ بندوق کے زور پر حق خودارادیت کی آئینی‘ قانونی اور انسانی جدوجہد کو دبانے کی راہ اپنائی۔ بھارتی سنگدلی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کے مخالف سید علی گیلانی اور حامی یاسین ملک‘ میر واعظ عمر فاروق کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہے‘ جس سے کشمیریوںکی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو یہ پیغام ملا کہ '' بھارت مذاکرات پر یقین رکھتا ہے نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اور نہ وہ کشمیریوں کی کوئی معقول بات سننے پر آمادہ ہے‘‘۔ انڈین ایکسپریس نے اسی بناء پر لکھا: ''موجودہ عسکریت پسندوں کی اکثریت نے ہتھیاروں کے حصول اور تربیت کے لیے کبھی کنٹرول لائن عبور کی نہ پاکستان کی طرف دیکھا ‘وہ مقامی طور پر تربیت یافتہ ہیں‘‘۔
بھارتی فوج نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے گزشتہ دو روز کے دوران تیس کشمیری شہید ہی نہیں کئے‘ لاکھوں مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے پانچ سو افراد کو زخمی ہی نہیں کیا بلکہ نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کے لیے ممنوعہ بورکی ''پیلٹ گن‘‘ کا استعمال بڑھا دیا ہے جس کے چھروں سے اب تک ایک ہزار سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف آپریشن کی نگرانی مودی کے دست راست وزیر داخلہ راج ناتھ خود کر رہے ہیں۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اس آپریشن میں راج ناتھ کی معاون ہیں اور ''پیلٹ گن‘‘ کو وہ غیر مہلک ہتھیار قرار دے کر کشمیریوں کو بینائی سے محروم کرنے کے جُرم میں برابر شریک۔ لاکھوں کشمیری سڑکوں پر نکل کر پانچ لاکھ بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ‘وہ حق خودارادیت سے کم پر راضی نہیں مگر عالمی برادری‘ گونگے شیطان کا کردار ادا کر رہی ہے اور پاکستان بھی بھرپور سفارتی مہم شروع کرنے کے بجائے بیانات کے گولے داغ رہا ہے۔ وزیراعظم نے تو ایک بیان جاری کیا مگر کشمیر کمیٹی اور اس کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو جہاد کشمیر سے زیادہ آزاد کشمیر میں دلچسپی ہے۔ امریکہ‘ یورپ اور اس کے گماشتہ حکمران‘ دانشور‘ تجزیہ کار اور سفارت کار کئی سال تک کشمیر کی صورتحال کا ذمہ دار آئی ایس آئی اورجہادی تنظیموں کو قرار دے کر عملاً بھارت کی مدد کرتے رہے‘ اب کشمیریوں نے اپنی آزادی کا بیڑا خود اٹھایا ہے مگر سب کی زبانیں گنگ اور آنکھیں بند ہیں۔اس بے حسی اور بے اعتنائی نے نوجوان نسل کو برہان مظفر وانی کا دیوانہ بنا دیا ہے ‘جس نے اپنے والد مظفر احمد وانی کی طرح تعلیم اور کرکٹ کے میدان میں آگے بڑھنا چاہا مگر بھارتی فوج نے اسے عسکریت پسندی کی طرف دھکیل دیا اور آج حالت یہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عطا حسنین اور لیفٹیننٹ جنرل پٹانکر مردہ برہان کو زندہ برہان سے زیادہ خطرناک اور عمر عبداللہ اس کی قبر کو عسکریت پسندوں کی بھرتی کے لیے زیادہ پرکشش قرار دے رہے ہیں۔ کشمیر کے ناراض لوگوں کو ایک نئی علامت مل چکی ‘برہان وہ پہلا شخص نہیں جس نے ہتھیار اُٹھائے اور وہ آخری بھی نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں