تمہارے سینے میں دل تو ہو گا

ڈیرہ غازی خاں کی نواحی بستی پٹ سرکانی کا رہائشی خادم حسین خوش قسمت ہے کہ اس کی اہلیہ کو سرعام بچہ جنم دینے کی ذلت اور اذیت تو برداشت کرنا پڑی مگر زچہ‘ بچہ دونوں سلامت ہیں‘ مسیحائوں نے ورنہ مرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
پچھلے سال لاہور کے لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں شرقپور کی ریشماں بی بی نے ہسپتال کے احاطے میں بچے کو جنم دیا تو خوب ہاہاکار مچی‘ میاں شہبازشریف نے واقعہ کا نوٹس لیا اور لوگوں کا خیال تھا کہ اب کم از کم کسی شریف زادی کو ہسپتال پہنچ جانے کے بعد اس رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ شرم‘ حیا‘ حجاب‘ مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کے علمبردار معاشرے میں کسی خاتون کا خادم حسین کی اہلیہ یا شیخوپورہ کی ریشماں بی بی کی طرح یوں سرعام درد سے تڑپنا‘ کسی دائی نرس‘ گائنی ڈاکٹر کی موجودگی کے بغیر پیدائش کے عمل سے گزرنا‘ چیخنا چلانا اور راہ چلتے اجنبیوں کے سامنے تماشا بننا ذلت اور رسوائی ہے اور شرم و حیا کی پیکر خاتون کے لیے زندگی بھر کی شرمندگی۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ روز غازی میڈیکل کالج سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال میں ایک بار پھر یہ واقعہ رونما ہوا اور شہر کے اخبار نویسوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
اگر خادم حسین کی اہلیہ ہسپتال پہنچنے سے قبل بچے کو جنم دیتی تو یہ اہلخانہ کی غلطی گردانی جاتی کہ گنوار لوگ خاتون کو بروقت ہسپتال نہیں لائے مگر یہاں معاملہ مختلف ہے‘ خاتون ڈیرہ غازی خاں کے سب سے بڑے ہسپتال تک پہنچ گئی‘ غریب شہری نے استقبالیہ پر پہنچ کر اپنی بیوی کی حالت اور اپنی غربت کی داستان بھی بیان کر دی کہ وہ کسی نجی کلینک کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے نہ بیوی کو اس حالت میں کسی لیبارٹری لے جا کر ٹیسٹ کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ مالی طور پر بھی طرح طرح کے ٹیسٹ کرانے کا متحمل نہیں‘ مگر کسی نے ایک نہیں سُنی ۔
سماجی تفریق‘ معاشی عدم مساوات اور حاکم و محکوم‘ طاقتور و کمزور کی تفریق یہاں شقی القلبی کی حدیں پار کر چکی ہے۔ ایک ظالمانہ نظام ہے جس میں کمزور‘ غریب اور ضرورت مند کو توہین و تضحیک‘ ذلت و رسوائی اور اذیت و پشیمانی کے سوا کچھ میسر نہیں مگر داد دینی چاہیے ان ''باشعور عوام‘‘ کو جو یہ سب کچھ سہہ کر بے مزہ نہیں ہوتے۔ اس اشرافیہ پر صدقے واری جاتے ہیں جس نے انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ شرم و حیا کی پیکر خواتین کسی محفوظ‘ باپردہ اور طبی سہولتوں سے آراستہ مقام پر گائنی ڈاکٹر کے ہاتھوں بچے کو جنم دے سکیں ‘ہر آئے گئے کے سامنے تماشا بنیں نہ زندگی بھر اس احساس جرم کا شکار رہیں کہ معلوم نہیں بیگانوں نے انہیں کس حال میں دیکھا اور کیا سوچا۔ مگر جہاں صوبائی دارالحکومت میں چھ ماہ کے دوران تین سو سے زائد بچوں کے اغواء پر پولیس اور انتظامیہ آئیں بائیں شائیں میں مشغول ہو‘ وہاں کوئی خاتون کسی وی وی آئی پی کی آمد پر ٹریفک جام کے دوران زندگی کے اس خوبصورت تجربے سے رکشے میں بیٹھے بیٹھے مکروہ انداز میں گزرے یا فٹ پاتھ‘ ہسپتال کی سیڑھیوں یا مرکزی دروازے کے قریب تڑپے‘ کس کو پروا ہے۔ 
سرکاری ہسپتال عرصہ دراز سے شفاخانے نہیں‘ عقوبت کدے بن چکے ہیں۔ عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں‘ ڈاکٹر ہے تو ڈیوٹی سے غیر حاضر اور نجی کلینک میں سرگرم عمل‘ دوائی کسی کو ملتی نہیں‘ لیبارٹری ہے تو مشینیں خراب ہیں اور ایک ایک بیڈ پر چار چار مریض لٹا کر کام چلایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادویات‘ سرنجیں اور دیگر چیزیں بازار میں بکتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت زار اس بنا پر ہے کہ ہماری بیورو کریسی اور حکمران اشرافیہ کا کوئی مفاد ان اداروں سے وابستہ نہیں۔ اگر حکمران طبقے کو ان اداروں کے لیے مختص فنڈز سے زیادہ کارگزاری سے دلچسپی ہو تو انہیں بحال کرنا مشکل ہے نہ ان کی کارگزاری کو معیاری بنانا ناممکن۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کا رُخ صرف غریب‘ بے آسرا اور معاشرے کے کمزور لوگ کرتے ہیں جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حکمران اشرافیہ انہیں زمین کا بوجھ سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ الیکشن کے دنوں میں اے ٹی ایم 
مشین جس سے ووٹ نکلوانا مجبوری ہے۔ سرکاری افسر‘ منتخب عوامی نمائندے‘ وزیر‘ مشیر‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کو اندرون و بیرون ملک علاج معالجے کی معیاری سہولتیں حاصل ہیں‘ وہ ان ہسپتالوں میں چھاپہ مارنے تو جاتے ہیں علاج کرانے نہیں‘ انہیں چھینک بھی آئے تو بیرون ملک دوڑتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف ساڑھے آٹھ سال تک ملک پر بطور حکمران مسلط رہے‘ میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم ہیں اور زرداری صاحب پانچ سال تک منصب صدارت کے مزے لوٹتے رہے مگر علاج اور طبی معائنہ برطانیہ‘ امریکہ سے کراتے ہیں۔ آج بھی اگر سنگاپور کی طرح ہر سطح کے سرکاری ملازمین اور منتخب عوامی نمائندوں کو اس بات کا پابند کر دیا جائے کہ ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے اور ان کا خاندان صرف سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرائے گا تو صرف ایک سال میں تعلیم اور صحت کے شعبے کی حالت سدھر سکتی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور سعودی عرب کے معیار کے ہسپتال بن سکتے ہیں۔ فلائی اوورز‘ میٹرو بس‘ سندھ فیسٹیول اور دوسرے نمائشی منصوبے پیش کرنے والے بیورو کریٹس خود ہی تعلیمی اور طبی اداروں میں معیاری سہولیات کا اہتمام کریں گے اور وسائل کا رُخ خودبخود سوشل سیکٹر کی طرف ہو گا کیونکہ سنگدل اشرافیہ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے علاوہ بچوں کی معیاری اعلی تعلیم کے بارے میں خاصی حساس ہے۔ جن لوگوں کو چھینک بھی آ جائے تو بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری وسائل دستیاب ہوں‘ جن کے نالائق بچوں کو اندرون و بیرون ملک بین الاقوامی معیار کے تعلیمی اداروں تک محض دولت کے بل بوتے پر رسائی حاصل ہو‘ وہ سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار پر کیوں توجہ دیں؟ 
انہیں کیا علم کہ کسی شریف اور عزت دار آدمی کی بیوی‘ بیٹی یا بہو جب رکشے میں کسی ہسپتال کی سیڑھیوں پر اور درخت کی اوٹ میں بچہ جنم دیتی ہے تو پورے خاندان کو کس ذہنی کرب‘ شرمندگی‘ اذیت اور اندیشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عزت دار‘ شریف اور غیرت مند آدمی کا تو یہ سوچ کر خون کھول اُٹھتا ہے کہ اس کی بیوی‘ بہو‘ بیٹی دردزہ میں مبتلا کسی راہ گزر پر پڑی بچے کی پیدائش کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مگر انہیں کیا؟ یہ کون سی ان کی بہو بیٹیاں ہیں‘ وہ تو پاکستان کے اندر اور باہر بہترین طبی سہولتوں سے مستفید ہوتیں اور قومی وسائل سے بنائی ہوئی اپنی جنت میں اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ غریب کی اپنی کون سی عزت ہے کہ کوئی ان کی بہو بیٹیوں کی لاج شرم اور دکھ تکلیف کا احساس کرے۔ 
میں نے چند ماہ قبل اپنے کالم میں ناروے کے شہر بڈو کے ایک ہسپتال کا ذکر کیا تھا جہاں داخل ہونے والے مریض کی جان بچانے کی خاطر ای سی ایم او مشین دور دراز شہر سے منگوانے کے لیے ائرفورس کی خدمات حاصل کی گئیں اور دو ایف سولہ طیارے یہ مشین ہسپتال تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوئے ۔ ایف سولہ کے پائلٹوں کو یہ خصوصی اجازت دی گئی کہ وہ پینتیس منٹ کی اُڑان پچیس منٹ میں مکمل کریں تاکہ مریض کی جان کو تاخیر کی وجہ سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ پاکستان میں بھی طیارے اور ہیلی کاپٹر حکمرانوں کا گھریلو سازوسامان‘ اشیائے خورونوش اور کُتوں‘ بلیوں کو لانے لے جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں مگر کسی ایسے مریض کو جو حکمران یا ان کا قریبی رشتہ دار‘ حاشیہ بردار اور تابعدار نہ ہو‘ یہ سہولت تو درکنار اپنی بیوی‘ بہو‘ بیٹی کو ہسپتال لے جا کر گائنی وارڈ میں داخل کرانے اور عزت و احترام‘ سہولت اور آسانی کے ساتھ پیدائش کے مراحل سے گزارنے کا حق بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کسی لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ دریشک‘ قیصرانی ‘ چوہدری‘ مخدوم اور ملک کی اہلیہ اور بہو‘ بیٹی کو اس اذیت اور رسوائی سے گزرنا نہ پڑتا۔ ایم ایس ہاتھ باندھ کر لیبر روم کے باہر کھڑا زچہ بچہ کی صحت و سلامتی کی دعائیں مانگ رہا ہوتا۔
اوّل تو اس واقعہ کا کوئی نوٹس ہی نہیں لے گا‘ لیا بھی گیا تو لیڈی ولنگڈن کے واقعہ کی طرح تحقیقی رپورٹ مکمل ہو گی نہ اس کی روشنی میں کسی سے بازپرس۔ محکمہ صحت کے لیے تو یہ معمول کی بات ہے ‘ ہر ہسپتال میں روزانہ اس سے ملتے جلتے واقعات ہوتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے والے غریب‘ مفلس‘ بے آسرا اور خاک نشین خود بھی قصور وار تو ہیں‘ اذیت رساں اور عوام دشمن اشرافیہ کو انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے کسی کو دوش کیا دیں ؎
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں