"KMK" (space) message & send to 7575

پانی اپنا راستہ خود بنالیتا ہے

گیارہ مئی کو انتخابات ہونے کے کیا امکانات ہیں ؟ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے۔ میرے جیسے انتخابات کے بروقت انعقاد کے زبردست حامی بھی اس سلسلے میں صرف اپنی خواہش کا اظہار تو کرسکتے ہیں مگر پورے یقین کے ساتھ دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ہمارا دل ، دماغ اور چھٹی حس یہ کہتی ہے کہ انتخابات بہرحال گیارہ مئی کو ہوں گے مگر غیب کا علم تو صرف خدا کو ہے اور کم ازکم یہ عاجز تو ایسا دعویٰ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کا اندازہ اس کے ذاتی گمان سے بڑھ کر کچھ ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی لمحہ لمحہ تبدیل ہوتی صورت حال میں پاکستان کے سیاسی عمل پر دعوے سے کچھ کہنا حماقت کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ گیارہ مئی میں ابھی تئیس دن باقی ہیں ، دعوے کے ساتھ تو دس مئی کو بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کل کیا ہوگا۔ میں بنیادی طورپر ایک رجائی شخص ہوں۔ پاکستان میں فی الوقت رجائیت کا مستقبل روز بہ روز تاریک ہورہا ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ رجائیت محض طفل تسلی بنتی جارہی ہے اور یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ خامی بن چکی ہے۔ میں اپنی اس خامی سے آگاہ ہوں مگر مطمئن ہوں کہ رجائیت کی یہ خامی بہرطور قنوطیت سے ہزار گنا بہتر ہے۔ روزافزوں پیش قدمی کرتی ہوئی قنوطیت میں رجائیت خوبصورت مستقبل کا خواب اور نااُمیدی کی سیاہ رات میں امید کا روشن چراغ ہے۔ سومجھے گمان نہیں، یقین ہے کہ انتخابات گیارہ مئی کو ہوں گے لیکن یہ کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے خواہش مند دس مئی کو رات گئے تک اپنی مذموم کوششوں میں لگے رہیں گے۔ طاہرالقادری کی آمد اس سلسلے میں پہلا ہلہ تھا۔ پرویز مشرف کی آمد دوسرا حملہ تھا۔ ایک حملہ ناکام ہوچکا ہے۔ دوسرا حملہ بظاہر فیوز ہوچکا مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ پرویز مشرف کیا لینے آیا ہے ؟۔ کیا وہ محض ایم این اے بننے کے لیے پاکستان آیا ہے ؟ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیا وہ دوبارہ صدر پاکستان بننے کے لیے یہاں آیا ہے ؟ ایسا سوچنے والا پاگلوں کا آئی جی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے پرویز مشرف کا خیال ہو کہ وہ یہاں خود اپنی مرضی سے اور برضا ورغبت آیا ہے مگر یہ صرف پرویز مشرف کی سوچ ہوسکتی ہے اور کسی کی سوچ پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ سیانے کوّے کے بارے میں پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ ’’سیا نا کوّا ہمیشہ گندگی پر گرتا ہے۔‘‘ محاورے سے واقف لوگوں سے معذرت کہ میں نے اردو ترجمہ کرتے ہوئے بددیانتی سے کام لیا ہے مگر اسے ادبی مجبوری کے خانے میں رکھ کر دیکھا جائے تو معافی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ سو سیانا کوّ اخود جال میں آکر پھنس گیا ہے۔ چارجگہ سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔ نام ای سی ایل میں ڈالا جاچکا ہے اور سپریم کورٹ میں آرٹیکل 6سے متعلق آئینی تشریح پر کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے مگر اس سے انتخابات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ان حالات میں پرویز مشرف کا ہونا کسی بڑے خطرے کی نشاندہی نہیں کرتا مگر ’’نہ ہونا‘‘ بڑا خطرناک ہے۔ بھیجنے والوں نے انہیں صرف کاغذات نامزدگی داخل کروانے کے لیے نہیں بھجوایا۔ ان کے حساب سے پرویز مشرف ایک ایسا ریموٹ کنٹرول بم ہے جسے ڈرون طیاروں کی طرح بہت دور سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ چک شہزاد کے فارم ہائوس میں بلند وبالا حفاظتی حصار کے پیچھے چھپے ہوئے خوفزدہ ریٹائرڈ جنرل کو شاید اب اپنی حماقت کا احساس ہوگیا ہو مگر اب واپسی اس کے اختیار میں نہیں اور معاملات اس کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ پرویز مشرف کو اس صورت حال کا نہ اندازہ تھا اور نہ امید تھی مگر بھجوانے والے شاید یہی چاہتے تھے۔ کارتوس صرف فائر کرنے کے کام ہی نہیں آتا کبھی کبھار یہ فائر ’’ہینگ فائر‘‘ (HANG FIRE) میں بدل جاتا ہے اور اپنے ساتھ بہت کچھ لے جاتا ہے۔ صحافت میں اب پرندے بہت اہم ہوگئے ہیں اور ہر صحافی کے پاس کوئی نہ کوئی مخبر پرندہ ہے۔ ہرصحافی سے میری مراد ہر بڑا صحافی ہے اور ہر بڑے صحافی سے مراد خوشحال صحافی ہے کیونکہ مخبر پرندے کسی میرے جیسے عام صحافی کو خبردے کر اپنی اور خبر کی وقعت کم نہیں کرنا چاہتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے صحافیوں کو کبھی تو ان پرندوں کا خرچہ وہی کمپنی دیتی ہے جو یہ پرندے انہیں فراہم کرتی ہے اور کبھی ان کے پرندے انہیں خبر کے ساتھ ساتھ خرچہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ اسے محاورے کی زبان میں ’’چپڑی اور دودو‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ میرے جیسے ’’فقرے‘‘ کو وہ چودھری بھکن عطا کردیتا ہے جو احمقانہ دانائی (STUPID WISDOM) کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ چودھری کو اپنی حماقتوں یا دانائیوں کا قطعاً ادراک نہیں ہے۔ وہ ایک سادہ ، کھرا ، منہ پھٹ اور بڑبولا شخص ہے جو اپنے دل کی بات کسی منافقت ، لاگ لپٹ اور رورعایت کے بغیر کسی حدتک سوچے سمجھے بغیر کہہ دیتا ہے۔ سارا دن عا م لوگوں میں آوارہ گردی کرتا ہے اور نچلی سطح تک رائے عامہ سے براہ راست متعلق ہے تاہم بہت سی باتیں محض اپنی ’’ساتویں حس‘‘ کے بل بوتے پر کرتا ہے۔ اس کی یہی ساتویں حس احمقانہ دانائی ہے۔ کل اچانک شاہ جی کے پاس اس سے ملاقات ہوئی تو ملتان کی سیاست پر اپنے ارشاداتِ عالیہ سے محظوظ کررہا تھا۔ میں نے کہا چودھری ملتان کو چھوڑ ، یہاں کی سیاست جوکچھ ہے سب کو نظر آرہی ہے تو پورے پاکستان کی بتا۔ چودھری یکدم میری طرف پلٹا اور کہنے لگا: پوچھ پوچھ !جوپوچھنا ہے پوچھ۔ آج چودھری فل مُوڈ میں ہے۔ میں نے کہا :الیکشن میں کیا بنے گا ؟۔ کہنے لگا :یہ سب کو پتہ ہے کیا بنے گا۔ سب سے بڑی پارٹی بھی سو سے زیادہ سیٹیں نہیں لے گی۔ میں نے کہا :یہ پارٹی کون سی ہے ؟ کہنے لگا :لوٹوں سے اندازہ لگا لو کہ کون سی پارٹی ہوگی۔ یہ جو عادی بھگوڑے ہیں کبھی غلط گھوڑے پر شرط نہیں لگاتے۔ ان کا تجربہ ہم سے اور آپ سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر جوپارٹی ہوگی اس کی ساٹھ کے لگ بھگ سیٹیں ہوں گی۔ مذہبی اور لبرل بلیک میلروں کے پاس کم و بیش وہی پرانی تعداد یعنی دس اور بیس کے لگ بھگ سیٹیں ہوں گی۔ نئی پارٹی پینتیس چالیس سیٹیں لے گی۔ چودھری سکڑ جائیں مگر موجود رہیں گے۔ آزاد امیدواروں کی کافی تعداد اسمبلیوں میں جائے گی۔ پنڈی والوں کے اختیار میں سیٹوں کی تعداد 2008ء سے زیادہ ہوگی۔ پارلیمنٹ انتہائی ناپائیدار ہوگی۔ بڑی پارٹی خوب ذلیل ورسوا ہوگی۔ مولوی کی لاٹری نکلنے کا امکان ہے مگر لاٹری زیادہ دیر چلے گی نہیں۔ مہنگائی ، افراط زر ، محصولات کی کمی، قرضوں کی ادائیگی اور معاشی ابتری کا سارا نزلہ بالآخر جمہوریت پر گرے گا اور …چودھری یہ کہہ کر چپ ہوگیا۔ شاہ جی کہنے لگے :چودھری ! جدھر تیرا اشارہ ہے وہ ممکن نہیں ہے۔ چودھری کہنے لگا تبھی میں چپ ہوگیا ہوں۔ مگر شاہ جی !آپ ایک بات سے تو اتفاق کریں گے کہ پانی اور نظریہ ضرورت اپنا راستہ خود بنالیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں