"KMK" (space) message & send to 7575

مستقبل کا نقشہ

میں اپنے تین دوستوں کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ یہ تینوں دوست ملتان کے صحافی ہیں۔ آج کل تین شریف آدمی اکٹھے ہوجائیں تو پانچ چھ منٹ موضوع گھوم پھر کر دہشت گردی ، کرپشن یا مہنگائی سے ہوتا ہوا سیاست اور الیکشن پر آجاتا ہے ،یہاں تو ایک دو نہیں اکٹھے چار صحافی بیٹھے ہوئے تھے ،لہٰذا موضوع گھوم پھر کر سیاست پر آنے کے بجائے براہ راست سیاست پر ہی آیا ہوا تھا۔ ملتان کی سیاست کے حوالے سے حلقوں پر بات ہورہی تھی۔ شجاع آباد کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے کہ وہاں سیاست کم اور منافقت زیادہ ہوتی ہے ،اس لیے کوئی دوست شجاع آباد کے حوالے سے حتمی تو ایک طرف غیرحتمی گفتگو کرنے سے بھی پرہیز کررہا تھا۔ شجاع آباد کے سیاستدانوں کے بارے میں قبلہ شاہ صاحب کا فرمانا ہے کہ یہ سیاست دان صبح وعدہ کسی سے کرتے ہیں، دوپہر کو کھانا کسی اور کے ساتھ کھاتے ہیں، شام کو دعائے خیر تیسرے فریق کے ساتھ کرتے ہیں اور صبح پولنگ پر چوتھے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ شجاع آباد کے شاہ صاحبان یعنی سید جاوید شاہ اینڈ برادران کو دیکھ لیں۔ جنرل پرویز کی جانب سے بارہ اکتوبر کو حکومت کا تختہ الٹے جانے سے کچھ دیر پہلے میاں نواز شریف نے اپنا آخری سیاسی جلسہ شجاع آباد میں سید جاوید علی شاہ ایم این اے کے حلقہ میں کیا تھا ۔ ابھی جلسہ اپنے اختتام کو نہیں پہنچا تھا کہ گڑ بڑ کی خبر میاں صاحب تک پہنچ گئی۔ افراتفری میں روانگی کے باوجود ہونی ہوکر رہی اور میاں صاحب اقتدار سے فارغ ہوگئے۔ سید برادران بعدازاں مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے۔ شامل ہوتے ہوئے اپنا وزن بڑھانے کی خاطر حافظ اقبال خاکوانی کو بھی سبز باغ دکھاکر اپنے ساتھ لے گئے۔ ایک بھائی کو نائب ضلع ناظم بنوایا۔ ایک کو ایم پی اے بنوایا اور خود خیر سے سینیٹر بن گئے۔ حافظ اقبال خاکوانی اس سارے سودے میں صرف خواروخستہ اور ذلیل و رسوا ہوا۔ ہوشیار سید برادران نے اس دوران یوسف رضا گیلانی سے بھی معاملات ٹھیک رکھے اور سید یوسف رضا گیلانی کا چھوٹا بھائی مجتبیٰ گیلانی عرف مجو سائیں جب شجاع آباد سے ایم پی اے کے ضمنی انتخاب کے لیے کھڑا ہوا تو سید جاوید علی شاہ بمعہ برادران مجو سائیں کے دائیں بائیں تھے اور اس کی بھرپور مددکی۔ اب دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوچکے ہیں اور شجاع آباد سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ یہ شجاع آباد کی سیاست کی ایک جھلک تھی اس کے لیے ایک نہیں کئی علیحدہ کالم درکار ہیں۔ انشاء اللہ اس موضوع پر جلد ہی لکھوں گا فی الحال اس سفر کا حال جو تین صحافی دوستوں کے ہمراہ کیا۔ ایک صحافی دوست نے اطلاع دی کہ جاوید ہاشمی ملتان شہر کے حلقہ 149سے امیدوار نہیں ہوگا۔ دوسرے دوست نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے آبائی حلقہ نمبر 148سے امیدوار ہوگا؟۔ پہلا دوست کہنے لگا نہیں! جاوید ہاشمی اگلے انتخابات میں سرے سے حصہ ہی نہیں لے گا۔ وہ الیکشن کی سیاست چھوڑ رہا ہے۔ اب وہ اوپر بیٹھ کر محض نگرانی کرے گا، سرپرستی کرے گا اور اس الیکشن کی بھاگ دوڑ سے محفوظ رہے گا۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے کہا شاید آپ لوگوں کو علم نہیں کہ شہری حلقے سے الیکشن لڑنا جاوید ہاشمی کا خواب تھا۔ دیرینہ خواب! بقول اس کے جب وہ گورنمنٹ کالج ملتان کا صدر منتخب ہوا تھا اس کے دل میں تبھی یہ خواہش ابھری تھی کہ ایک دن وہ ملتان شہر سے الیکشن لڑے گا۔ اس کا آبائی حلقہ یعنی مخدوم رشید والا قومی اسمبلی کا حلقہ نمبر 148کبھی اس کی پہلی ترجیح نہیں رہا ،البتہ مجبوری ضرور رہا ہے۔ مجبوری یہ کہ وہاں موجود گروپ کو بے یارومددگار اور لاوارث نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ رہ گئیں لاہور کی وہ سیٹیں جن پر وہ منتخب ہوتا رہا ہے یاراولپنڈی والی وہ سیٹ جس پر اس نے شیخ رشید کو ہرایا تھا وہ ساری مانگے تانگے کی بلکہ میرے حساب سے خیراتی سیٹیں تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے پاس کوئی ایک اپنا شہری حلقہ ہو، جہاں وہ ہرالیکشن میں خود امیدوار ہو، جہاں لوگوں کو علم ہو کہ جاوید ہاشمی یہاں سے الیکشن لڑے گا۔ ہارجیت سے قطع نظر۔ نتائج سے بالاتر ہوکر۔ بس اسے اور اس کے ووٹروں کو علم ہو کہ وہ یہاں سے الیکشن لڑے گا ۔ پہلا دوست کہنے لگا اب اس کی صحت الیکشن کی بھاگ دوڑ اور دبائو سہنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ میں ہنسا اور کہا اگر وہ الیکشن نہ لڑا تو بہت جلد مر جائے گا۔ اگر وہ گھر بیٹھ گیا تو بستر سے لگ جائے گا۔ وہ ایک ایسی …مچھلی ہے جو الیکشن کے تالاب میں ہی زندہ اور خوش رہ سکتی ہے۔ تم مجھ سے شرط لگالو وہ ملتان شہر کے حلقہ 149سے الیکشن لڑے گا۔ میرا دوست کہنے لگا اس سلسلے میں اس کی معلومات اگرچہ بڑی پکی ہیں مگر بہرحال مجھ سے شرط نہیں لگا سکتا۔ اسی دوران آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ کا ذکر چل پڑا۔ ان آئینی دفعات کی موجودگی اور آئندہ الیکشن میں ان کے سختی سے استعمال کے نتیجے میں ملتان اور گردونواح کے بہت سے امیدواروں کی نااہلیوں پر بات شروع ہوئی تو سب سے پہلا کیس جناب جمشید دستی کا زیر بحث آگیا۔ یہ کیس میرٹ پر بھی پہلے نمبر پر ہی بنتا تھا۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ جمشید دستی دونوں حلقوں سے ضرور الیکشن لڑے گا۔ ایک اپنے حلقے سے اور دوسرا حنا ربانی کھر کے حلقے سے۔ خواہ اسے آزاد حیثیت ہی میں کیوں نہ لڑنا پڑے ،وہ ان دونوں حلقوں سے ہرحال میں الیکشن لڑے گا۔ اگر اسے اس کے لیے پیپلزپارٹی چھوڑنی پڑی تو چھوڑ دے گا۔ میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا جناب آپ کس خیال میں ہیں ؟ اگر نوابزادگان میں تھوڑی سی بھی جان ہوتی تو جمشید دستی کب کا گھر چلا گیا ہوتا۔ نوابزادگان نے نہ تو اس کیس کو سیریس لیا اور نہ ہی وہ اس کی طریقے سے پیروی کرسکے۔ انہوں نے اپنی روایتی سستی اور کاہلی کے ساتھ ساتھ کنجوسی سے بھی کام لیا۔ مفت کے وکیل کیے اور خرچے کے ڈر سے کوئی اچھا پروفیشنل وکیل نہ کیا۔ وگرنہ سپریم کورٹ نے جب نااہلی کی دھمکی دے کر جمشید دستی سے استعفیٰ لیا تھا اس فیصلے میں دولوگ فارغ کیے گئے تھے۔ ایک بورے والے کا نذیر جٹ اور دوسرامظفر گڑھ والا جمشید دستی۔ اس فیصلے میں ڈیڑھ صفحہ جمشید دستی کے خلاف اور آدھا صفحہ نذیر جٹ کے بارے میںتھا۔ نذیر جٹ دوبارہ نااہل ہوگیا اور جمشید دستی اہل قرار پایا۔ سپریم کورٹ نے اس دوران چپ سادھے رکھی اور دستی نے اپنا وقت پورا کرلیا۔ لیکن اگلے الیکشن میں دفعہ باسٹھ تریسٹھ سختی سے لاگو ہوگی۔ جعلی ڈگری کا کیس جمشید دستی پر ثابت شدہ ہے اور اس نے کیس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ورنہ نااہل ہوجاتا ۔اب وہ اگلے الیکشن کے بعد اپنی چلائی جانے والی فری بسوں میں کنڈیکٹری کرے گا۔ یہ صرف دو تین حلقوں کا قصہ ہے۔باقی تقریباً سارے حلقوں کا حال بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ابھی الیکشن میں دو تین ماہ رہتے ہیں۔اس عرصے میں جنوبی پنجاب کا سارا سیاسی نقشہ بمعہ وفاداریوں کی تبدیلیوں کے سامنے آجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں