مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ

سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو پاکستانی وزارت خارجہ کے ہاتھ پائوں اسی طرح پھول گئے جس طرح امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی پرپھولے نظر آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے صاحبزادہ یعقوب علی خان نے لاہور کے سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں مدیران اخبارات کو بریفنگ دی تو سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ آخر حکومت پاکستان نے امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر متبادل حکمت عملی طے کیوں نہ کی؟۔صاف گو صاحبزادہ صاحب نے کہا ہمیں کیا امریکہ کو بھی یقین نہیں تھا کہ سوویت یونین کبھی افغانستان سے پسپائی اختیار کر سکتا ہے‘ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ریاستوںمیں مداخلت کے بعد سوویت یونین جم کربیٹھ گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے سوا پاکستان میں بھی کسی کو کمیونسٹ سپر پاور کی واپسی کی اُمید نہ تھی۔ ہم نے چار مطالبات تو پیش کئے مگر بعد از انخلا کی حکمت عملی تیار نہیں کی۔ جنیوا مذاکرات کے دوران بھی صرف ضیاء الحق افغان عوام کی نمائندہ وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل پر زور دیتے رہے کسی اور نے توجہ نہیں دی۔
جب 1980ء کے عشرے میں ہماری وزارت خارجہ کی حالت یہ تھی‘ صرف ہماری کیا امریکہ بہادر کی بھی تو آج یہ توقع کرنا کہ اپنے خاندانی اور مالیاتی معاملات میں الجھی حکومت اور دو عمر رسیدہ مشیروں میں بٹی وزارت خارجہ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کے بارے میں سوچنا گوارارکرتی‘ عبث ہے۔ جب ہماری حکمران اشرافیہ کا چلن یہ ٹھہرا کہ چلو تم اِدھر کو ‘ ہواہو جدھر ‘ کی تو وزارت خارجہ کے بابوئوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ مستقبل کے امکانات پر مغز ماری کریں اور دیوار کی دوسری طرف جھانکیں جب قومی پالیسیاں عوامی جذبات‘ ملکی مفادات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر نہیں طاقتوروں(خواہ وہ مقامی ہوں یا بیرونی) کی خوشنودی کی خاطر تشکیل پانے لگیں اور ''کلنٹن اپنا یار ہے‘ ہیلری قابل اعتبار ہے‘‘ کی سوچ حاوی ہو تو ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی اور پاکستان سے تعلقات کے بارے میں کون سوچتا ۔ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جب میاں نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی اور وزارت خارجہ کے مدارالمہام سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی پالیسی کیا ہو گی تو جواب ملا۔''یہی ہم سوچ رہے ہیں کیونکہ حکومت کے ایوانوں اور دفتر خارجہ کی راہداریوں میں تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ ٹرمپ الیکشن جیت سکتا ہے؟ ‘‘اس قدر محدود‘ غیر دانش مندانہ اور ناعاقبت اندیشانہ سوچ اور طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے سفارتی محاذ پر ہمارا ناطقہ بند کر رکھا ہے اس نے حالیہ امریکی انتخابات میں بھی دونوں امیدواروں پر سرمایہ کاری کی مگر ٹرمپ کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا۔ جبکہ ہمارے حکمران‘ دفتر خارجہ کے مہربان‘ امریکی میڈیا کے پروپیگنڈے اور روایتی نعرے بازی سے مسحور ہو کر ساری امیدیں ہیلری کلنٹن سے وابستہ کئے خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ٹرمپ کے مشیروں اور متوقع وزیروں کی تلاش جاری ہے تاکہ انہیں پاکستان کی اہمیت اور شریفانہ کردار کے بارے میں بریف کیا جا سکے۔ 
ایک ایٹمی طاقت جس کے عقب میں افغانستان واقع ہے اور جہاں پندرہ سال سے دنیا بھر کی فوجیں چاند ماری میں مشغول ہیں امریکی انتخابات سے اس قدر لاتعلق اور ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست کے بارے میں اس قدر پُر امید کہ کسی قسم کے رابطوں کی ضرورت بھی محسوس نہ کی ۔حیرت کی بات ہے مگر جہاں حکمرانی اپنی جائیدادوں اور سرکاری ملازمت اپنی مراعات میں اضافے کا نام ہو اور بحرانی کیفیت میں بھی سفارتی معاملات مستقل وزیر خارجہ کے بغیر چلائے جا رہے ہوں وہاں امریکی الیکشن کی بھلا کس کو فکر اور نتائج کی کس کو پروا۔ ہمارے حکمرانوں کو تو شاید یہ بھی کسی نے نہیںبتایا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کاروباری آدمی ہے اور اس کا کاروبار بھارت تک پھیلا ہوا ہے ورنہ وہ اپنے ''پیٹی بھائی‘‘ سے راہ و رسم ضرور بڑھاتے اور رئیل اسٹیٹ کے علاوہ دیگر شعبوں میں اپنی کاروباری مہارت سے اس اَن گھڑ اور اکھڑ مزاج شخص کو آگاہ کرتے جو اگلے چار سال تک وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ ہمارے ایک دوست کا مگرخیال ہے کہ ہیلری پر زیادہ توجہ اور ٹرمپ سے چشم پوشی کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کو یقین ہو گا کہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو اسے میاں صاحب کے امریکہ میں مقیم کاروباری دوستوں کے ذریعے کسی نہ کسی طور قابو کیا جا سکتا ہے مگر ہیلری کو نہیں۔
حکومت اور وزارت خارجہ کی لاعلمی اور سادہ لوحی اپنی جگہ لیکن ٹرمپ نے ساری دنیا کے تجزیہ کاروں‘ مبصرین اور سیاسی‘ صحافتی اور سفارتی پنڈتوں کو شہ مات دی۔ امریکہ میں عرصہ دراز سے مقیم پاکستانی بھی اس لہر کا اندازہ نہ لگا سکے جو ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریروں سے اٹھی اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے مضبوط قلعوں کو ڈھا گئی۔ واشنگٹن پوسٹ‘ نیو یارک ٹائمز‘ سی این این اور نیوز ویک کی سروے رپورٹوں کے ذریعے مستقبل بینی کی ساری مہارت دھری کی دھری رہ گئی اور ٹرمپ نے دنیا کو باور کرایا کہ ایک پرعزم شخص کے سامنے جو دولت مند بھی ہو ‘منفی پروپیگنڈا‘ سیاسی گٹھ جوڑ‘ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کا سازشی جال کوئی معنی نہیں رکھتا یہ بات مگروہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو غربت و افلاس‘ جہالت و پسماندگی‘ بے روزگاری‘ لوڈشیڈنگ‘ کے ستائے عوام کو بے لذت تقریروں اور سرکاری خزانے سے چلائی جانیوالی تشہیری مہم کے ذریعے ترقی و خوشحالی کا مژدہ سناتے اور ترقی کی بلندیوں کو چھوتے ملک کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ ترقی کی بلندیوں کو چھوتے ملک میں بسنے والے محروم‘مجبور‘ بے بس اور مظلوم عوام سکول نہ جا نے والے اڑھائی کروڑ بچوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ بھوکے سونے والے چار کروڑ خاک نشینوں کا علم رکھتے اور نہ سرکاری ہسپتالوں کے برآمدوں میں پڑے مریضوں کی انہیں خبرہے‘ جنہیں اسپرین کی گولی میسر ہے نہ ڈاکٹر درکنار ‘ اٹینڈنٹ کی توجہ۔ گڈ گورننس کا مذاق لاہور کی مال روڈ پر ہڑتالی ڈاکٹر اُڑا رہے ہیں یا سستی روٹی سکیم جو چند سال پیشتر خادم اعلیٰ پنجاب نے شروع کی تھی‘ سکیم فلاپ ہو گئی کیونکہ 24ارب روپے کی سب سڈی کے بعد اسے جاری رکھنا ممکن نہ تھا مگر بینکوں کو کروڑوں روپے کا سود اب بھی ادا کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے کل سانگلہ ہل موٹر وے انٹر چینج کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بار پھر قوم کو خوشخبری سنائی کہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا اور گھر گھر میں بجلی و گیس دستیاب ہو گی مگر نیپرا‘ رپورٹ کے مطابق ناقص ٹرانسمیشن کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں اور پنجاب کے بعض علاقوں کے علاوہ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اندھیروں کا راج ہو گا۔
وزیر اعظم نے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران سب سے زیادہ توجہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر دی اور کھربوں کے وسائل مختص کئے حتیٰ کہ تعلیم اور صحت کا شعبہ نظرانداز ہوا اور غربت ختم یا کم کرنے پر بھی دھیلہ خرچ نہ ہوپایا مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ موسم سرما میں جاری ہے اور ناقص ٹرانسمیشن کے باعث 2018ء میں بھی وزیر اعظم کے دعوئوں کا ایفا مشکل نظر آتا ہے ایسی صورت میں یہ توقع کرنا فضول ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ میں انتخابی نتائج اور ایوان اقتدار میں تبدیلی کا قبل از وقت ادراک کر سکیں اسی باعث گزشتہ روز وزیر اعظم نے اپنے مشیروں اور دفتر خارجہ کو ٹرمپ کے مشیروں سے رابطے بڑھانے کا ٹاسک دیا۔ دیر آید درست آید۔ مگر کسی نے وزیر اعظم کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیںکی کہ ٹرمپ امریکہ کا صدر منتخب ہوا ہے ایک ایجنڈا لے کر وہائٹ ہائوس جائیگا اور اپنے منشور کا پابند ہو گا۔ یہ پاکستانی حکمران نہیں کہ ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ اور پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے نجات دلانے کے دعوئوں اور وعدوں کے ساتھ انتخاب جیت کرآئے اور اچانک قوم کو بتائے کہ اُسے تو بھارت سے تجارت بڑھانے اور آئی ایم ایف سے خوب قرضے لے کر نمائشی منصوبوں پر قومی دولت ضائع کرنے کا مینڈیٹ ملا۔لگتا تو نہیں کہ ٹرمپ کے مشیر اتنی جلدی ہمارے ہاتھ لگیں مگر ایک کاروباری شخص کا کیا بھروسہ‘ مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ۔ لکشمی متل‘ ساجن جندال‘ خالد شاہین بٹ اور سعید شیخ میں سے کوئی شائدٹرمپ کو گھیر ہی لے۔ اور مودی کی طرح ٹرمپ میاں صاحب کے حلقہ احباب میں شامل ہو جائے۔ پگڑی بدل نہ سہی‘ ٹائی بدل بھائی بن جائے۔
دنیا بر اُمید قائم

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں