پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

امریکی عوام نے بالآخر اپنی قیادت کے لیے اس شخص کو چن لیا جسے دنیا بھرکے باخبر‘ روشن خیال‘ میڈیا اور سیاسی اشرافیہ نے پاگل‘ تنگ نظر‘ نسل پرست‘ تکثیریت کے دشمن‘ بدکردار شخص کے طور پر متعارف کروایا ۔ اسے ہٹلر اور مسولینی کہا گیا اور نووارد امریکیوں بالخصوص مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ برسراقتدار آ کر یہ شخص نہ صرف تارکین وطن کو ملک سے نکال دے گا‘ بلکہ دوسرے ممالک سے تعلیم‘ روزگار اور قیام کے لیے آنے والوں کا داخلہ بند کر کے امریکہ کو نئے خون کے ثمرات سے بھی محروم کر دے گا۔ امریکیوں کی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس کے قابل سمجھا۔ غیر متوازن ‘ جنونی‘ ناتجربہ کار مرد کوتجربہ کار اور باصلاحیت خاتون پر ترجیح دی ۔ تاہم میرے لیے یہ نتیجہ ہرگز غیر متوقع نہیں۔ رواں سال 29 جولائی کو میں نے ''جمہوریت کا عکس‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جو قند مکرر کے طور پر پیش خدمت ہے۔ 
''ہلیری کلنٹن کو ڈیموکریٹس اور ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلکنز نے صدارتی امیدوار نامزد کرکے مجھے شاہد خان اور وکی کے سامنے سرخرو کر دیا‘ شاہد خان پاکستانی بلکہ لاہوری نژاد امریکی ہیں جان کیری کے قریبی ساتھی اور ہلیری کلنٹن کے پُرجوش حامی۔ چند ماہ قبل لاہور آئے تو ملاقات رہی۔ تنگ نظری اور نسلی‘ لسانی‘ مذہبی تعصب سے پاک امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریروں کو انہوں نے دیوانے کی بڑ قرار دیا اور وثوق سے کہا کہ گرینڈ اولڈ پارٹی یعنی ریپبلکن پارٹی میں اسے ہرگز پذیرائی نہیں ملے گی۔ مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن کے خلاف بچگانہ نعرے بازی اسے جلد ہی امیدواروں کی دوڑ سے نکال باہر کرے گی۔ میں نے پوچھا ''بالفرض وہ ری پبلکنز سے نامزدگی اور امریکی عوام سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تو؟‘‘ ''یہ ناممکنات میں سے ہے لیکن اگر ناممکن‘ ممکن ہوا تو پھر امریکہ کا اللہ حافظ ہے‘‘ شاہد خان نے کہا۔
وکی سے میں چند برس قبل شکاگو کے نواحی قصبہ لینا میں ملا۔ میں‘ مارک اور وکیّ کا مہمان تھا۔ اس مہربان جوڑے نے اپنے دو خوبصورت اور شرارتی بچوں کے ساتھ میری بھرپور میزبانی کی اور امریکی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے مفید معلومات فراہم کیں۔ لینا کا پُرسکون قصبہ اپنی قانون پسندی اور مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور ہے‘ جہاں تیس سال کے دوران سائیکل چوری کا صرف ایک واقعہ رونما ہوا‘ لوگ گھروں اور گاڑیوں کو تالے لگاتے‘ نہ دوسرے شہروں اور ممالک سے آنے والوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مارک اور وکی کے بہت سے ملنے والوں نے مجھے لنچ اور ڈنر کی دعوت دی جو پاکستان کے دیہی علاقوں کی روایت ہے۔ مارک تو دو دن تک معمول کی گپ شپ کرتا رہا مگر وکی سیاست کی شوقین اور ہلیری کلنٹن کی مخالف تھی۔ بل کلنٹن نے چند ہفتے قبل صدارتی منصب سنبھالا اور میڈیا پر چھایا ہوا تھا جس کے ساتھ تیز طرار‘ خوش لباس اور خوش گفتار ہلیری ہر جگہ نظر آتی۔ ہلیری جونہی ٹی وی سکرین پر نمودار ہوتی وکی دانت پیسنے لگتی۔ میں نے سبب پوچھا تو بولی ''اس چھچھوری کو احساس ہی نہیں کہ وہ عظیم امریکہ کے صدر کی اہلیہ اور خاتون اوّل ہے اسے اپنا وقار عزیز ہے نہ امریکی قوم کے احساسات کی پروا‘‘ وہ نینسی ریگن کو یاد کرتی جس نے کبھی چھچھورا پن نہیں دکھایا۔میں نے پوچھا وکی! ہلیری کی وجہ سے کلنٹن کو خواتین کے ووٹ نہیں ملے؟ میں نے تو سنا ہے کہ وہ نوجوان نسل بالخصوص خواتین میں مقبول ہے اور صدارتی امیدوار ہوتی تو مدمقابل کی ضمانت ضبط کرا دیتی؟‘‘ ''توبہ کریں۔ اگر یہ انتخابی مہم میں حصہ نہ لیتی تو کلنٹن کے ووٹوں کی تعداد مزید بڑھ جاتی‘‘ وکی بولی ''اگر کبھی امریکہ سوویت یونین کے حشر سے دوچار ہوا تو اس کی ذمہ دار ہلیری ہو گی‘‘ وکی نے بات ہی ختم کر دی۔
وکی نے برسوں قبل ہلیری کلنٹن کے بارے میں جو رائے دی اس سال کے اوائل میں اس سے ملتی جلتی رائے شاہد خان نے ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں ظاہر کی۔ حیرت انگیز بات مگر یہ ہے کہ امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیوں نے انہی دو کو نامزدگی کے قابل سمجھا۔ اب ہلیری کلنٹن کامیاب ہو یا ڈونالڈ ٹرمپ مجھے تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ وکی اور شاہد خان نے ان دونوں کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کئے وہ کتنے درست تھے اور میں نے امریکی عوام کے انداز فکر کی جو تصویر کشی ان دونوں کے سامنے کی کتنی حقیقت پسندانہ تھی؟ امریکہ میں خواتین کو ووٹ کا حق سو سالہ جدوجہد کے بعد 1920ء میں ملا جبکہ ایک خاتون کو صدارتی انتخاب میں نامزدگی پہلی بار 2008ء میں ملی۔ 1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر پاکستان اور پاکستانی عوام کو امریکہ و یورپ کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال‘ مرد و عورت کی تفریق سے بالاتر اور حقوق نسواں کا علمبردار ثابت کیا۔ فیلڈ مارشل اپنے فریب کار سیاسی حامیوں‘ اور ریاستی مشینری کے ذریعے دھاندلی نہ کرتے تو 1965ء میں پاکستان میں عورت کی حکمرانی ہوتی۔ پھر بھی 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال کر امریکہ و یورپ میں حقوق نسواں کے حامیوں کو حیران کر دیا۔ 
2008ء میں ہلیری کلنٹن‘ بارک اوباما کے مدمقابل تھیں ایک گوری خاتون اور کالے مرد کے مابین مقابلے میں امریکیوں نے کالے مرد کو ترجیح دی۔ اب ایک متعصب‘ تنگ نظر اور نسلی و مذہبی امتیاز کے علمبردار گورے امریکی کا مقابلہ ایک نسبتاً روشن خیال اور ترقی پسند خاتون سے ہے۔ ماضی میں ڈیموکریٹ امیدوار داخلی پالیسیوں بالخصوص معیشت پر فوکس کرتے تھے جبکہ ری پبلکنز عالمی ایجنڈے پر ووٹ مانگتے۔ اس بار معاملہ بالکل برعکس ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکیوں کو گورے اور کالے‘ پیدائشی امریکی اور نووارد امریکی کی بحث میں الجھا دیا وہ نریندر مودی کی طرح صرف اور صرف گورے امریکیوں سے مخاطب ہے۔ برطانیہ کے ریفرنڈم میں یو کے پارٹی نے ڈونالڈ ٹرمپ انداز کی مہم چلا کر یورپی یونین سے علیحدگی کا راستہ ہموار کیا۔ اب امریکیوں کی باری ہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے پوری دنیا میں دہشت گردی‘ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کا نعرہ بلند کرکے نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنا چاہا۔ یہ نعرہ بش سینئر اور بل کلنٹن نے بلند کیا تھا۔ عملدرآمد کا آغاز بش جونیئر نے کیا جبکہ بارک اوباما نے پیروی کی مگر اب حالت یہ ہے کہ جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن کے دیس میں ڈونالڈ ٹرمپ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی پر مبنی ایجنڈے کی وجہ سے ہلیری کلنٹن کو شکست دے کر وائٹ ہائوس میں بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہے‘ مقبولیت میں وہ ہلیری سے آگے ہے۔ تنگ نظر ٹرمپ کے سامنے ہلیری کلنٹن کی نسوانیت کا چراغ جل رہا ہے‘ نہ اس کی برجستہ گوئی اور عالمی شہرت کا اور نہ اُسامہ بن لادن سے نمٹنے کی پالیسی کا‘ جسے بارک اوباما نے اپنی تقریر میں فخریہ بیان کیا۔ آج سے چھ ماہ بعد ہلیری اور ٹرمپ میں سے کوئی ایک وائٹ ہائوس میں بیٹھا اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں کا نفاذ کر رہا ہو گا امریکہ کے علاوہ اس کے باجگزار علاقوں کی قسمت کا فیصلہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے کرنا ہے۔ عالم اسلام کے لیے ہر دو لعنت ہیں نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی‘ مجھے مگر وکی اور شاہد خان کے تجزیے کی روشنی میں نتائج کا انتظار ہے۔ وکیّ نے کہا تھا کہ امریکہ کبھی سوویت یونین کے انجام سے دوچار ہوا تو ذمہ دار یہ خاتون ہو گی اور شاہد خان کے خیال میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں امریکہ کا اللہ ہی حافظ ہے ۔امریکی مگر ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر تُلے ہیں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ بالخصوص ڈونالڈ ٹرمپ کی نامزدگی اور امکان یہ ہے کہ بطور صدر انتخاب‘ ایسا شخص پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایک نفرت انگیز تقریر کے بعد کسی جیل یا پاگل خانے میں بیٹھا اپنی قسمت کو کوس رہا ہوتا مگر مہینوں زہریلی تقریریں سن کر امریکی اسے وائٹ ہائوس میں بٹھانے پر مُصر ہیں۔ بے شک نریندر مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ جمہوریت کا مستقبل ہیں اور صحیح عکس‘‘۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ٹاٹ سکولوں کے پڑھے لکھے ہم جیسے قلمی مزدوروں کی یہ رائے درست ثابت ہوئی کہ جمہوریت کو اگر سرمایہ دارانہ بالادستی اور کارپوریٹ مفادات کے شکنجے سے نجات نہ ملی تو یہ عالم انسانیت کو زوال اور انحطاط کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دے گی اور بنیاد پرستی ایک ایسا فینا مینا ہے جس نے ہر معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم اسے سمجھنے کے بجائے ریاستی طاقت سے کچلنے پر تُلے ہیں جو بیانیئے کی شکست اور بندوق کی فرمانروائی ہے جبکہ امریکہ اور بھارت میں یہ انتخابی نتائج میں مُتشکل ہوتی۔ جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن کا جانشین ڈونالڈ ٹرمپ اور گاندھی و جواہر لال نہرو کی مسند کا حق دار نریندر مودی۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں