دنیا میں بہت سے ممالک ایٹم کی توانائی کو تسخیر کر چکے ہیں جسے وہ دفاع‘ توانائی‘ طب اور صنعت کے شعبے میں استعمال کر رہے ہیں۔ ایٹم کی توانائی کو تسخیر کرنے والے کچھ ممالک نے اس سے جوہری ہتھیار بھی بنائے ہیں۔ جوہری معاملات کو بہت حساس طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے۔ ذرا سی غلطی بہت بڑی ارضیاتی تباہی لا سکتی ہے۔ 26اپریل 1986ء کو چرنوبل میں ایک ایٹمی پلانٹ اچانک ہونے والے دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں تابکاری پھیل گئی جس سے سب سے پہلے اُس جگہ لگی آگ بجھانے والے فائر فائٹرز متاثر ہوئے۔ کچھ تو فوری طور پر موت کے منہ میں چلے گئے اور جو بچ گئے وہ بعد میں کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ کچھ علاقہ مکین بھی‘ جو اس تابکاری سے متاثر ہوئے‘ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں موجود جانور‘ نباتات اور ماحول کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کے بعد اس علاقے میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا اور یہ علاقہ آج بھی رہائش کے قابل نہیں ہے۔ اُس وقت یہ علاقہ سوویت روس کا حصہ تھا‘ اب یوکرین میں شامل ہے۔
اسی طرح جب 2011ء میں جاپان میں سونامی آیا تو فوکوشیما جوہری پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا اور اُس میں سے تابکاری کا اخراج ہوا ۔ جاپان نے فوری طور پر اس علاقے کو خالی کروالیا تاکہ لوگ تابکاری سے بچ سکیں۔ آج بھی اُن علاقوں میں ہُو کا عالم ہے اور تابکاری کے اثرات مکمل طور پر ختم ہونے میں نصف صدی کا عرصہ درکار ہے۔ عملی طور پر اب تک دو بار اٹیم بم کا استعمال ہوا ہے‘ دونوں بار جاپان کے خلاف۔ چھ اور نو اگست 1945ء کو امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے جس سے وہ تباہی ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ دونوں شہروں میں تقریباً دو لاکھ سے زائد لوگ پلک جھپکتے مارے گئے۔ بچ جانے والوں کی آنے والی کئی نسلیں مختلف بیماریوں میں مبتلا رہیں۔ یہ حملہ معلوم جنگی تاریخ کا خوفناک ترین حملہ تھا۔
وہ سب ممالک جو ایٹمی طاقت بن چکے‘ وہ سبھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ جو ممالک ایٹم بم بنا چکے ہیں ان میں روس‘ امریکہ‘ چین‘ فرانس‘ برطانیہ‘ پاکستان‘ بھارت اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اسرائیل نے اگرچہ ایٹمی طاقت ہونے کا ابھی تک کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ایران کے ایٹمی بم بنانے کی ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ۔ ایٹمی توانائی کا پُرامن استعمال بہت فائدہ مند ہے لیکن اکثر ممالک اسے دفاعی قوت میں اضافے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اگر اسرائیل ایٹمی طاقت حاصل کر سکتا تو ایران کو بھی یہ حق حاصل کہ وہ اپنے دفاع یا معاشرتی ضروریات کیلئے ایٹمی قوت کو بروئے کار لائے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے ساری دنیا کو تحفظات ہیں لیکن شمالی کوریا اور اسرائیل کے معاملے پر سبھی چپ بیٹھے ہیں۔ ایران نے پہلے پہل 1950ء کی دہائی میں پُرامن مقاصد کیلئے جوہری توانائی کا استعمال شروع کیا۔ تب ایران کو امریکی تعاون حاصل تھا تاہم انقلاب کے بعد ایران میں امریکی مدد روک دی گئی۔ نوے کی دہائی سے ایران نے یورینیم کی افزودگی پر کام شروع کیا‘ اس کے ساتھ میزائلوں کی خریداری بھی کی۔ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں زیادہ تر زیر زمین ہی رہیں تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ 2015ء میں ایران نے آئی اے ای اے کو اپنی ایٹمی تنصیبات کی نگرانی کی اجازت دی۔ اسی دوران امریکہ سے ایک جوہری معاہدہ بھی ہوا جسے صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں یکطرفہ طور پر ختم کرکے ایران پر پھر سے پابندیاں عائد کر دیں۔ اس معاہدے کی تنسیخ کے بعد 2021ء میں ایران نے پھر سے یورینیم کی افزودگی کا آغاز کردیا۔ اطلاعات کے مطابق اب تک ایران ساٹھ فیصد سے زائد یورینیم افزدوہ کر چکا جس سے وہ جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ ایران کا ایٹمی سفر بہت کٹھن رہا ہے۔اس دوران اسرائیل کی طرف سے ایران کے کئی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں اردشیر حسین پور‘ مسعود علی‘ ماجد شہر اور مصطفی احمدی روشن شامل ہیں۔
ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کی طویل تاریخ ہے لیکن ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں نے خطے کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کی عسکری اور جوہری قیادت کو نشانہ بنایا۔ علاوہ ازیں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں ایرانی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری‘ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی‘ خاتم الانبیا ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر غلام علی راشد‘ پاسدارانِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ کونشانہ بنایا گیا۔ علاوہ ازیں ایران کے نمایاں جوہری سائنسدانوں کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ایران جوہری طاقت بنے‘ اس لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو 1990ء کی دہائی سے ایران پر چڑھائی کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ فضائی حملوں میں اسرائیل نے تہران کے قریب نطنز جوہری پلانٹ پر حملہ کیا جس سے نطنز میں فیول افزودگی پلانٹ اور بجلی کا نظام تباہ ہو گیا۔ اسرائیل نے فردو اور اصفہان میں بھی ایرانی جوہری مراکز کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جب تک ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو بند نہیں کرے گا یہ حملے جاری رہیں گے۔
کسی بھی ملک کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ ایک افسوسناک امر ہے۔ اگر ان تنصیبات سے تابکاری کا اخراج ہو جاتا تو دنیا کیا کرتی؟ ایران کو ان حملوں سے جزوی طور پرنقصان ہوا لیکن اس کا ایٹمی پروگرام اب بھی فعال ہے۔ اسرائیل کی اس سفاکانہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ہر کسی کو مذمت کرنی چاہیے۔ ایٹمی پلانٹ کو کبھی بھی نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘ یہ نہ صرف ایرانی عوام بلکہ ایران کے پڑوسی ممالک کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ جب چرنوبل میں ایٹمی پلانٹ کی تباہی کا سانحہ ہوا تھا تو تابکاری کے اثرات ہوا کے ذریعے یورپ تک پھیل گئے تھے۔ اسرائیل کے دعووں کے برعکس آئی اے ای اے دنیا کو یہ بتا چکی کہ ایران ایٹم بم بنانے پر کام نہیں کر رہا‘ لیکن ایران اپنے دفاع کیلئے ہائپر سونک‘ کروز اور بیلسٹک میزائل بنارہا ہے۔ اپنے انہی میزائلوں سے ایران نے اسرائیل کو جواب دیا ہے‘جن کے سامنے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ ایران کے جوابی حملوں سے اسرائیل کے شہری خوف کا شکار ہیں اور بنکرز میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایران نے اپنے میزائل حملوں سے اسرائیل میں موساد کے دفتر سمیت اہم مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ ایران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی پر غزہ‘ لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے عوام خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ اسرائیل نے جو مظالم غزہ میں ڈھائے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی‘ لیکن اس ننگی جارحیت کے باوجود مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک غزہ کے معاملہ پر عملی طور پر ابھی تک متحد نہیں ہو سکے۔
انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ چل رہی ہے۔ چین اور بھارت اپنے وار ہیڈز میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس بھی نوے سے زائد جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اور بھارت ہر سال ایک خطیر رقم اپنے دفاعی بجٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ اسرائیل نے 2024ء میں جنگی ساز و سامان پر 146 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے۔ اپنے جدید ہتھیاروں کے زعم میں ہی اسرائیل نے پہلے فلسطین کو نشانہ بنایا اور اب ایران اس کے حملوں کی زد میں ہے ‘ تاہم ایران نے اسرائیل کو بھرپور جواب دیا ہے جس کے بعد اسرائیل امریکہ کو اس جنگ میں براہِ راست شامل کرنا چاہتا ہے‘ لیکن امریکہ کو جنگی فریق بننے کے بجائے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی اور جنگ بندی کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر یہ جنگ پھیل گئی تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی۔