تبدیلی

پاکستان جیسے زود فراموش اور بے حس معاشرے میں کسی مالیاتی سکینڈل کا ساڑھے چار ماہ تک بحثا و تکرار کا موضوع بنا رہنا معمولی بات نہیں۔ آرمی پبلک سکول کے اندوہناک سانحے پر پوری قوم تڑپ اٹھی ‘یہ پاکستان کا 9/11تھا۔ آپریشن ضرب عضب میں شدت آئی اور نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا مگر چار ماہ بعد معمولات لوٹ آئے اور ہم اگلے حادثے کا انتظار کرنے لگے۔ پاناما سکینڈل ساڑھے چار ماہ بعد بھی حکمرانوں کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ وزیر اعظم کی طویل علالت‘ آزاد کشمیر کے انتخابات‘ سانحہ کوئٹہ اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ناروا بحث۔ اس عرصے میں کیا کچھ نہ ہوا مگر پاناما سکینڈل کا پرنالہ اسی جگہ پر ہے جہاں اپریل میں تھا۔ کریڈٹ قومی ذرائع ابلاغ اور تحریک انصاف کو جاتا ہے‘ورنہ اسحق ڈار اور سید خورشید شاہ نے اسے ٹی او آر مذاکرات کے گہرے گڑھے میں دفن کر دیا تھا۔
بجا کہ پاکستان میں مالیاتی کرپشن قابل قبول صنف ہے۔ پٹواری اور پولیس اہلکار کی طرح ہمارے سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس‘ جرنیلوں ‘ تاجروں ‘ صنعت کاروں اور اصحاب جبّہ و دستار کی اکثریت اسے معیوب سمجھتی ہے نہ قابل دست اندازی قانون۔ آوے کا آوا بگڑ چکا اور لیڈراپنی پاک دامنی پر اصرار کرنے کے بجائے بالعموم دوسرے کو کرپٹ قرار دے کر پیرو کاروں اور وظیفہ خواروں سے داد چاہتا ہے۔ استدلال دلچسپ ہے ''سب کرپٹ ہیں لہٰذا قابل معافی‘ احتساب سے مستثنیٰ‘‘۔ حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کرپشن کے حمام میں ننگی ہو تو بے لاگ احتساب کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ ملک مزید لوٹ کھسوٹ‘ اقربا پروری‘ مالیاتی خیانت اور ناانصافی کا متحمل ہے نہ قومی سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں سے چشم پوشی نوجوان نسل کو قبول۔ پاناما سکینڈل اسی بنا پر زندہ ہے ‘یہ اس دعوے بلکہ بیانیے کی تردید ہے کہ کرپشن ہماری سیاست اور قومی زندگی میں سنگین مسئلہ نہیں اور ہر جمہوری معاشرے میں اسے کھلے دل سے برداشت کیا جاتا ہے ۔
حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ اس نے ایم کیو ایم‘ اے این پی اور پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت بالخصوص آصف علی زرداری اور سید خورشید شاہ کے تعاون سے معاملے کو خوب لٹکایا اورپرجوش عوامی ردعمل میں ممکنہ حد تک نرمی پیدا کی‘ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ٹی او آرز نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اچھی خاصی مہلت حاصل کی مگر اپنی جان چھڑا نہیں سکی۔ریفرنس پر ریفرنس آ رہے ہیں اور لوگ ہر موضوع پر بحث کی تان پاناما لیکس پر توڑتے ہیں ؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا 
بات پہنچی تری جوانی تک
الیکشن کمشن ‘ سپریم کورٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے علاوہ تحریک انصاف نے عوام سے بھی رجوع کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے الگ سے تحریک قصاص چلا رکھی ہے۔ 2014ء کی طرح کا جوش و جذبہ اگرچہ مفقود ہے اور حکومت سے درپردہ تعاون کرنے والی جماعتوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک میں وقت ضائع کرنے پر عمران خان کے اپنے حامی قدرے دل برداشتہ ہیں مگر احتجاجی تحریک سلیقے سے منظم کی گئی‘ حکمران خاندان کی مالیاتی کرپشن اور پاناما سکینڈل کے علاوہ اس کی بنیاد ملک میں بدامنی‘ مہنگائی ‘بے روزگاری‘ کسانوں کی بدحالی اور بچوں کے اغوا پر رکھی گئی اور مودی کی پاکستان و کشمیر دشمن بیان بازی کے مضمرات کو احتجاجی مہم کا موضوع بنایا گیا تو شاہانہ انداز حکمرانی سے تنگ عوام کو سڑکوں پرنکالنا مشکل نہیں؛ البتہ اب کی بار اپنے پرجوش کارکنوں اور عوام کو یہ یقین دہانی کرانی پڑے گی کہ احتجاج2014ء طرز کا نہیں ہو گا جو دھرنے سے زیادہ ہلہ گلہ تھا۔
میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی کمزوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے اور جوابی منصوبہ بندی خوب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔اب بھی حکومت کی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی خامیوں‘ کمزوریوں اور حکمت عملی کے نقائص پر گہری نظر ہے ‘ان کے بعض ساتھیوں سے درپردہ رابطے ہیں اور انہیں تن تنہا کرنے کی حکمت عملی تیار مگر تحریک انصاف کی قیادت کو مخالفین تو درکنار اپنی داخلی خامیوں اور کمزوریوں تک کا ادراک نہیں۔ تحریک انصاف میں دھڑے بندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے نہ اپنے مضبوط موقف کو عوام کے علاوہ وکلاء ‘ کسانوں‘ مزدوروں ‘ دانشوروں‘ تاجرتنظیموں اور دیگر طبقات تک براہ راست رابطوں کے ذریعے پہچانے کی موثر تدبیر۔میڈیا‘ جلسوں اور ریلیوں پر انحصار ہے۔ جلسے جلوس کارکنوں اور لیڈروں کو تھکانے اور مالی وسائل کو ضائع کرنے کی مشق کے سوا کچھ نہیں۔
عوام مشکلات کا شکار ہیں اور وہ حکومت سے خوش نہیں‘جان و مال محفوظ نہیں‘بچے دھڑا دھڑ اغوا ہو رہے ہیں ۔راولپنڈی میں حنیف عباسی نے ایس ایچ او کو بے عزت کر کے گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کا پردہ چاک کیا۔ اصغر چانڈیو کی بے عزتی ریاست کی بے عزتی ہے۔ مگر عوام سڑکوں پر لانے کے لیے جو غیر معمولی مہارت اور یکسوئی درکار ہے اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود احتجاجی تحریک سے حکومت خوفزدہ ہے۔ 2014ء کا دھرنا اس کے لیے ڈرائونا خواب ہے‘ جب اسلام آباد عملاً عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قبضے میں تھا اور کاروبار ریاست معطل۔ میاں صاحب مایوس ہو کر جاتی اُمرا سدھارے اور امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنے لگے۔ اگر پیپلز پارٹی‘ جمعیت علماء اسلام ‘ جماعت اسلامی ‘ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنا کندھا پیش نہ کرتیں تو 30اور 31اگست کی درمیانی شب حکومت کا دھڑن تختہ ہو چکا تھا۔ اب صورتحال حکومت کے لیے مزید یوں خراب ہے کہ عمران خان کی طرح میاں نواز شریف بھی اپوزیشن جماعتوں کی خوشدلانہ تائید و حمایت سے محروم ہیں۔ چودھری نثار علی خان کو اگر میاں صاحب کی خوشنودی مطلوب نہ ہو تو وہ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ذریعے پیپلز پارٹی کے کرپٹ لیڈروں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں۔ فائلوں کا انبار اور قانونی اختیار اُن کے پاس ہے۔ پارلیمنٹ میں اچکزئی‘ فضل الرحمن اور مولانا شیرانی کے بیانات نے خاکی اسٹیبلشمنٹ کو بدمزہ کیا ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سست روی کو وہ آپریشن ضرب عضب میں رکاوٹ ڈالنے پر محمول کرتی ہے ۔توسیع اور فیلڈ مارشل کا شوشہ چھوڑ کر حکومت نے جنرل راحیل شریف کی ساری تگ و دو اور فعالیت پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ۔ٹاسک فورس کا قیام اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو سربراہی سونپنے کے فیصلے پر راولپنڈی اور چکری والوں میں سے کوئی خورسند نہیں کہ یہ ذمہ داری اور اختیار کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کی سعی لاحاصل ہے اور اگلے دو چار ہفتے مزید خواب خرگوش کے مزے لینے کی ماہرانہ ترکیب۔ نیشنل ایکشن پلان اور ٹاسک فورس سے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو مکھن سے بال کی طرح نکالنے کا کارنامہ جس کسی نے بھی انجام دیا وہ داد کا مستحق ہے۔
اس قدر تضادات کے باوجود عمران خان کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس بار وہ اپنے تمام ساتھیوں کی خوشدلانہ رضا مندی سے سڑکوں پر نکلیں‘ پرویز خٹک اور ان کے ساتھی بھی حکومت کی قربانی دینے پر تیار ہوں اور پنجاب میں بھی کوئی آزمائش کے وقت''جمہوریت‘‘ بچانے کا کھڑاک رچا کر تحریک کو سبو تاژ نہ کرے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ خیبر پختونخوا حکومت سے استعفیٰ دے کر ہی عمران خان اور ان کے ساتھی اپنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں اور پاناما سکینڈل کی تفتیش کا آغاز ہو سکتا ہے‘ محض ریلیوں‘ جلسوں اور تقریروں سے نہیں۔ استعفوں سے تحریک انصاف کی سنجیدگی ظاہر ہو گی اور موجودہ کرپٹ‘ بددیانت اور عوام دشمن سیاسی‘ معاشی اور انتخابی گورکھ دھندے سے باہر نکل کر جدوجہد کا اعلان ہو گا۔2010ء میں اگر آصف علی زرداری پنجاب حکومت برخاست نہ کرتے تو میاں نواز شریف کے لانگ مارچ کا وہی حشر ہوتا جو 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کا ہوا۔ دو عملی کو عوام پسند کرتے ہیں نہ تبدیلی کے خواہش مند سیاسی کارکن۔ دو کشتیوں کے سواروں سے کسی فیصلہ کن اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پاناما سکینڈل اگر تبدیلی کا استعارہ بنا تو یہ ملک سے کرپشن‘ اقربا پروری‘ ناانصافی‘ دھونس دھاندلی‘ بددیانتی اور مافیا کلچر کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہو گا ورنہ پوری قوم اور سیاسی قیادت کو اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑیگا ؎
ناکامیٔ عشق یا کامیابی
دونوں کا حاصل خانہ خرابی 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں