"KMK" (space) message & send to 7575

ملیامیٹ اندازے

اللہ تعالیٰ عمران کو صحت کاملہ عطا کرے‘ وہ ملک میں تبدیلی کی علامت ہے۔ میں یہ اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اس نے ملک کی سیاست واقعتاً تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ اب الیکشن میں صرف ایک دن باقی ہے۔ ظاہر ہے عمران اب یہ دو دن اس طرح طوفانی دورے، تقریریں، جلسے اور ریلیوں کی قیادت نہیں کر پائے گا جس کا مظاہرہ پچھلے کئی دن سے کررہا تھا۔ عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور الیکشن مہم کا تصور کرنا ہی ایک ناممکن امر تھا مگر اب تحریک انصاف کے نوجوان کارکن ایسا کرکے دکھا رہے ہیں۔ یہ بھی عمران کا کرشمہ ہے۔ ہسپتال میں پڑا ہوا باعزم اور باحوصلہ عمران خان اپنے چاہنے والوں کو پہلے سے کہیں زیادہ گرما بھی رہا ہے اور عزم و حوصلہ بھی دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم اب ایک ا ور جوش اور جذبے کے زور پر جاری ہے۔ اگر الیکشن مہم کے دوران کسی اور پارٹی کے ایسے لیڈر کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آتا جو اپنی پارٹی کا ایک ایسا بنیادی ستون ہو اور اس کے بغیر پارٹی تو ایک طرف پارٹی کا تصور بھی ناممکن ہو تو سارا معاملہ ٹھپ ہو کر رہ جاتا مگر یہ سارا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ اس نے نوجوانوں کو اتنا ’’چارج‘‘ کردیا ہے کہ وہ حوصلہ چھوڑنے کے بجائے زیادہ متحرک ہوگئے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے کارکن‘ میرا مطلب ہے نوجوان کارکن نہ صرف یہ کہ گیارہ مئی کو خود نکلیں گے بلکہ اپنے بزرگوں کو دھکے سے پولنگ اسٹیشنز پر لائیں گے۔ یہ اس تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے جس کا پرچم عمران خان نے بلند کیا ہے۔ لاہوری تو صرف اس بات کو ہی تحریک انصاف کی قبل از انتخاب فتح قرار دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے طفیل 2013ء کے الیکشن کی شکل بن گئی ہے وگرنہ تحریک انصاف نہ ہوتی تو کم از کم پنجاب اور خصوصاً لاہور میں الیکشن نہ ہوتا بلکہ ایک ایسی جنگ کا منظر ہوتا جس میں ایک طرف تو لشکر موجود ہو اور دوسری طرف کچھ بھی نہ ہو۔ یہ عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کی پارٹی کے طفیل میاں صاحبان اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار اپنی الیکشن مہم کے لیے گھر گھر جارہے ہیں اور دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ حمزہ شہباز، مریم نوازشریف اور خود دونوں میاں صاحبان اپنے اپنے حلقے میں ’’ڈور ٹو ڈور‘‘ انتخابی مہم کے لیے مجبور ہوئے ہیں وگرنہ اس سے قبل لوگ ان کی الیکشن مہم چلاتے تھے، کارنرمیٹنگز کرتے تھے، جلسوں کا اہتمام کرتے تھے اور میاں صاحبان گھر گھر جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو عمران خان کی تحریک انصاف لا چکی ہے۔ ملتان میں عمران خان کا جلسہ بلاشبہ ایک بہت بڑا اور کامیاب شو تھا۔ عمران خان کے جلسے سے محض دو دن پہلے اسی مقام پر یعنی ڈویژنل سپورٹس گرائونڈ میں میاں نواز شریف نے جلسہ کیا تھا۔ میاں نوازشریف کے جلسے میں کتنے لوگ تھے۔ یہ ایک فضول بحث ہوگی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جلسہ گاہ میں بارہ ہزار کرسیاں تھیں۔ یہ لوگ غیر جانبدار تھے۔ کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ کرسیوں کی تعداد بیس ہزار تھی۔ یہ میاں صاحب سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔ اب ان دونوں باتوں کی تصدیق کون کرے؟ یہ بات طے ہے کہ ساری کرسیاں نہیں بھری تھیں۔ یعنی اگر زیادہ سے زیادہ والی بات درست مان لیں تو بیس ہزار کرسیاں تھیں۔ اب کرسیاں کس نے گنی ہیں؟ یہ تو اچھا ہوا کہ دونوں جلسے ایک ہی جگہ تھے۔ متوالوں کا کہنا ہے عمران خان کا جلسہ میاں صاحب کے جلسے سے کچھ بڑا تھا۔ غیر جانبداروں کا کہنا ہے کہ عمران کا جلسہ میاں صاحب کے جلسے سے کم از کم دوگنا بڑا تھا۔ اب درمیان میں بھی کچھ فیصلہ کرلیا جائے تو اس بات پر ’’اجماع امت‘‘ پایا جاتا ہے کہ عمران کا جلسہ نسبتاً بڑا نہیں بلکہ بہت بڑا تھا۔ ملتان کی سیاست پر اس جلسے کے منفی یا مثبت اثرات بہت زور دار ہونے تھے۔ ملتانی ’’تھوڑ دلے‘‘یعنی کمزور دل کے لوگ ہیں بلکہ صرف ملتانی ہی کیا ہم پاکستانی اس سلسلے میں اجتماعی طور پر کمزور دل واقع ہوئے ہیں اور کمزور کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے تگڑے کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارا شیوہ ہے۔ اگر چھ مئی کو عمران خان کا جلسہ میاں نوازشریف سے چھوٹا ہوتا تو ملتانیوں نے دل چھوڑ دینا تھا مگراب ملتان والے شیر کے مقابلے میں شیر دل ہیں۔ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب سے اب اتنی سیٹیں لے سکتی ہے جس کی محض چند روز قبل توقع نہیں تھی۔ الیکشن کا دن الیکشن کا ساٹھ فیصد ہوتا ہے۔ اس روز کی غلطیاں سارے نتائج تبدیل کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی ’’بلنڈر‘‘ نہ ہوا تو ملتان کی چھ میں سے چار، خانیوال سے کم از کم ایک، ساہیوال سے ایک، وہاڑی سے شاید دو، لودھراں سے بھی شاید دو، مظفر گڑھ سے ایک ، بھکر سے ایک اور بہاولنگر سے ایک نشست نکالی جاسکتی ہے۔ یہ میرا ہی نہیں اور بہت سے لوگوں کا بھی خیال ہے۔ ایسے لوگوں کا جو عرصے سے یہی کام کررہے ہیں۔ اب تحریک انصاف الیکشن گیم میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر ’’ان‘‘ ہے۔ شاید یہ دوسرے نمبر پر بڑی پارٹی بن جائے۔ تاہم پہلے نمبر پر آنے کے امکانات میرے نزدیک بہت موہوم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر کیا مسلم لیگ ن حکومت بنا پائے گی؟ سو سیٹوں سے حکومتی بنائی جاسکتی ہے؟ کیا مسلم لیگ ن اے این پی، مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم سے معاملات طے کرسکتی ہے؟ کیا میاں نوازشریف الطاف حسین سے ڈیل کرسکتے ہیں اور تا دیر چلا سکتے ہیں؟ کیا فضل الرحمن کو تھوڑے پر راضی کیا جاسکتا ہے؟ ان سب سوالات کا جواب ایک بہت بڑی ’’ناں‘‘ ہے۔ میاں نوازشریف اگر کسی طور حکومت بنا بھی لیں تو کیا اسے زیادہ عرصہ چلا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے اتحادیوں کو زرداری صاحب کی طرح راضی رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا وہ پنڈی والوں کو دیوار سے لگائے بغیر چین سے بیٹھ سکتے ہیں؟ اس بات کا مناسب جواب وہ چار روز قبل خود ہی دے چکے ہیں۔ جب انہوں نے کہا کہ وہ کارگل پر ایک کمیشن بنائیں گے اور اس کی رپورٹ بھارت کو دیں گے یعنی پاک فوج کے خلاف لگائی گئی چارج شیٹ اور کیے گئے ممکنہ فیصلے پر بھارت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ کیا کوئی بھارتی لیڈر ایسا بیان دے سکتا ہے؟ جی نہیں ایسا بیان صرف پاکستان میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قوم اپنے جس لیڈر سے محبت کرتی ہے، ٹوٹ کر کرتی ہے اور اس کی ہر بات پر سجدہ ریز ہونا اپنی وفاداری کا پہلا سبق سمجھ کر یاد رکھتی ہے مگر کیا فوج بحیثیت ایک ادارہ اور سرحدوں کی محافظ کے طور پر اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتی ہے؟ اس کا جواب بھی ہرگز نہیں میں ملتا ہے۔ پنڈی والوں کے پاس پچاس سے زائد سیٹیں ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلانا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ مستقبل کا منظر نامہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت کم از کم اس الیکشن کے بطن سے تو نہیں نکل سکتی۔ ہاں مڈٹرم الیکشن اس کا حل نکال سکتے ہیں کہ منطقی طور پر اور کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ اگلا الیکشن پانچ سال سے کہیں پہلے نظر آرہا ہے اور وہ الیکشن پی ٹی آئی کا ہوگا۔ ابھی وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی اور اسے اپوزیشن میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ ہاں اس دوران زرداری صاحب میاں نوازشریف کو پھر کوئی چکر دے دیں تو میرے سارے اندازے غلط ہوسکتے ہیں۔ زرداری صاحب کے سامنے یہ عاجز کیا چیز ہے۔ وہ کسی کے اندازے بھی غلط کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں