جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ سیاست دانوں کو تقسیم ہی دیکھا ہے۔ جس کو حکمرانی ملتی ہے وہ اپنے مخالفین کو نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ صرف ہمارے ملک میں نہیں ہورہا‘ پورے خطے کا یہی مسئلہ ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھی اس چیز میں ماہر ہیں۔ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کی مثال سامنے رکھ لیں‘ جب بھی ان دونوں میں سے کوئی حکومت میں آیا‘ اس نے آتے ہی دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔ 2018ء میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو پانچ سال کی قید سنا دی گئی اور ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ ان دونوں کی آپس میں چپقلش تو ہے ہی‘ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بھی زیرِ اعتاب آئی ہوئی ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ 1971ء میں پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف تھی۔ حسینہ واجد نے حکومت سنبھالنے کے بعد پچاس سال پرانے کیسز میں جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں کو چن چن کر پھانسیاں دیں۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے سابق امیر‘ نوے سالہ غلام اعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ دورانِ قید جیل ہی میں فوت ہو گئے۔ 2016ء میں امیرِ جماعت اسلامی بنگلہ دیش‘ 72 سالہ مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دی گئی،اس کے علاوہ علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا اور صلاح الدین چودھری سمیت درجنوں رہنمائوں کو پھانسی دی گئی جویقینا نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ نیپال کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی 2020ء میں ملک کی صدر بدیا دیوی نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا جس سے ایک سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔ اسی طرح افغانستان کی افسوسناک صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ وہاں جنگ نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے، نہ وہاں اب کوئی جمہوریت ہے نہ ہی کوئی حکومت نظر آتی ہے۔ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت جانے کے بعد طالبان آگئے‘جس پر دنیا نے افغان قوم کو بالکل تنہا کر دیا۔ جس طرح دنیا یوکرین کی مدد کو سامنے آئی‘ کاش اسی طرح سب افغانستان کی بھی مدد کو آگے آتے‘ پھر شاید آج وہاں اتنے برے حالات نہ ہوتے۔ بھارت کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی سیاست خاصی دلچسپ ہے۔ بی جے پی اور کانگریس ایک دوسرے مدمقابل رہتی ہیں۔ مودی سرکار نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں بہت حد تک اپوزیشن کو مینج کرلیا ہے۔ مخالفین کو قید کیا گیا‘ ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے‘ بہت سے لوگوں کے گھر تک مسمار کر دیے گئے‘ یہاں تک کہ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو اسمبلی سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہ مظالم صرف سیاستدانوں پر نہیں ہو رہے بلکہ صحافیوں کو بھی زیر عتاب لایا گیا ہے۔ رانا ایوب، شمس تبریز او محمد زیبر جیسے صحافی سرفہرست ہیں۔ محمد زبیر جیل میں بند کردیا گیا تھا اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی مداخلت پر ان کو چھوڑا گیا۔ سماجی کارکنان اور مسلم رہنما خاص طور پر مودی سرکار کے مظالم کی زد میں رہتے ہیں۔ چن چن کر ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں۔یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ بھارت کی چودہ جماعتیں سی بی آئی اور ای ڈی (ڈائریکٹویٹ آف انفورسمنٹ) کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئیں۔ کانگریس کی سربراہی میں چودہ جماعتوں نے ان اداروں کے خلاف پٹیشن فائل کی تاکہ مودی حکومت کی طرف سے چھاپے، گرفتاریاں اور انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں۔ درخواست دہندگان کی طرف سے برملا کہا گیا کہ صرف اپوزیشن کا احتساب کر کے انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں بھی اقتدار کی رسہ کشی پہلے دن سے جاری ہے‘ جمہوریت اور آمریت کے درمیان باریاں بدلتی رہیں۔ عوام کا کوئی پرسانِ حال پہلے تھا نہ اب ہے۔ ہمارے سامنے جو ادوار گزرے ہیں‘ ان میں نواز شریف اور بینظیر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہے۔ دونوں کی حکومتوں کو صدر کی جانب سے اسمبلیاں توڑ کر رخصت کیا گیا۔ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہے یہاں تک کہ بینظیر 1997ء کے انتخابات کے بعد جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگیں جبکہ نوازشریف کی حکومت کا تختہ 1999ء میں پرویز مشرف نے الٹ دیا۔ وہ بھی دو سال بعد ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے۔ مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک نئی جماعت بن گئی جو 2002ء کے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آ گئی۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ قومی دھارے سے باہر ہو گئیں۔ پھر ان کو احساس ہوا کہ اس آپس کی لڑائی کا نقصان ان دونوں ہی کا ہو رہا ہے۔ لہٰذا 2006ء میں میثاق جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ کیا گیا۔ 2007ء میں پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا اور دونوں رہنمائوں کیلئے وطن واپسی کی راہیں کھل گئیں مگر افسوس کہ وطن واپسی کے ڈھائی ماہ بعد ہی دہشت گردی کے ایک افسوسناک سانحے میں بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں۔ اس وقت کی حکومت نے بی بی کی موت کا سبب گولی لگنے یا خودکش دھماکے کے بجائے گاڑی کا لیور لگنے کو قرار دیا۔ بعد ازاں کسی نے بھی ان کے قاتل ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ عوام بی بی کی شہادت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور ہمدردی کے سبب زیادہ تر ووٹ پیپلز پارٹی کو پڑے۔ اب کی بار پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کو بھی شریکِ اقتدار کیا مگر کچھ ہی ماہ بعد اختلافات پیدا ہوئے تو راہیں پھر سے جدا ہو گئیں۔ اسی دوران نواز شریف صاحب کالا کوٹ پہن کر میموگیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ چلے گئے۔ جون 2012ء میں سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نااہل ہوکر گھر گئے اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے۔ البتہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔ اسی دوران سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف ایک بڑی قوت کے طور پر ابھری۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد (ن) لیگ حکومت میں آ گئی مگر پی ٹی آئی نے ووٹ بینک چوری کرنے کا الزام لگایا اور چیئرمین پی ٹی آئی نے 2014ء میں لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ 126دن بعد اس دھرنے کا اختتام ہوا۔ بعد ازاں 2016ء میں پاناما پیپرز سکینڈل کے بعد نواز شریف کے خلاف عدالت میں کیس چلا اور 2017ء میں ان کو برطرف کر دیا گیا۔ اب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے۔ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی جیتی اور عمران خان نے حکومت بنائی۔ اس حکومت کے آتے ہی وہ مہنگائی ہوئی کہ اللہ کی پناہ! بعد میں ایک‘ ڈیڑھ سال کورونا کی نذر ہو گیا۔ جب حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے تو اس سے پہلے کہ وہ ٹھیک طرح سے گورننس کی طرف آتے‘ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں سے ان کا اقتدار چھین لیا گیا۔ سب حیران رہ گئے کہ جب سب کچھ ایک صفحے پر تھا‘ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ حکومت رخصت ہو گئی۔ دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ شاید عمران خان پاکستان کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں لیکن ان کے مقابلے میں اپوزیشن ایسے متحد ہوئی جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھمائی ہو۔ اب شہاز شریف حکمران ہیں مگر ان کے اپنے بھائی وطن واپس آنے سے گریزاں ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ اس کے رہنما جیل سے نکلنے کے بعد ایک کے بعد ایک‘ جماعت چھوڑ کر جارہے ہیں۔ مظاہروں میں شریک بہت سے لوگ‘ جن میں خواتین بھی شامل ہیں‘ دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں۔ اگر عوامی سطح پر دیکھا جائے تو اب بھی کثیر تعداد عمران خان کے ساتھ ہے لیکن ان کے قریبی ساتھیوں کا یوں جماعت چھوڑنا نیک شگون نہیں ہے۔ سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ جیسے مسلم لیگ (ن) میں فاروڈ بلاک بننے سے مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا‘ا سی طرح اب پی ٹی آئی میں بھی فاروڈ بلاک بنے گا۔ اس دوران پیپلزپارٹی نے اپنے کارڈز بہت احتیاط سے کھیلے ہیں۔ (ن) لیگ کے لیے اب دوبارہ اقتدار حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یہی حال تحریک انصاف کا لگ رہا ہے۔ عوام کیا سوچتے ہیں‘ اس سے کسی کو غرض نہیں۔ عوام اس وقت الیکشن چاہتے ہیں‘ وہ مہنگائی سے ریلیف چاہتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں عوام کی پروا ہے کس کو؟ جس کوطاقت اور اختیار ملتا ہے‘ وہ اپنی ساری توجہ اور سرکاری وسائل اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔ نجانے کب تک انتقام کی یہ سیاست یونہی چلتی رہے گی اور کب تک اس کا ایندھن معصوم عوام بنتے رہیں گے۔