کنکریٹ آباد اور شہری

میرا بچپن اسلام آباد میں گزرا۔ اُس وقت کا اسلام آباد الگ ہی ہوتا تھا۔ ہر گلی میں درخت اور کیاریاں ہوتی تھیں۔ فضا میں ہریالی اور پھولوں کی خوشبو ہوتی تھی۔ درخت گھنے تھے اور بہت سے پرندوں کا مسکن تھے۔ صبح پرندوں کی آواز سے آنکھ کھلتی تھی۔ اس وقت یہ بلڈنگ رُول تھا کہ ہر گھر میں کیاری‘ لان اور ایک درخت ضرور ہوگا۔ ہم بچے پودوں سے تتلیاں‘ پتنگے اور کیٹی پِلرز اٹھا لیتے تھے۔ پھر جب ان کو بے چین دیکھتے تھے تو واپس پودوں پر رکھ دیتے تھے۔ ایک خوف بھی ہوتا تھا کہ یہ کہیں مر نہ جائیں۔ ہم بچے کیاریوں میں کھیلتے تھے اور پھولوں کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کا بھی نشانہ بن جاتے تھے۔ اکثر ارتھ ورمز کو سانپ قرار دے کر شور مچا دیتے تھے۔ سکولوں میں بھی بڑے وسیع میدان ہوتے تھے۔ ہر طرف ہریالی ہوتی تھی۔ پرانے پیڑ اتنے گھنے ہوتے تھے کہ گرمیوں میں دھوپ کا احساس تک نہ ہونے دیتے تھے۔ بارش ہو جاتی تو ہم بچے سردی محسوس کرنے لگتے تھے۔ پیڑوں کے پتے ایک دوسرے پر چپکا دیتے تھے۔ کچھ پودوں سے الرجی ہو جاتی تو امی اور ٹیچرز سے ڈانٹ پڑتی تھی۔ پلے لینڈ اور چڑیا گھر ‘اس وقت بچوں کی تفریح کے لیے یہی جگہیں ہوتی تھیں۔ وہاں بھی اتنی ہریالی تھی کہ ہم بچے سبزے میں چھپن چھپائی کھیلتے تھے۔ اس وقت لوگ دامنِ کوہ کم کم ہی جاتے تھے اور اس سے آگے پیر سوہاوہ صرف ایڈونچر کے شوقین لوگ ہی جاتے تھے۔ اس وقت یہ جگہ گھنا جنگل تھی‘ وہاں پکی سڑک نہیں تھی۔
اُس وقت اسلام آباد کی کچھ سڑکیں دونوں اطراف پیڑوں سے اس طرح ڈھکی ہوتیں تھیں کہ سورج کی کرنیں نیچے نہیں پہنچ پاتی تھیں۔ ان سڑکوں سے گزرتے ہوئے ایسے لگتا تھا کہ ہم کسی سُرنگ میں آگئے ہیں۔ ہمارے استاتذہ ہمیں شجرکاری کی افادیت بتاتے تھے۔ ہم سے پیڑ لگوائے جاتے تھے۔ شجرکاری والے دن مالی بابا کی ڈیوٹی کرکے بہت مزہ آتا تھا۔ میری طرح میری والدہ اور بہن کو بھی پودوں کا بہت شوق ہے۔ ان دونوں کے پاس انواع و اقسام کے پودے ہیں۔ وہ بھی ہمیشہ درختوں کی افادیت سے آگاہ کرتی رہیں۔ ہر جشنِ آزادی پر ہم پٹاخوں کے بجائے پودے لیتے اور کوشش کرتے جہاں کسی کے پاس جگہ ہو وہاں لگا دیا جائے۔ میں اب بھی ''پلانٹ فار پاکستان‘‘ مہم کے تحت پودے لگاتی ہوں۔
پھر اسلام آباد بدلنے لگا۔ یہ درختوں اور قدرتی حسن کے بجائے عمارتوں اور سڑکوں والا شہر بننے لگا۔ میرے سامنے نوے کی دہائی سے اب تک یہاں بہت کچھ تبدیل ہو گیاہے۔ اس شہر کے درخت غائب ہو گئے ہیں۔ اب اس کی فضا سے ہریالی کی مہک نہیں آتی اور نہ ہی پھول اس کی فضا کو معطر کرتے ہیں۔ پہلے یہاں گرمیوں کا دورانیہ مئی سے جولائی تک تھا جو اب مارچ سے اکتوبر تک چلا گیا ہے۔ بہت سے پرندے‘ تتلیاں اور جانور جو یہاں عام نظر آتے تھے‘ وہ اب نظر نہیں آتے۔ ہر دور کے شاہ نے اس کو کنکریٹ میں تبدیل کیا۔ سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاس اور فلائی اوور بنانے کی دوڑ میں یہاں درختوں کو کاٹا جاتا رہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب زیرو پوائنٹ سے تیس سے چالیس سال پرانے پیڑ کاٹے گئے تو کہا گیا تھا ہم انکے بدلے مزید ہزاروں درخت لگائیں گے۔ اُن پائن ٹریز کے کاٹے جانے پر میں بہت روئی تھی‘ لیکن شاید شہری انتظامیہ اور حکومت کو اس چیز کا احساس نہیں ہے کہ ایک پودے کو درخت بننے میں بہت سال لگتے ہیں اور اسے کاٹنے کیلئے صرف چند لمحے چاہیے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ترقی صرف سیمنٹ سریے میں نظر آتی ہے‘ پر میرے نزدیک انسانی بقا کیلئے قدرتی ماحول سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جتنا ہم قدرتی ماحول سے دور ہوں گے‘ اتنا ہی ہم آلودگی کا شکار ہوں گے۔
اسلام آباد کے بڑے ترقیاتی پراجیکٹ کتنے ہی گرین بیلٹ‘ پارک‘ چھوٹے جنگل اور درخت نگل گئے۔ اب سڑکوں کے اطراف درخت نہیں ہوتے۔ سر پر سورج ہوتا ہے اور اطراف میں بل بورڈز۔ اگر ٹریفک جام ہو جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی صحرا میں کھڑے ہیں۔ سڑکوں کے اطراف کوئی سایہ نہیں‘ پانی پینے کی کوئی جگہ نہیں۔ باتھ رومز تو سرے سے نہیں ہیں۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر سفر کرتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کالا پانی کی سزا کاٹ رہے ہوں۔ اسلام آباد میں بہت سے وی آئی پی رہتے ہیں‘ یہ امرا کا شہر ہے تو بار بار روٹ لگ جاتے ہیں‘ عام عوام کے لیے موومنٹ کو روک دیا جاتا ہے۔ اس دوران عوام گاڑیوں کے انجن اور اے سی بند کرکے صاحب بہادر کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ سڑکوں پر سایہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا گرمی سے برا حال ہو جاتا ہے۔ اس لیے کار میں ہاتھ والا پنکھا اور پینے کا پانی ضرور رکھیں۔
اسلام آباد کا جغرافیہ دیکھیں تو یہ سطح مرتفع ہے‘ یہاں پر اکثر زلزلے آتے ہیں۔ گزشتہ شب بھی ملک کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔کچھ ماہ پہلے آنے والا زلزلہ تو اتنا شدید تھا کہ لوگ اپنے گھروں اور عمارتوں سے خوف زدہ ہو کر باہر بھاگ گئے تھے۔ پھر بھی اسلام آباد میں بلند بانگ عمارتیں بن رہی ہیں۔کیا یہ تعمیرات زلزلے کو سہہ سکتی ہیں؟ ہمارے ملک میں تو افتتاح سے پہلے ہی انفراسٹرکچر میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ کیا یہ تمام نئی تعمیرات محفوظ ہیں؟ کیا کسی حادثے کی صورت میں فائر بریگیڈ اور ریسکیو کے پاس لوگوں کو بچانے کا انتظام ہے؟ میں یہ سوال بہت عرصے سے کررہی ہوں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں مل رہا۔ میں ایک بار پھر آج یہ سوال اٹھاتی ہوں کہ جب اسلام آباد میں ہر کچھ عرصے بعد زلزلے آتے ہیں تو یہاں پر بلند عمارتوں کی اجازت کیوں دی جارہی ہے؟ کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں کیا اسلام آباد کی انتظامیہ لوگوں کو بچانے کی اہلیت رکھتی ہے؟ کیا یہ فلائی اوور‘ انڈر پاس اور عمارتیں زلزلے اور جھٹکے برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ کوئی بھی زلزلے کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن جس جگہ پر ماضی میں بہت بار زلزلے آچکے ہوں وہاں اس چیز کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ عمارتیں زیادہ اونچی نہ بنائی جائیں۔
