خواتین اور اسلام

دینِ اسلام نے خواتین کو بہت اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے اور انہیں وہ تمام حقوق دیے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہیں۔ قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو تمام چیزیں بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں‘ جن میں احکامات، فرائض اور حقوق سمیت زندگی سے وابستہ تمام سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورت کی کوئی توقیر نہیں تھی‘ اس کو غلام بنا کر رکھا جاتا اور صرف تسکین و عشرت کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ بیٹی پیدا ہونے پر اس کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا؛ تاہم دینِ اسلام میں خواتین کو خاندان کی بنیاد میں کلیدی کردار ملا۔
رسول کریمﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کرکے ایک مثال قائم کی کہ اپنی سے بڑی عمر کی خاتون کے ساتھ بھی رفاقت قائم کی جا سکتی ہے۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر 25 برس اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 برس کے لگ بھگ تھی۔ اس شادی میں یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنا سنتِ رسول بھی ہے جبکہ دوسرا سبق یہ ہے کہ آپﷺ نے خواتین کے کام کرنے کو سپورٹ کیا اور کام میں ان کی معاونت کی۔ حضرت خدیجہؓ سب خواتین کے لیے کامیاب بزنس ویمن، ایک وفادار بیوی اور ایک بہترین ماں کی حیثیت سے ایک رول ماڈل ہیں۔ جس وقت رسول اللہﷺ کو اعلانِ نبوت کا حکم ملا تو یہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جو سب سے پہلے آپﷺ پر ایمان لائیں‘ یہ اعزاز تمام عورتوں کیلئے باعثِ فخر ہے۔ حضرت خدیجہؓ تقریباً 25 سال تک نبی پاکﷺ کی رفاقت میں رہیں اور جب تک آپؓ حیات تھیں آنحضورﷺ نے عقد ثانی نہیں کیا۔ آپؓ کے بطن سے رسول اللہﷺ کے چھ بچوں کی ولادت ہوئی، جن میں سے دو بیٹے حضرت قاسمؓ اور حضرت عبداللہؓ کم سنی میں وفات پا گئے۔ حضرت قاسمؓ کی نسبت سے آپﷺ کی کنیت ابوالقاسم مشہور ہوئی۔ حضرت عبداللہؓ چونکہ اعلانِ نبوت کے بعد پیدا ہوئے تھے‘ اس لیے طیب و طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس کے علاوہ آپﷺ کی چار صاحبزادیاں حضرت زنیبؓ بنت محمد، حضرت رقیہؓ بنت محمد ، حضرت ام کلثومؓ بنت محمد اور حضرت فاطمہ زہراؓ بھی حضرت خدیجہؓ کے بطن ہی سے پیدا ہوئیں۔ جب نبی کریمﷺ غارِ حرا میں جاتے تو حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو ضرورت کا تمام سامان تیار کر کے دیتیں، جب آپﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ کو تسلی دی۔ علاوہ ازیں اپنی تمام دولت انہوں نے دینِ اسلام کیلئے وقف کر دی تھی اور آپﷺ کے ساتھ اعلانیہ خانہ کعبہ میں نماز بھی پڑھی۔ وصال تک وہ آپﷺ ساتھ تمام مشکلات میں کھڑی رہیں۔ اگر ہم جنت کی سردار خواتین کی تذکرہ کریں تو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد، فاطمہؓ بنت محمد، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم ہیں۔ (مسند احمد) دین اسلام خواتین کیلئے خوشیوں کی نوید ثابت ہوا‘ دنیا میں چاہے مشکلات آئیں لیکن آخرت میں غم کا کوئی شائبہ نہیں ہو گا۔
عربوں میں رواج تھا کہ بچوں کو پرورش کے لیے دیہی علاقوں میں بھیج دیا جاتا تھا، آپﷺ کی پرورش آپ کی رضاعی ماں حضرت حلیمہؓ سعدیہ نے کی اور آپﷺ کی ایک رضاعی بہن بھی تھیں جن کا نام حضرت شیماؓ تھا۔ روایت ہے کہ ہوازن کے قیدیوں میں حضرت شیما بنت حارث رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔سپاہی جب ان کو آپﷺ کی خدمت میں لے کر آئے تو آپﷺ نے ان کو پہچان لیا اور فرطِ جذبات سے آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، آپﷺ نے اپنی چادر ان کے بیٹھنے کے لیے بچھا دی۔ حضرت شیماؓ نے اسلام قبول کیا اور اپنے قبیلے میں واپس چلی گئیں۔نبی کریمﷺ نے انعام و اکرام کے ساتھ ان کو رخصت کیا۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام کی تاریخ میں روشنی کے مینار کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں ایک تہائی دین محفوظ صورت میں آپؓ کی بدولت ہی نصیب ہوا۔2200 سے زائد احادیث آپؓ سے مروی ہیں۔ آپؓ اس قدر ذہین و فطین تھیں اور شرعی معاملات پر اس قدر عبور تھا کہ اکثر صحابہ کرام آپؓ سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ آپؓ اتنی سادہ طبیعت تھیں کہ گھر کا کل اثاثہ ایک چٹائی‘ ایک بستر‘ تکیہ اور آٹے کی چکی تھی۔ آپؓ کے کردار کی گواہی قرآن پاک کی سورہ نور میں خود اللہ رب العزت نے دی ہے۔ آپؓ رسول اللہﷺ کی چہیتی اہلیہ تھیں۔ آپؓ کے ساتھ رسول اللہﷺ دوڑ بھی لگایا کرتے تھے۔ چونکہ کم عمری میں آپؓ کی نبی کریمﷺ سے شادی ہو گئی تھی‘ اس لیے آپؓ اپنی سہیلیوں کو گھر بلا کر ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی پاکﷺ تشریف لاتے تو سہیلیاں آپﷺ کے احترام میں چھپنے لگتیں مگر آپﷺ ان کو واپس حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیتے اور وہ سب دوبارہ کھیلنے میں مشغول ہو جاتیں۔ خانوادہ نبوت میں کوئی ایسی خاتون نہیں جس سے اتنی احادیث مروی ہوں جتنی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوات اور سفر میں بھی اپنی ازواج کو شریک رکھتے۔ دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل آپﷺ نے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے ہی میں گزارے تھے۔
رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کا خواتین کے حوالے سے سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے کبھی کسی خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھایا‘ کسی کو کبھی جھڑکا نہیں، کسی سے سخت سلوک نہیں کیا بلکہ آپﷺ نے خواتین کو مارنے کو ناپسندہ عمل قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہیں۔ اس کے علاوہ‘ ایسے معاشرے میں‘ جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا‘ آپﷺ نے بیٹیوں پر خصوصی شفقت فرمائی اور فرمایا: جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی‘ وہ اور میں جنت میں ایسے ساتھ ہوں گے جیسے دو انگلیاں۔ (صحیح مسلم)
آپﷺ کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراؓ کے حصے میں بہت سے اعزازات آئے ہیں۔ آپؓ رسول کریمﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، حضرت علیؓ کی زوجہ اور جنت کے سرداروں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی والدہ ہیں۔ آپؓ اپنے والد کی بیحد خدمت گزار رہیں‘ جنگ احد میں جب حضورﷺ زخمی ہوئے تو آپؓ نے ہی ان کی مرہم پٹی کی۔ اسی طرح آپؓ کی بیٹی حضرت زینبؓ نے جرأت کی وہ مثال قائم کی جو تاقیامت خواتین کیلئے مشعل راہ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ام سلمہؓ، حضرت اسماؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت ام عمارہؓ اور دیگر صحابیاتؓ کے کردار بھی ہمارے لئے قابلِ تقلید ہیں۔ ہمیں ان بلند کرداروں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کے اوصاف کو خود میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کے دور میں کچھ خواتین خود کومارڈرن ظاہر کرنے کے چکر میں لادینیت کی طرف راغب ہو رہی ہیں جو یقینا ایک غلط روش ہے، آپ مذہب پسند ہو کر بھی مارڈرن ہوسکتے ہیں، دین آپ کو تعلیم‘ کام‘ بزنس‘ کیریئر سمیت کسی چیز سے نہیں روکتا۔ مغربی ایجنڈے پر گامزن لوگوں کی تقلید کرکے اپنے خاندان کا سکون برباد مت کریں‘ اپنی زندگی کو امہات المومنینؓ کی زندگی کی روشنی میں گزاریں۔ ہمارے معاشرے کا حسن ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ہے‘ اگر یہ بکھر گیا تو ہمارا معاشرہ تباہ ہو جائے گا اور میرے نزدیک اس کی زیادہ ذمہ داری عورت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ گھر بنانا اس کی ذمہ داری ہے۔ عورت ہی خاندان کے اتحاد کی مرکزی اکائی ہے، ایک دوسرے سے مقابلہ بازی مت کریں، گھر کو باعثِ سکون بنائیں‘ مرد اور عورت ایک دوسرے کے حریف نہیں‘ رفیق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں