فرض کریں آج یا کل امریکہ‘ برطانیہ اور روس یہ ایڈوائزری جاری کریں کہ ان ممالک کے باشندے جنگ کے خطرات کے پیش نظر بھارت جانے سے گریز کریں تو کیا ہو گا؟ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ امریکی اور یورپی حکومتیں اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے زود حس واقع ہوئی ہیں اور ان کے باشندے ضرورت سے زیادہ احتیاط پسند۔ سفر کے خواہشمند شہری اپنے ٹکٹ منسوخ کرائیں گے اور اس وقت تک دہلی‘ ممبئی‘ چنائی یا گوا کا رُخ نہیں کریں گے جب تک دوسری ایڈوائزری جاری نہ ہو۔ بعض سرپھرے شاید پروا کئے بغیر چل پڑیں۔ اس کے سوا کیا ہو گا؟
ماضی میں دو مواقع پر جب بھارت نے جنگی جنون پیدا کیا‘ بھارتی فوجیں گولہ بارود لے کر بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن پر الرٹ نظر آئی تھیں اور پوری دنیا کا میڈیا بزن کے انتظار میں تھا‘ جنگ رکوانے کی پس پردہ کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی تھیں تو امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ وائٹ ہائوس یا پینٹاگان نے کوئی بیان جاری کئے بغیر اپنے باشندوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی‘ برطانیہ نے اس کا اتباع کیا اور دوسرے دن بھارتی فوجیں بوریا بستر سمیٹ کر واپس چلی گئیں۔ ہوا یوں کہ ایڈوائزری جاری ہوتے ہی بھارتی سٹاک ایکس چینج کا بھٹہ بیٹھ گیا‘ ایک دن میں آٹھ ارب ڈالر مالیت کا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا‘ بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداروں نے ہنگامی بنیادوں پر دبئی‘ لندن‘ نیویارک اور پیرس کی ٹکٹیں کٹوائیں اور مقامی سرمایہ کاروں نے حکومت کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے‘ مہاراج یہ ناٹک بند کیجئے‘ ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔ پاکستانی حکومت کی منت سماجت‘ امریکی صدر کے دبائو اور برطانوی وزیراعظم کے مصالحتی مشوروں پر کان نہ دھرنے والی بھارتی حکومت کے چوبیس گھنٹے کے اندر ہوش ٹھکانے آ گئے اور جنگ کی باتیں قصہ ماضی بن گئیں۔ اگلے کئی سال تک بھارتی حکمرانوں کی زبان پر جنگ کا لفظ نہ آیا۔
جب لوگ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کے امکانات کے حوالے سے سوال کرتے ہیں تو میں دوسرے تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین کے دلائل کی روشنی میں یہی عرض کرتا ہوں کہ فی الحال کوئی خطرہ نہیں‘ مگر میرے اطمینان کی وجہ ان ماہرین کے دلائل نہیں ‘اب تک دو تین بڑے ممالک کا ٹھنڈا ٹھار ردعمل ہے۔ امریکہ بار بار پاکستان اور بھارت کو تحمل و برداشت کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دے رہا ہے۔ چین بھارت کو حیلوں بہانوں سے جنگ سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے اور روس کا طرزعمل بھی مصالحانہ ہے مگر جن ممالک کو اپنے باشندوں کی زندگی عزیز ہے اور جن کے ذرائع معلومات دیگر ممالک سے زیادہ بہتر اور قابل اعتماد ہیں‘ انہوں نے تاحال ایسی ایڈوائزری جاری نہیں کی۔ کسی ملک کے سفارتی عملے نے رخت سفر نہیں باندھا اور اُن کے اہلخانہ بھی بدستور دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں مقیم اطمینان سے گھوم پھر رہے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر طاقتور ممالک کو جنگ کا خطرہ محسوس نہیں ہو رہا اور وہ بھارت کے دعوئوں اور ارادوں کو محض گیدڑ بھبھکی سمجھ رہے ہیں۔ کسی کو ذرا بھی احساس ہوتا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے تو وہ پاکستان یا خطے کے مفاد میں نہیں‘ یہاں کے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر نہ سہی اپنے باشندوں کی جان بچانے کے لیے انہیں برصغیر چھوڑنے کا مشورہ ضرور دیتا کیونکہ گوری چمڑی والوں کا خون سُرخ ہوتا ہے اور اس کی قدروقیمت کا اندازہ کسی اور کو ہو نہ ہو ان ممالک اور حکومتوں کو ہے اور ہر مہذب ریاست‘ معاشرے اور حکومت کو ہونا چاہیے۔
نریندر مودی کو شاید اس کے کسی مشیر نے بتایا نہیں یا وہ اپنے انتخابی نعروں کا اسیر ہے ورنہ وہ بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ دو نیوکلیئر ریاستوں میں تصادم علاقائی معاملہ نہیں‘ عالمی اور بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں جب کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کو آزمانے کے لیے بھارتی فوج نے لشکر طیبہ کی آڑ میں پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے مریدکے پر محدود حملے کا منصوبہ بنایا تو امریکی سیاستدان جان مکین پاکستان آئے اور انہوں نے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے کا محدود حملہ کسی بڑے نقصان کے بغیر دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر جنگ کو ٹال سکتا ہے۔ خورشید محمود قصوری بتاتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا ''پاک فوج کبھی بھی اس حملے کو برداشت نہیں کرے گی اور نپا تلُا منہ توڑ جواب بھارت کو دن میں تارے دکھا دے گا‘‘۔ بعدازاں ایک فوجی جرنیل نے خورشید قصوری کو بتایا کہ یہ نپا تلُا جواب صرف نپا تلُا نہ ہوتا کافی حد تک ایسا وسیع البنیاد ہوتا کہ بھارت آئندہ اس بارے میں سوچنے کی جرأت نہ کرے۔ صورتحال اب بھی مختلف نہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا۔ بھارتی فوج اور عوام کو بے وقوف بنانے اور اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی یہ تدبیر کارگر نہیں ہوئی اور کانگریس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے اس جھوٹ کا پول کھول دیا۔ بھارتی جھوٹ پر خوشی سے بغلیں بجانے والا بھارتی میڈیا بھی اب شرمندہ نظر آتا ہے اور سنجے انوپم‘ اروند کیجری وال‘ سلمان خان‘ اوم پوری کے خلاف پروپیگنڈہ مہم دم توڑ رہی ہے مگر پاکستانیوں کو اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔
سارک کے پلیٹ فارم پر بھارت نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے حالانکہ اندرا گاندھی‘ راجیو گاندھی اور دیگر بھارتی لیڈر اس تنظیم کے قیام میں اس لیے روڑے اٹکاتے رہے کہ پاکستان بھارت کو گھیرنا چاہتا ہے۔ طویل عرصہ تک پاکستان اس پلیٹ فارم سے بھارتی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرتا رہا مگر اب بھارت نے بنگلہ دیش اور افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے جو ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ پاکستان سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوے کو اعتراف جرم کے طور پر پوری دنیا میں کیش کراسکتا تھا مگر شومئی قسمت کہ پاکستان سفارتی محاذ پر جارحانہ پیش قدمی سے عاری ہے۔ وزارت خارجہ دو ملائوں میں مرغی حرام کا منظر پیش کر رہی ہے اور سیاسی محاذ پر حکومت مودی سے زیادہ عمران خان کو خطرہ سمجھتی ہے۔پاناما سکینڈل، سی پیک اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین اتفاق رائے مفقود ہے اور کشمکش موجود جو‘ نیک فال نہیں۔
ثقافتی محاذ پر بھی بھارتی پیشقدمی جاری ہے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں اور ٹی وی پروگراموں سے نئی نسل متاثر ہو رہی ہے اور بھارت نے عملاً ہمارے گھروں میں نقب زنی کی ہے۔ پیمرا نے اس محاذ پر توجہ دی ہے مگر زیادہ زور ٹی وی چینلز پر ہے جبکہ قیامت کیبل آپریٹرز ڈھا رہے ہیں یا بازاروں میں بکنے والی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز۔ قومی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ پاکستانی عوام خود موجود بھارتی فلموں‘ ڈراموں اور پروگراموں کا بائیکاٹ کرتے اور بھارتی ثقافتی یلغار کو روکتے‘ مگر شاید ہم اس معاملے میں زودحس نہیں رہے اور سونیا گاندھی کے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے پر تُل گئے ہیں کہ '' ہم ثقافتی یلغار سے پاکستان پر بھارت کے ثقافتی اور تہذیبی غلبے کی راہ ہموار کریں گے‘‘۔ لیکن حالات نے ہمیں دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے‘ جنگ کا امکان تو نہیں مگر تیاری ضروری ہے۔ اگر اس بھارتی جنگی جنون کے طفیل ہماری نوجوان نسل برہمن کی تنگ نظری‘ تعصب اور نظریہ پاکستان کی اصابت و افادیت سے آگاہ ہوتی اور سنبھل جاتی ہے تو غنیمت ہے مگر یہ کام محض باتوں سے نہیں ہو گا‘ ہر سطح پر ٹھوس‘ سنجیدہ اور سوچے سمجھے اقدامات کرنے ہوں گے۔ کاش ہم موجودہ مشکل صورتحال کو اُمید اور امکان میں بدل سکیں۔بھارت کے جنگی جنون کو عالمی برادری میں نمایاں کرنا اور فائدہ اٹھانا مشکل نہیں مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