تمباکونوشی‘ زہرِ قاتل

ہمارے ملک میں بہت سے لوگ شوقیہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور کچھ لوگ عادت سے مجبور ہیں‘ وہ اس سے اپنی جان نہیں چھڑا پاتے۔ یہ بہت مہلک شوق ہے جو حتمی نتیجے میں جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی سیاسی گرما گرمی میں مجھے تمباکو نوشی کے نقصانات کیوں نظر آنے لگ گئے۔ ایک تو بات کرنے کی آزادی کم ہوتی جا رہی ہے‘ لہٰذا موضوعات کوچننا ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس لیے ایسے موضوع کا انتخاب کیوں نہ کیا جائے جس سے اندیشۂ سود و زیاں ہی نہ ہو۔ علاوہ ازیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ 31 مئی کو دنیا بھر میں انسدادِ تمباکو کا دن منایا جاتا ہے۔ اس بار اس عالمی دن کا تھیم ہے ''ہمیں خوراک چاہیے تمباکو نہیں‘‘۔یعنی تمباکو اُگانے والوں کو متبادل فصلوں کی طرف لایا جائے تاکہ خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ نئی نسل پان‘ چھالیہ‘ گٹکا (ماوہ)‘ شیشہ‘ حقہ‘ ویپ اور بیڑی بڑی تعداد میں استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد ہیروئن‘ حشیش‘ آئس اور چرس بھی استعمال کر رہی ہے۔ پابندی ہونے کے باوجود یہ نشہ آور اشیا لوگوں تک کیسے پہنچ جاتی ہیں‘ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تمباکو کی خرید و فروخت تو عام ہے لیکن جب اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو سگریٹ بیچنا قانونی طور پر منع ہے تو کون نئی نسل کے ہاتھ میں یہ زہر دے رہا ہے؟
سگریٹ پینے والے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کوفت میں مبتلا کرتے ہیں‘ اس کا دھواں اور بُو جہاں دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہے‘ وہاں یہ عادت ان کیلئے مہلک اور بیماریوں کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ سگریٹ پینے والے خود جن بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں‘ ان میں منہ کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، عارضہ قلب، ہائی بلڈ پریشر، ٹی بی، دمہ، فالج، گلے کا کینسر اور سانس کی دیگر بیماریاںشامل ہیں۔ اتنے خطرات ہونے کے باوجود لوگ تمباکو کی عادت کی طرف جاتے ہیں اور کچھ چاہنے کے باوجود اس کو چھوڑ نہیں پاتے۔وزارتِ صحت کی طرف سے سگریٹ کی ڈبیہ پر منہ کی کینسر کی تصویر بھی بنی ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس کا استعمال ترک نہیں کرتے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو متعلقہ طبی سہولتوں کا فقدان ہے دوسرا‘ لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی بھی نہیں ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین لوگوں کو وقتی سکون دیتا ہے بعد میں ان کو اس کی لت پڑ جاتی ہے۔
بہت سے لوگ اس کو اپنے غم بھلانے کے استعمال کرتے ہیں اور کچھ وقتی سکون کے لیے،کچھ کو یہ غلط فہمی ہے کہ تخلیقی کام کرتے ہوئے چائے اور سگریٹ معاون ثابت ہوتے ہیں‘ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے‘ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ اگر کوئی پبلک مقامات پر تمباکو نوشی کرے تو مجھے خود بھی بہت کوفت ہوتی ہے کیونکہ اس سے سب متاثر ہوتے ہیں۔ کورونا کے بعد سے بہت سے لوگ ویسے ہی نظامِ تنفس کی بیماریوں کاشکار ہیں‘ ان کے لیے یہ دھواں زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے مگر لوگ خیال ہی نہیں کرتے اور دوسروں کے لیے بھی تکلیف کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی تمباکو کی بدبو اور دھواں نان سموکر افراد کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس عادت کو چھوڑا جاسکتا ہے‘ لہٰذا اس کو ترک کرنے کی طرف آئیں کیونکہ یہ جتنا آپ کے لیے خطرناک ہے اتنا ہی یہ اس کیلئے بھی خطرناک ہے جو اس کا دھواں نگل رہا ہے۔ آنکھ‘ ناک‘ منہ‘ گلا کیا ہے جو اس متاثر نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو یہ دانتوں اور مسوڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور انسان کے دانت اور مسوڑے کمزور ہوجاتے ہیں۔ دیکھنے میں بھی یہ بہت برے لگتے ہیں، انسان خود بھی کھانے پینے کے دوران تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اس عادت کو فوراً ترک کر دینا چاہیے۔ یہ کوئی فیشن نہیں‘ نہ ہی اس سے کوئی ہیرو اور سپرمین لگتا ہے بلکہ الٹا اس کی بُو سے دیگر لوگ متنفر ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے نقصانات میں ایک نقصان بال گرنا بھی ہے‘ اس لیے اس کو اپنی زندگی سے فوراً نکال دیں۔
