وزرائے اعظم کی قسمت

پاکستان میں بہت سے اہم عہدے ہیں مگر احتساب کے نام پر صرف سیاست دانوں کو زیرِ عتاب لایا جاتا ہے۔ ہر وزیراعظم کو لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی حکومت‘ اس کی پوزیشن اس کی زندگی خطرے کی زد میں رہتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بعض لوگوں کے لیے ایک دیگ کی مانند ہے‘ یہ دیگ پکتی جارہی ہے اور لوگ اسے کھاتے جارہے ہیں‘ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ اسی لیے یہاں آج تک جمہوریت کی جڑیں گہری نہیں ہو سکی ہیں۔شاید ہی کسی وزیراعظم کا اقتدار امن و سکون سے گزرا ہو۔ نہ اس کا اقتدار سکون سے گزرتا ہے نہ ہی وہ اپوزیشن کے دن چین سے گزارتا ہے۔ سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتا ہے‘ سزائیں دی جاتی ہیں‘ یہاں تک کہ ان کو ملک چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ کچھ جو زیادہ سمجھ دار ہوگئے‘ انہوں نے اپنے خاندان اور بزنس ہی باہر شفٹ کر لیے، بس حکمرانی کرنے پاکستان آتے ہیں اور اقتدار ختم ہوتے ہی اپنے اصل ملک لوٹ جاتے ہیں۔پاکستان تاریخ میں بہت کم صدور کا احتساب ہوا لیکن بہت سے وزرائے اعظم نے سخت وقت دیکھا۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کانٹوں سے بھرا ہوا تخت ہے جس پر براجمان ہونے والا زیادہ دن نہیں گزار پاتا۔ ذرا سی تندیٔ بادِ مخالف چلے تو ہائوس آف پی ایم تاش کے پتوں کی طرح سے بکھر جاتا ہے۔ کیا ہوجائے اگر پاکستان میں کوئی وزیراعظم بھی اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرلے۔ گزشتہ تین اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے‘ اگر وزرائے اعظم کو بھی یہ سہولت دے دی جائے تو کیا حرج ہے؟
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان تھے‘ وہ تحریک پاکستان کے کارکن بھی تھے اور زیرک سیاستدان تھے۔ ان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ قتل ایک گہری سازش تھی، اس کے بعد سے کوئی بھی وزیراعظم اپنا اقتدار پورا نہیں کرسکا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کو گولی مار کر قتل کردیا گیا؛ تاہم اس قتل کی سازش کے پیچھے کون تھا‘ اس کا آج تک کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ ہمارے ملک میں خاص و عام‘ کوئی بھی قتل ہوجائے قاتل ہمیشہ نامعلوم ہی رہتے ہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم منتخب ہوئے مگر دو سال سے بھی قبل گورنر جنرل غلام محمد نے حکومت تحلیل کر دی۔ اس کے بعد محمد علی بوگرہ‘ جو ایک سفارتکار تھے‘ وہ ملک کے تیسرے وزیراعظم بنے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ برما‘ کینیڈا اور امریکہ میں بطور سفیر اپنے فرائض سرانجام دے چکے تھے۔انہوں نے پاکستان کا آئین بنانے کی تیاری شروع کی اور ان کی سفارتکاری نے پاکستان کا رخ امریکہ کی طرف کردیا۔ ڈھائی‘ پونے تین سال کی حکومت کے بعد بوگرہ صاحب کو بھی رخصت کر دیا گیا۔ ان کے جانے تک پاکستان کافی حد تک امریکی بلاک میں جا چکا تھا۔ان کے بعد چودھری محمد علی وزیراعظم بنے اور لگ بھگ تیرہ ماہ پاکستان پر حکمرانی کی۔ان کے بعد ایک قدآورسیاست دان حسین شہید سہروردی نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی اور وہ بھی تیرہ ماہ ہی پاکستان پر حکمرانی کر سکے۔ حسین شہید سہروردی نے پاکستان اور چین کی دوستی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں صدر اسکندر مرزا کا ذکر بہت ضروری ہے جو تین سال سے زائد مدت پاکستان کے صدر رہے اور ان کے دورِ حکمرانی میں‘ جس میں وہ پہلے گورنر جنرل تھے‘ پھر یہ عہدہ ختم ہوا تو وہ ملک کے صدر بن گئے‘ چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور فیروز خان نون پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ اس دور میں محلاتی سازشیں عروج پر تھیں۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر دو ماہ سے بھی کم عرصہ تک ملک کے وزیراعظم رہے۔ وہ استعفیٰ دے کر گئے تو فیروز خان نون وزیراعظم بنے جن کے دور میں گوادر پاکستان کا حصہ بنا‘ ان کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ صدر اسکندر مرزا نے 1958ء میں آئین کو معطل کر کے اسمبلیاں توڑ دیں‘ جس کے بعد انہوں نے اپنے چہیتے دوست ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا۔ یہ ملک میں پہلا مارشل لا تھا۔ ٹھیک تین ہفتوں بعد خود ان کو بھی صدارتی محل سے نکال دیا گیا اور وہ اپنی بیگم کے ساتھ لندن چلے گئے اور ساری عمر وہیں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں گزار دی۔
اسکندر مرزا کی غلطیوں نے اس ملک میں جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس کے بعد ملک میں صدارتی نظام آ گیا اور ایوب خان کا طویل دور شروع ہوا‘ ان کے دور میں ملک نے زرعی اور صنعتی طور پر ترقی بھی کی اور وہ عوام میں مقبول بھی تھے؛ تاہم مادرِ ملت فاطمہ جناح کے مدمقابل آنا اور ان کو دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں شکست دینا عوام میں صدر ایوب کو غیرمقبول کر گیا‘ اسی طرح ان کے آخری دور میں آٹے اور چینی کا بحران سنگین ہو گیا جس پر ہڑتالیں اور مظاہرے شروع ہو گئے۔ وہ خود تو چلے گئے مگر اپنے اختیارات جنرل یحییٰ خان کو دے گئے۔یحییٰ خان ملک کے دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے دور میں ملک دولخت ہوگیا، اسی دوران نور الامین کو 7 دسمبر 1971ء کو ملک کا وزیراعظم بنایا گیا مگر 16 دسمبر کو سانحہ سقوطِ ڈھاکہ پیش آیا اور 20 دسمبر کو ملک کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آگئی۔ وہ صدر بھی رہے اور سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی۔ 14 اگست 1973ء کو وہ جمہوری وزیراعظم بنے اور اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے کئی اچھے اقدامات کیے۔ مسلم ممالک کو قریب لانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو کے دورِ حکومت کے آخری دنوں میں حکومت مہنگائی کے سبب غیر مقبول ہو چکی تھی، انہوں نے اسمبلی توڑ کر عام انتخابات کرائے مگر دھاندلی کے الزامات کے تحت حکومت مخالف تحریک شروع ہو گئی۔ ان حالات میں جنرل ضیاء الحق نے حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا اور دو سال بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔
ضیاء الحق کے دور میں لگ بھگ آٹھ سال تک وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ خالی رہا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے، 1988ء میں صدر ضیا کا طیارہ کریش ہونے کے بعد غلام اسحاق خان صدربنے اور پھر ملک میں نئے انتخابات ہوئے، جس کے بعد بینظیر بھٹو اقتدار میں آگئیں۔ اس کے بعد بھی وہ ہوا جو ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے، یعنی اقتدار کے لیے میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہو گیا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی اس ایک دہائی پر مشتمل چپقلش میں چار حکومتیں آئیں‘ گئیں اور بالآخر اکتوبر 1999ء میں پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس ایک دہائی میں دو بار بینظیر بھٹو اور دو بار نواز شریف وزیراعظم بنے جبکہ چار نگران وزیراعظم بھی آئے۔ 1999ء سے 2002ء تک وزیراعظم کا ایک بار پھر عہدہ خالی رہا اور 2002ء کے الیکشن کے بعد میر ظفراللہ خان جمالی وزیراعظم بنے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد تین ماہ کیلئے چودھری شجاعت حسین اور پھر شوکت عزیز وزیراعظم بن گئے۔ وہ امریکہ سے آئے تھے اور حکومت کے خاتمے کے بعد وہیں چلے گئے۔ دسمبر 2007ء میں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا اور 2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے جو عدالتی سزا کے بعد نا اہل ہوئے تو راجہ پرویزاشرف کو وزیراعظم کا عہدہ مل گیا۔ 2013ء کا الیکشن جیت کر نوازشریف اقتدار میں آئے۔ 2017ء میں وہ سپریم کورٹ سے نااہل قرارپائے تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد عمران خان وزیراعظم بنے تو کہا جا رہا تھا کہ اب سب ایک پیج پر ہے لیکن پونے چار سال بعد عمران خان کی حکومت کو بھی رخصت کر دیا گیا۔
تادمِ تحریر شہبازشریف وزیراعظم ہیں اور عمران خان اٹک جیل میں قید ہیں۔ یہی اس ملک کی روایت بھی ہے اور رِیت بھی۔ اب کچھ عرصے سے اسمبلیاں تو اپنی مدت پوری کرلیتی ہیں لیکن وزیراعظم کو یہ سہولت میسر نہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں تاحال سیاسی بلوغت سے بہت دور ہیں۔ مخالفین کو پھانسنے کے لیے حالیہ عرصے میں کی گئی قانون سازی پی ڈی ایم کے اپنے آگے بھی آئے گی اور مستقبل میں بھی بہتری کے حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں