دنیا میں دو ریاستوں‘ فلسطین اور کشمیر کی کہانی بہت دردناک ہے۔ دونوں ہی اس وقت ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ جموں و کشمیر پر بھارت قابض ہے اور فلسطین پر اسرائیل قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ یہ دونوں مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں لیکن مسلم امہ کو ان پر ہونے والے مظالم نہیں نظر آتے۔ جب بھی مسلم امہ کی بات ہوتی ہے تو چشمِ تصور میں ''یک جان دو قالب‘‘ کا محاورا گونجنے لگتا ہے مگر آج کے زمانے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ عملی دنیا میں ہر ملک کے اپنے مفادات سب سے پہلے آتے ہیں۔ سب اپنے مفاد کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مظلوم کا ساتھ دینا ہے کہ یا ظالم کے ساتھ مل کر ظلم میں آلۂ کار بننا ہے۔ کشمیر اور فلسطین 75 سال سے زائد عرصے سے عالمی برادری اور انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید ان کے مسائل کا کوئی حل نکل سکے، ان پر ہونے والے مظالم بند ہو جائیں، دنیا نے ان کے حوالے سے جو قراردادیں منظور کی تھیں‘ شاید ان پر عملدرآمد کرایا جائے اور ان خطوں کو ان کا جائز اور بنیادی حق دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے فیصلے، اس کی قراردادیں اور سفارشات‘ سب کچھ اسرائیل اور بھارت‘ جو ان خطوں پر قابض ہیں‘ ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے قبضے کو مزید بڑھاتا رہا جبکہ بھارت آج تک مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دینے سے قاصر ہے۔ دونوں خطوں میں عوام ریاستی جبر اور ظلم کا شکار ہیں۔ قابض فوجیں نہتے شہریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں مگر بے قصور اور نہتے عوام کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ دنیا ظلم کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اور بے قصور افراد پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیونکہ عالمی برادری بالخصوص طاقتور ممالک اس ظلم وستم پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی انہوں نے ان مظالم کا سلسلہ رکوانا ہے اور نہ ہی مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنی ہیں۔ لوگ جنگ زدہ خطوں سے ہجرت کے دوران سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، بارڈر پر محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں مگر ان کے لیے دیگر ممالک اپنی سرحدیں نہیں کھولتے۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ کوئی زبردستی آپ کے گھر میں گھس جائے، آپ کو دھکے دے کر گھر سے نکال دے اور گلی میں بٹھا دے، روز آپ پر ظلم بھی کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ اگر آس پاس کے لوگ بھی آپ کو اپنے پاس جگہ نہ دیں اور آپ کو سرد‘ گرم موسم اسی گلی میں گزارنا پڑیں تو سوچیں آپ پر کیا بیتے گی؟ بچے بھوک سے بلبلا رہے ہوں، ہر وقت موت کا خوف لاحق ہو تو آپ کیا کریں گے؟ شاید کچھ دیر رو دھو کر چپ ہو جائیں لیکن کچھ غصہ کریں گے اور قابض افراد کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی کچھ آج غزہ اور باقی فلسطین میں ہو رہا ہے۔ جہاں بھی ظلم ہوتا ہے، وہاں مزاحمتی تحریکیں ضرور جنم لیتی ہیں۔ جہاں غلامی ہوتی ہے، وہاں ہی آزادی کی جوت جگائی جاتی ہے۔ اسرائیلی فلسطینیوں کے سرزمین پر قابض ہوتے رہے اور آج یہ عالم ہے کہ ان کے اسی فیصد سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی قابض ہو چکے ہیں اور فلسطین کے پاس اپنی ہی سرزمین کے چند سو مربع میل رہ گئے ہیں۔ بیشتر افراد اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی شہر میں، اپنی ہی زمینوں پر محکوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
سرزمین فلسطین ہم سب کے لیے بہت مقدس ہے۔ دنیا کے تین اہم مذاہب؛ اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مقدس مقامات یہاں موجود ہیں۔ مسلمانوں کی اس جگہ سے عقیدت بہت زیادہ ہے۔ یہاں پر قبلۂ اول ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں قیام کیا۔ حضرت دائود علیہ السلام نے یہاں سکونت اختیار کی اور یہاں ایک محراب تعمیر کی۔ اسی سرزمین پر طالوت اور جالوت مدمقابل آئے، جس کا سارا واقعہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے۔ اسی سرزمین میں تابوتِ سکینہ موجود ہے جس میں انبیا کرام علیہم السلام کے مقدسات موجود ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاں پر اپنی حکومت قائم کی اور یہاں سے دنیا پر حکمرانی فرمائی۔ انہوں نے یہاں ایک عبادت گاہ بھی تعمیر کرائی جس کو ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ اس عبادت گاہ کی تعمیر میں انسانوں کے علاوہ جنوں نے بھی حصہ لیا اور اس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دی ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب نازل ہوا تو باقی لوگوں کو اسی سرزمین میں پناہ ملی تھی۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا مسکن بھی یہیں تھا۔ مسجد اقصیٰ میں آج بھی محرابِ زکریا موجود ہے۔ یہیں پر حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی مقدس سرزمین پر حضرت مریم کی ولادت ہوئی اور پھر ان کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے یہاں تمام انبیا کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی اور یہاں سے ہی معراج کے سفر پر تشریف لے گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہیں پر ایک پتھر میں سوراخ کرکے آسمانی سواری براق کو باندھا تھا۔ یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا جس کو 'اِسراء‘ کہا جاتا ہے۔ سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی، جس کے اردگرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ ہر بات سننے والا اور ہر چیز دیکھنے والا ہے‘‘۔(آیت:1)
سرزمین فلسطین کا ذکر قرآنِ پاک میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ یہ سات ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم تہذیب ہے اور ایک ایسا خطہ ہے جہاں عیسائیوں‘ یہودیوں اور مسلمانوں‘ سب کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق یہ برکتوں والی زمین ہے مگر یہ خطہ کئی دہائیوں سے میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ آج بیشتر مسلمان اس مقدس سرزمین اور مسجد اقصیٰ‘ جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے‘ جانے سے قاصر ہیں۔ کیا ہم ساری زندگی ان زیارتوں کو دیکھنے کی حسرت ہی کا شکار رہیں گے؟ بطور مسلمان ہر کسی کا انبیاء کرام کی سر زمین دیکھنے کا دل کرتا ہے۔ اس سرزمین کو ارضِ مقدس قرار دیا گیا ہے کیونکہ سب سے زیادہ انبیائے کرام کو یہاں پر ہی مبعوث کیا گیا۔ جہاں یہ خطہ اتنا مقدس اور بابرکت ہے‘ وہیں مسلسل کئی دہائیوں سے جنگ و قتال کا بھی نشانہ بنا ہوا ہے۔ ہمیشہ سے ہی عیسائی اور یہودی اس پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں القدس اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا۔ یہاں مسلم اموی حکمران عبدالملک بن مروان نے 685ء میں قبۃ الصخرہ‘ وہ سنہری گنبد تعمیر کرایا جس کو ''Dome of the Rock‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مسلم عقیدے کے مطابق یہ جس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے وہیں سے آپﷺ کا سفرِ معراج شروع ہوا تھا۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی اس چٹان پر دی تھی جبکہ یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسی چٹان میں تابوتِ سکینہ موجود ہے اور اسی پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل تعمیر کرایا تھا۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں یروشلم فتح ہوا اور مسلم سلطنت کا حصہ بن گیا مگر پھر صلیبی جنگوں میں یہ کچھ عرصہ کے لیے عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا مگر جلد ہی صلاح الدین ایوبی نے اس کو دوبارہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد بھی صلیبی جنگیں ہوتی رہیں لیکن عیسائی اس خطے کو مسلمانوں سے واپس نہیں لے سکے۔ اس کے بعد سلطان سلیم اول نے اس کو خاندانِ عثمانیہ کی سلطنت میں شامل کر لیا اور یہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل ہی یہودیوں کو اس خطے میں بسانے کی سازشیں شروع ہو گئیں اور 1917ء کا اعلانِ بالفور اس کی واضح مثال ہے۔ دیکھا جائے تو اس خطے پر سب سے زیادہ حق فلسطینیوں کا ہے کیونکہ یہ ان کا آبائی مسکن ہے؛ تاہم اب ایک ناجائز ریاست اسرائیل نے فلسطینیوں کے تمام حقوق سلب کر رکھے ہیں۔ صہیونی یہودیوں نے انیسویں صدی میں یہاں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور آہستہ آہستہ پورے خطے پر قبضہ کرلیا۔(جاری)