اسلام آباد اس وقت گرمی سے جھلس رہا ہے‘ شدید حبس ہے‘ رہی سہی کسر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے نکال دی ہے۔ ترقی کے نام پر درخت کاٹ دیے گئے اور نئے لگائے گئے پودوں کو درخت بننے میں کئی سال لگیں گے۔ ان میں کتنے ہی پودے درخت نہیں بن سکیں گے کیونکہ پودے کو دیکھ بھال کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اب اسلام آباد مجھے کنکریٹ آباد لگتا ہے۔ ہر طرف سیمنٹ‘ سریے اور کنکریٹ والے سٹرکچر نظر آتے ہیں۔ وہ رنگ برنگی تتلیاں‘ گاتے پرندے نظر نہیں آتے۔ ٹریفک کے شور اور گرمی سے جھلستے ہوئے اپنی منزل پر جانا پڑتا ہے۔ اسلام آباد میں وسیع و عریض کچنار پارک ہوتا تھا جوکہ ترقی کے نام پر سکڑ گیا ہے‘ وہاں اتنی زیادہ گلہریاں‘ بلبل اور مینائیں ہوتی تھیں‘ جو اب نظر نہیں آتیں۔ میں اکثر ارشد کیساتھ وہاں فوٹوگرافی کرتی تھی۔ میرے سامنے وہ پارک بدل گیا۔ جیسے میری زندگی بدل گئی۔ ارشد چلا گیا۔ اب میں وہاں نہیں جاتی۔ ترقی کے نام پر شہر کی ہیئت ہی بدل دی گئی ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ جتنی جلدی اس ملک میں سڑک بنتی ہے‘ اتنی ہی جلدی یہاں پر عوام کیلئے سستے رہائشی منصوبے کیوں نہیں بنائے جاتے۔ نجی رہائشی کالونیوں میں کروڑوں روپوں میں پلاٹ اور گھر فروخت ہوتے ہیں جو کہ غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ حکومت غریب عوام کیلئے سستے رہائشی منصوبوں کی طرف توجہ کیوں مرکوز نہیں کرتی۔ کبھی سڑکیں بنانے جیسا جنون عوام کیلئے سستے رہائشی منصوبے بنانے کیلئے بھی دکھایا جائے۔ ایسا ہوا تو شاید عوام کی قسمت کھل جائے۔ اب تو اسلام آباد ایک چھوٹے سے سنگل پورشن گھر کا بھی پچاس ہزار روپے کرایہ دینا پڑتا ہے ۔شہری اب کھڑکی سے سڑک اور بلند و بالا عمارت دیکھ کر شہر کی ترقی کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ جس جگہ پہلے لان ہوتے تھے‘ اب وہاں کمرے ہیں‘ جہاں کیاریاں ہوتی تھیں وہاں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں رہائش کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگوں اسلام آباد میں اپنا گھر اور پلاٹ خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کنکریٹ آباد ایک مہنگا شہر ہے‘ یہاں تو کچھ گز زمین قبر کیلئے مل جائے تو بڑی بات ہے۔ اب بھی وقت ہے اس شہر کو بچا لیں یہاں شہریوں کو سکون سے جینے دیں‘ اسکو کنکریٹ کا جنگل مت بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں