بجٹ میں عوام کیلئے کیا ہے؟

ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بڑی تعداد میں متوسط طقبہ غربت کی سطح سے نیچے چلا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی قوتِ خرید میں تو اضافہ نہیں ہو رہا لیکن مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت عوام پر تو روز نئے ٹیکس لگا رہی ہے لیکن خود اپنے لیے ہر چیز میں اس نے ریلیف رکھا ہوا ہے۔ ہر چیز میں رعایت‘ تنخواہیں زیادہ‘ ٹیکس نہ ہونے کے برابر اور ریاستی وسائل کا استعمال بھی دھڑا دھڑ جاری ہے۔ اگر کوئی تنقید کرے تو اس پر پیکا ایکٹ لگ جاتا ہے۔ پاکستان میں قانون صرف غریبوں کیلئے ہی رہ گیا ہے؟ اشرافیہ پر تو فردِ جرم بھی عائد ہونے والی ہو تو انہیں رعایت مل جاتی ہے۔ قسمت زیادہ اچھی ہو تو کرسیٔ اقتدار بھی مل جاتی ہے۔ اسی لیے ہم ابھی تک ایک فلاحی ریاست نہیں بن پائے۔ چند روز قبل بہاولپور سے خبر آئی کہ دو بزرگ خواتین گھر میں بھوکی پیاسی رہ رہی تھیں‘ جن میں سے ایک فاقوں کے سبب دم توڑ گئی۔ اردگرد کسی کو پتا تک نہیں تھا کہ دو بزرگ خواتین بھوک سے نڈھال ہیں۔ یہاں سوشل سکیورٹی نام کی شے کا وجود تک نہیں۔ محلے داروں سے بھی پہلے یہ حکومت کا فرض ہے‘ جو عوامی خدمت کے مینڈیٹ پر اقتدار سنبھالتی اور پھر عوام سے ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کیا ان ٹیکسوں کے بدلے وہ ان لوگوں کا خیال نہیں رکھ سکتی جو ہمدردی اور مدد کے مستحق ہیں؟ عید پر بھی یہ خبر سننے کو ملی کہ کراچی میں تین نوجوانوں نے گھریلو پریشانیوں اور معاشی تنگدستی کے سبب خودکشی کر لی۔ آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں آتی ہیں۔ اس سال بہت سے لوگ قربانی کا فریضہ انجام دینے سے بھی قاصر رہے کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے وہ جانور نہیں خرید سکتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ قربانی میں حصہ بھی نہیں ڈال پائے۔ نارووال میں ایک بچے نے اپنی جان لے لی کیونکہ عید پر وہ نئے جوتے نہیں لے سکا تھا۔ اس کے غریب والدین کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ عید پر اپنے بچوں کو نئے جوتے اور کپڑے خرید کر دے سکتے۔ بچہ اپنی معصوم خواہش کو رد ہوتے نہیں دیکھ سکا اور اپنے گلے پر چھری پھیر لی۔ جس ملک میں غربت کے یہ حالات ہیں‘ وہاں بجٹ میں عوام کے نہیں بلکہ آئی ایم ایف‘ سرمایہ کاروں‘ آئی پی پیز‘ شوگر مل مالکان‘ صنعت کاروں اور امرا کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس پر افسوس کے علاوہ اور کیا کِیا جا سکتا ہے؟
اس وقت ہر زبان پر یہی سوال ہے کہ بجٹ میں عوام کے لیے کیا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ کچھ خاص نہیں۔ بجٹ کا آدھا حصہ تو قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے گا۔ باقی ماندہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 0.3 فیصد حصہ ہے۔ ترقیاتی کاموں پر اٹھارہ فیصد لگے گا۔ خسارے کے بجٹ میں اخراجات کے لیے مزید قرضے لیے جائیں گے۔ کبھی ان قرضوں سے ہونے والی ترقی تو نظر نہیں آئی لیکن ہم ان کے سود کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہو گئی اور ٹیکس دینے والے عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان میں اصل جمہوری نظام نہیں آتا‘ تب تک معاشی حالات بہتر ہونے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ یہ ملک ایک تجربہ گاہ بنا ہوا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں۔
اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ کبھی گرمی قہر ڈھا دیتی ہے تو کبھی طوفان تباہی مچا دیتے ہیں۔ ترقی کے نام پر درخت کاٹ کر درجہ حرارت زیادہ کر دیا گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ بجٹ میں اس حوالے سے کچھ خاص مختص نہیں کیا گیا۔ جس ملک میں شوگر‘ ہیپاٹائٹس‘ جگر‘ گردے اور دل کی بیماریاں اور کینسر وبا کی طرح پھیل رہے ہوں‘ وہاں وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے محض 14 ارب مختص کرکے حکومت نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ ملک میں اتنی بیماریاں پھیل چکی ہیں کہ اب لوگ علاج کرانے سے قاصر ہیں۔ ان کے پاس دوائی اور علاج کے پیسے نہیں۔ ہسپتالوں کو جدید مشینری اور ادویات کی ضرورت ہے۔ زیادہ عملے اور صفائی کی ضرورت ہے لیکن صحت کے لیے بجٹ ہی نہیں۔ جس ملک میں حکمران اپنا علاج بیرونِ ملک سے کراتے ہوں‘ وہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت ابتر ہی رہے گی۔
بجلی سستی کرنے کا دعویٰ کرکے بجٹ میں سولر پینل پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ پہلے یہ اٹھارہ فیصد تجویز کیا گیا‘ اب دس فیصد کی منظوری دی گئی ہے۔ سارا بوجھ اس وقت تنخواہ دار طبقے پر ہے ۔ بیوائوں سے دس سال بعد شوہر کی پنشن کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ جن خواتین کے شوہر سرکاری اداروں میں ملازم نہیں ہوتے ان کو تو بیوگی کے بعد ویسے بھی کچھ نہیں ملتا۔ نہ ہی بل میں رعایت‘ نہ ٹیکسوں میں چھوٹ‘ نہ مفت علاج یا خریداری میں کوئی رعایت۔ وہ شوہر کی وفات کے بعد خود ہی زمانے کا مقابلہ کرتی ہیں۔ ایک خاتون اگر 35 یا 40 سال کی عمر میں بیوہ ہوتی ہے تو 45 یا 50 برس کی عمر میں اس کو پنشن ملنا بند ہو جائے گی۔ اس وقت خواتین کی اوسط زندگی 70 سال کے لگ بھگ ہے۔ اب باقی عمر وہ کیا کرے گی؟ تمام خواتین نہ تو خودمختار ہوتی ہیں اور نہ ہی گھر سے نکل کر کمانے کی ہمت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ای کامرس اور آن لائن بزنس پر جو ٹیکس لگایا گیا‘ وہ نئے اور سمال بزنس کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ گوگل ڈرائیو‘ ایمازون‘ نیٹ فلیکس اور بیرونِ ملک سے دیگرخریداری اور ڈیجیٹل سروسز پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس لیگی حکومت کے پچھلے دور میں بھی لگا تھا۔ علی بابا سے خریداری پر ڈاکیا مختلف شرح میں ٹیکس تو لے جاتا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کس چیز پر کتنا ٹیکس ہے‘ اور وہ قومی خزانے میں جمع ہوا یا نہیں۔ اب ہر چیز مزید مہنگی ہو گی جبکہ عام آدمی کی قوتِ خرید اب بھی کئی برس پرانی سطح پر ہے۔ سرکاری اداروں میں تو تنخواہیں بڑھ گئیں لیکن پرائیوٹ سیکٹر کیلئے وہی برسوں پرانی تنخواہ‘ نئے خرچے اور مزید ٹیکسوں کا بوجھ۔
ملک کی نصف آبادی کا انحصار بالواسطہ و بلاواسطہ زراعت پر ہے۔ مگر یہ شعبہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت کے جاری کردہ اکنامک سروے کے مطابق ملک میں پانچ بڑی فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی مگر نگران حکومت نے باہر سے گندم درآمد کر کے ملکی کسانوں کو ایسی کھائی میں دھکیلا کہ وہ اب تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکے۔ مکئی‘ گندم‘ کپاس‘ چاول اور گنے کی پیداوار میں 13 فیصد کمی آئی ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں‘ موسمیاتی تبدیلیوں‘ پانی کی کمی‘ بیجوں‘ کھاد اور یوریا کی عدم فراہمی کی وجہ سے کسانوں کا بددل ہوکر اس شعبے سے دور ہونا پاکستان کی فوڈ سکیورٹی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ انتہائی اہم مسائل ہیں مگر کوئی بھی سنجیدگی سے ان کو حل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ آئی ایم ایف کا نام لے کر سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے مگر اشرافیہ کے اپنے خرچے رک نہیں رہے۔ مہنگی گاڑیاں‘ دفاتر کی تزئین وآرائش‘ بیرونی دورے‘ الائونسز‘ یہاں تک کہ وزیراعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کے باغیچے کے لیے بھی اچھی خاصی رقم مختص کی گئی ہے۔ ایک طرف عوام کو کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایما پر مہنگائی ہو رہی‘ اس کی وجہ سے پٹرول‘ بجلی‘ گیس مہنگی ہوئی‘ ہم تو ریلیف دینا چاہتے لیکن اس کی شرائط کی وجہ سے قاصر ہیں۔ تاہم خود حکومت کسی چیز میں بچت نہیں کر رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو بھی ان اقدامات پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ بینکوں کے سیونگ اکائونٹس پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں۔ کہیں سے ریلیف کی کوئی خبر نہیں آ رہی۔ بیشتر لوگوں کے پاس نہ ذاتی گھر ہے‘ نہ سواری۔ بس دو وقت کی روٹی مل جائے اور روزمرہ کے خرچے نکل جائیں‘ ان کی دوڑ دھوپ اسی حد تک ہے۔ یہ بجٹ اشرافیہ نے اشرافیہ کے لیے بنایا ہے‘ اس میں عوام بالخصوص نچلے طبقے کے لیے کچھ خاص نہیں۔ انہیں صبر وشکر سے کام لینا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں