جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں‘ تمام پارٹیاں اپنے اپنے منشور کی تیاری کے ساتھ سیاسی جوڑتوڑ میں بھی مصروف نظر آتی ہیں۔ کوئی نئے اتحاد بنا رہا ہے تو کوئی سوشل میڈیا سیل کو مضبوط کررہا ہے، کوئی ریلیاں نکال رہا ہے تو کوئی کارنر میٹنگز کا انعقاد کر رہا ہے۔ سیاسی رہنمائوں میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ کہیں پرانے حریف اب حلیف بن چکے ہیں تو کہیں پرانے اتحادی حریفوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اتحاد تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں اور دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں۔ حالیہ مثال پی ڈی ایم کی ہے۔ خوشی خوشی مل بانٹ کر سب پارٹیاں اقتدار کا حصہ رہیں مگر حکومت ختم ہونے کے بعد اب ان میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کبھی دبے دبے تو کبھی اعلانیہ ایک دوسرے پر تنقید ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ‘ دونوں جماعتیں ہی اقتدار میں واپس آنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ویسے کسی ایک پر کیا موقوف‘ الیکشن میں سبھی جماعتیں اسی نیت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالیں گی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے برملا یہ کہا جارہا ہے کہ مستقبل کے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے جبکہ مسلم لیگ نواز کے حلقوں میں ابھی کچھ الجھن پائی جاتی ہے۔ کوئی نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے، کوئی شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم مانتا ہے تو کسی کے لیے اب یہ عہدہ مریم نواز کو سونپنا چاہیے۔ بہرحال یہ فیصلہ پارٹی کے بڑوں نے کرنا ہے۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ اب معاشرے میں موروثی سیاست کے حوالے سے خاصی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ پارٹی کے عہدے خاندان کے اندر باٹنے کا نتیجہ پارٹی کی کمزوری کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے بڑے نام پارٹی سے الگ ہو جاتے ہیں۔ بیٹا‘ بیٹی‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی اور رشتہ داروں کے علاوہ بھی لوگ اچھے لیڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔ صرف خاندان کو ہی عہدے دینا جمہوری روش نہیں۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہو گی وہ ملک میں کیسے جمہوریت لاسکتی ہیں ؟
پہلے پہل مجھے بھی لگ رہا تھا کہ شاید پیپلز پارٹی کو آئندہ اقتدار کے لیے تیار کیا جا رہا ہے مگر جیسے مسلم لیگ (ن) کی راہ ہموار ہو رہی ہے اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ ان کی واقعی ''بات ہو گئی ہے‘‘۔ مسلم لیگ کو اس قسم کی لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے کہ اب یہ تنہا ہی میدان میں موجود ہے اور دوسرا کوئی کھلاڑی موجود نہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اس وقت جیل میں ہیں، ان کی پارٹی کے بہت سے رہنما روپوش ہیں‘ بے شمار کارکنان اور لیڈران بشمول خواتین‘ قید میں ہیں؛ اکثر افراد پارٹی چھوڑ چکے ہیں؛ تاہم مسلم لیگ (ن) اب بھی خوش نظر نہیں آ رہی۔ شاید اس کی فرمائشوں کی لسٹ خاصی لمبی ہے۔ اب نواز شریف صاحب کو سسٹم کا نیا لاڈلا کہا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ایسا اقتدار چاہتی ہے جس میں بہت زیادہ اتحادی بیساکھیاں نہ ہوں۔ بالفرض ان کی امنگوں کے مطابق ان کو اقتدار مل بھی گیا تو آئندہ وزیراعظم کون بنے گا‘ اس کا جواب ڈھونڈنا مشکل ہے۔ حال ہی میں برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں نے جاتی امرا میں مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو بھی (ن) لیگ نے اپنی فتح قرار دیا حالانکہ سفارتکار ایسی ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ غیر ملکی سفیر صرف اسی ایک پارٹی سے نہیں‘ باقی سیاستدانوں سے بھی مل رہے ہیں۔ ملاقاتیں‘ وعدے‘ یقین دہانیاں جو بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ حکومت سازی کا فیصلہ ووٹ سے ہوگا اور ووٹر اس وقت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ جوکچھ گزشتہ دو برس میں ہوا‘ اس نے عوام کو پورے سسٹم سے بہت مایوس کیا ہے۔
تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر الیکشن میں ایک پارٹی کنگز پارٹی کے طور پر سامنے آتی ہے جس کو واضح اکثریت ملتی ہے۔ کبھی کبھی یہ عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے اور کبھی کرشمہ سازوں کے کرشمات سے۔ ہر الیکشن میں ہمارے ہاں دھاندلی کے الزامات بھی لگتے رہے۔ بعض اوقات پولنگ کے وقت نتائج کچھ اور ہوتے ہیں اور نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے۔ اُس وقت سیاسی پنڈت، ووٹرز اور خود امیدواران حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ مگر یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ البتہ اس بار ماضی کے سبھی الیکشن سے ایک منفرد بات یہ ہے کہ اس بار نوجوان نسل کا ایک بڑا طبقہ ووٹر لسٹ میں شامل ہو گیا ہے۔ خواتین بھی اب انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ ان دونوں طبقات کو ناراض کرکے کوئی بھی پارٹی الیکشن میں فتح حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے نئی نسل کی سوچ، ان کے افکار اور ان کی رائے کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ سیاسی عمل اب نوجوانوں اور خواتین کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان میں کچھ سیاسی قوتوں کا وجود صرف ڈیل اور ڈھیل کا مرہونِ منت ہے اگر اس ملک میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ حقیقی طور پر ابھرا تو سب سے پہلے موروثی سیاسی جماعتیں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔ ہمارے ملک کی آبادی پچیس کروڑ سے زائد ہے مگر سیاست پر اجاہ داری صرف چند درجن خاندانوں کی ہے‘ ایسا کیوں ہے؟ تمام شہریوں کو اس میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں ذاتی مراسم پر رشتہ داروں پر مشتمل ہیں جن میں اقربا پروری اور موروثیت عروج پر ہے اور جمہوریت نام کی کوئی چیز ان میں موجود نہیں۔ کچھ ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو کسی قسم کے نظریے سے عاری ہیں اور ہمیشہ اس جماعت کی اتحادی بن جاتی ہیں جو حکومت بنانے جارہی ہو یا جس کے برسراقتدار آنے کا امکان ہو۔ یہ پارٹیاں خوب جانتی ہیں کہ کب کس وقت کس کا ساتھ چھوڑنا ہے اور کب کس کا ساتھ دینا ہے۔
اس وقت یہ خبریں زیرِ گردش ہیں کہ انتخابات میں اصل مقابلہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہو گا۔ اس قسم کی باتیں اور سرویز سے انتخابات سے قبل ہی یہ ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ فلاں پارٹی اب اقتدار میں آنے والی ہے لہٰذا بہت سے سیاستدان، تھنک ٹینکس اور آزاد پنچھی اپنی تمام تر توانائیوں کا رخ اس طرف کر لیتے ہیں۔ ان کاموں کے لیے میڈیا سیلز اور پی آر فرمز کو ہائر کیا جاتا ہے تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ ہوا ہمارے رخ کی طرف چل پڑی ہے اور ہم ہی اگلا الیکشن جیتیں گے؛ تاہم یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تحریک انصاف بھی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر میدان میں موجود ہے اور اس کے بیشتر ووٹرز اور کارکنان اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔ گو کہ کچھ لیڈرز وفاداریاں تبدیل کر چکے یا سیاست کو ہی خیرباد کہہ چکے لیکن عوامی ہمدردی میں نمایاں کمی نہیں آئی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی ایسا کڑا وقت دیکھ چکی ہیں۔ سبھی بڑی پارٹیاں کبھی نہ کبھی زیرعتاب رہی ہیں۔اس وقت تحریک انصاف پر مشکل وقت ہے؛ تاہم ایسی آزمائشوں سے سیاسی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں اور ہمارا سیاسی ماضی اس کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ حتیٰ کہ جن سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں‘ ان کا وجود بھی ختم نہیں کیا جا سکا۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی جماعت ہمیشہ کے لیے کنگز پارٹی نہیں رہتی۔ آہستہ آہستہ اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے کیونکہ طاقت کبھی کسی ایک جگہ پر نہیں رہتی۔ اس لیے سیاسی نظام کو ایسا ہونا چاہیے جو مثبت مقابلے کی فضا ہموار کرے۔ نظام کو طاقتور اور مضبوط ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت پھل پھول سکے۔
اس وقت استحکام پاکستان پارٹی کو آگے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے کسی دور میں (ق) لیگ‘ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں اتاری گئی تھی۔ ایسی مصنوعی پارٹیاں بہت جلد اپنی مقبولیت کھو دیتی ہیں اور ان میں شامل ہونے والے لوگ اپنی راہیں بدل لیتے ہیں۔ اس میں سیاستدانوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ وقتی فائدے کیلئے سیاست کی لمبی دوڑ میں اپنا نقصان نہ کریں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ لوگ رکنیت کا فارم بھر کر استحکام پاکستان پارٹی کو جوائن کرتے؛ تاہم ایسا نہیں ہورہا اور یہ باتیں جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہیں۔ جمہوریت عوام پر مدار کرتی ہے، اگر اس میں سے عوام کو ہی نکال دیا جائے گا تو یہ جمہوریت نہیں کہلا سکتی۔ اس وقت منظورِ نظر جماعتوں کے غبارے میں جس طرح ہوا بھری جا رہی ہے‘ اس پر سنجیدہ طبقات سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے قبل ہی انتخابات کی شفافیت پر آواز اٹھائی جا رہی ہیں۔اس قسم کے اقدامات سے کسی مصنوعی پارٹی کو کنگز پارٹی بنایا جا سکتا ہے یا نہیں‘ اس کا جواب فروری میں مل جائے گا۔