دنیا بھر میں ہر سال چھ لاکھ لوگ اس کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر حاملہ خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں تو ان کے بچے کی زندگی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے اکثر بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حمل کے دوران بالخصوص سگریٹ نوشی سے مکمل دور رہنا چاہیے۔ جو لوگ سگریٹ کی عادت ترک کردیتے ہیں‘ وہ فالج اور دل کے دورے کے خطرات سے دور ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر متوازن رہتے ہیں۔ کھانسی اور سینے پر دبائو بھی کم ہوجاتا ہے۔ اگرچہ خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح کم ہے لیکن گھر میں مردوں کی سگریٹ کی عادت کی وجہ سے خواتین اور بچے بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو منع کریں کہ وہ کم از کم کسی کے سامنے‘ گھر میں یا پبلک مقامات پر سگریٹ نہ پئیں۔ سگریٹ کو چھوڑ کر ای سگریٹ پر جانا یا ویپ استعمال کرنا ایک ہی بات ہے‘ یہ بھی مضرِ صحت ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کی روک تھام کیسے کی جائے؟ سب سے پہلے تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ یہ قوتِ خرید سے ہی باہر نکل جائے۔ اس وقت پاکستان میں تمباکو کی انڈسٹری پر مزید ٹیکسز لگانے اور ریفارمز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سگریٹ نوشی منشیات کی طرف پہلا قدم ہے اس لیے متعلقہ قوانین کو مزید سخت کیا جائے اور ان پر عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ اس کے ساتھ اس کے اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے‘ میڈیا پر‘ کسی ڈرامے یا فلم میں بھی اس کو استعمال کرتے ہوئے نہیں دکھانا چاہیے۔ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ کالجز‘ سینما گھروں اور تفریح گاہوں کے تین‘ چار میل تک کے دائرے یہ دستیاب ہی نہیں ہونے چاہئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ یا عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کرنے والوں کو بھاری جرمانے عائد کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے محض قانون سازی ہی ضروری نہیں‘ عملی اقدام بھی ہوتا نظر آنا چاہیے۔ کوئی بھی ایکٹر‘ ماڈل یا سیلیبرٹی اس کو اپنے شوٹ میں استعمال نہ کرے۔ ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ پر عوامی آگاہی کے لیے مہم چلنی چاہیے کہ اس کے کتنے مضر اثرات ہیں۔ اس عادت کو ترک کرنے کیلئے سب سے پہلے مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اپنے آپ کو سمجھایا جائے کہ یہ ایک بری لت ہے جو صحت کیلئے بھی نقصان دہ ہے‘ اس سے بہرصورت جان چھڑانا ہوگی۔ علاوہ ازیں پانی زیادہ پئیں‘ اگر سگریٹ کی طلب ہو تو گاجر یا سیب کو اچھی طرح چبا کر کھائیں۔ اگر وہ پاس نہ ہوں تو چیونگم چبائیں۔ انسان اس عادت کو ترک کرتے ہوئے کچھ چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اس لیے دار چینی، پیپر منٹ اور قہوے کا استعمال کریں۔
ہمارے ہاں وہ طبقہ‘ جو ادب اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھتا ہے‘ خاص طور پر اس لت کا شکار ہے‘ ان کو کم از کم پبلک، اپنے فیز یا نئی نسل کے سامنے کش نہیں لگانے چاہئیں۔ اچھے ادب یا تخلیق کا سگریٹ نوشی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے‘ یہ محض ذہنی اختراع ہے۔ ہمیں اپنی حلال کمائی اور صحت کو تمباکو کے دھویں میں نہیں اڑانا چاہئے۔ یہ ماحول کے لیے بھی آلودگی کا باعث ہے اور انسانی صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ جب بھی سگریٹ نوشی ترک کرنے لگیں تو سب کو بتائیں کہ آپ اب سے تمباکو نوشی نہیں کریں گے‘ خود کو اس ماحول سے بھی دور رکھیں جہاں لوگ اس کے عادی ہوں۔ اس کی طلب کو پانی اور ببل گم سے روکیں‘ یوگا کریں اور جم جائیں۔ ضرورت پڑے تو ماہرِ نفسیات کی مدد لے لیں۔ آن لائن وڈیوز سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ معالج اور کونسلنگ سے آپ بہتر محسوس کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ انسدادِ تمباکو نوشی کے حوالے سے مؤثر اقدامات کرے‘ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرائے‘ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ اور شیشہ مہیا کرنے والے دکانداروں‘ کیفے اور ہوٹلوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں‘ نیز سگریٹ کی سمگلنگ کی بھی مکمل روک تھام کی جائے۔ تمباکو سے بنی سبھی اشیا کے اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے اور متعلقہ ہر شے پر وزارتِ صحت کی وارننگ لازمی چھپی ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں