"KMK" (space) message & send to 7575

اُردو شاعری‘ ہجرت اور پھر وہی ہجر

میں لسانیات کا ماہر تو نہیں مگر مجھے ہجر اور ہجرت کے درمیان ایک عجیب سا رشتہ محسوس ہوتا ہے۔ لسانی حوالے سے ہٹ کر،جذبات کے حوالے سے‘ معنوی اعتبار سے اور دونوں الفاظ میں پوشیدہ دکھ کے باعث مجھے ہمیشہ ہی دونوں لفظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے لگتے ہیں۔ اگر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر دیکھیں تو ہجر محض جدائی سے کہیں بڑھ کر ہے اور ہجرت محض نقل مکانی سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ اردو شاعری نے ہجر کو بڑا ’’گلیمر‘‘ عطا کیا ہے۔ اردو شاعری میں ہجر اور جدائی کو ایک مسحور کن حیثیت حاصل ہے۔ اردو شاعری سے اگر ہجر اور جدائی کی کیفیت نکال دی جائے تو سارا دفتر ہی شاید ویران ہوجائے‘ لیکن اس کے برعکس اردو شاعری میں ہجرت کی کیفیت کی جو منظر نگاری اور جذباتی تصویر کشی ہجرت کرنے والے شعرا نے کی ہے اگر وہ نکال دی جائے تو اردو شاعری کا باب ادھورا رہ جائے۔ پاکستان سے ہجرت کر جانے والے شعرا نے جہاں اردو روایتی شاعری کے موضوعات سے ہٹ کر دیار غیر میں شاعری کے کینوس کو بدیسی رنگوں سے پینٹ کیا ہے اور مغرب سے جڑے ہوئے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے وہیں بے وطنی، ہجرت، دیس کی یادیں اور کچھ کھو دینے جیسے موضوعات کو بھی جس خوبصورتی اور شدت سے شاعری میں استعمال کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے اور محض ایک کالم میں اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے مگر یہ عاجز اس موضوع کو صرف کالم میں سمونے کی کوشش کرتے ہوئے بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اسے صرف کالم بنانا ہے تحقیقی مقالہ نہیں بنانا۔ برطانیہ کے ایک شاعر انجم خیالی مرحوم کا ایک شعر ہے ؎ اذاں پہ قید نہیں، بندشِ نماز نہیں ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں بے معنی ہجرت کا ملال، ہجرت کا مفہوم اور مجموعی دکھ‘ صرف دو سطروں میں بیان کرنا صرف شاعری کا کمال ہے۔ اس بار امریکہ کے مشاعروں میں اردو شاعری کے حوالے سے اس موضوع پر غور کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر شاعر اس ملال کا شکار ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا میں ہونے والی اردو شاعری اس موضوع سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں ایک سے ایک باکمال اردو شاعر موجود ہے اور شاعری کو اعتبار بخش رہا ہے۔ امریکہ میں رفیع الدین راز، کرامت گردیزی، مقسط ندیم، حمیرا رحمن، ن۔ م دانش، صبیحہ صبا، خالد عرفان، فیاض الدین صائب، فاروق طراز، عشرت آفرین، کامران ندیم، احمد مبارک، سرفراز ابد، ریحانہ قمر، یونس اعجاز، خالد خواجہ، افضال فردوس، اکرم محمود اور شوکت فہمی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں شاعر ہیں تاہم یہ صرف ایک کالم ہے اورجو یاد آیا لکھ دیا ہے۔ کینیڈا میں اشفاق حسین، ارشد ندیم، نسیم سید، عابد جعفری، ولی عالم شاہین، عرفان ستار، امیر حسین جعفری اور رفیع رضا ہیں۔ جو دیار غیر میں اردو شاعری کا چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں۔ مجھے اس بار پہلی مرتبہ اکرم محمود کی شاعری پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اردو شاعری میں ایک تازہ جھونکے کا احساس تو اپنی جگہ‘ مجھے ملال ہوا کہ میں اس شاعر سے اب تک لاعلم کس طرح تھا؟ اس کی کتاب کا نام ’’چراغ خواب‘‘ تھا اور ایک بار پکڑی تو ختم کیے بغیر چھوڑنے کو دل نہ چاہا۔ ہجرت اور ہجر اکرم محمود کا بھی موضوع ہے اور اس نے اس موضوع کے ساتھ بڑا انصاف کیا ہے۔ اکرم محمود کے چند شعر: ؎ آپ کہاں چلے گئے چشمِ کرم لیے ہوئے دہر میں مجھ سے بڑھ کے بھی کیا کوئی خستہ حال تھا ……… بدن کے ساتھ ادھر روح بھی سلگتی ہے ہوا سے کہیو کہ آئے دلوں کے اندر بھی ……… زمین کا قرض اتاروں گا اور آخر میں اتار دوں گا تمہارے دکھوں کی چادر بھی ……… چمک گئی ہے جو بجلی سی تیز بارش میں نظر میں تیر گیا تیرے گائوں کا رستہ ……… پھر وہی ریگزار ہے پھر وہی انتظار ہے آبِ رواں سے جا ملا خوابِ رواں کا سلسلہ ……… راستہ واپسی کا بھی کوئی ملے گا یا نہیں اب ذرا دیر ہوگئی کاش یہ پہلے سوچتا ……… یہ کس دیار میں کن بستیوں کی یاد آئی کہ جل اٹھے میری پلکوں پہ آنسوئوں کے چراغ دیارِ یار تری بستیاں رہیں آباد خدا کرے رہیں روشن ترے گھروں کے چراغ ……… کسی عکس نو کی امیں رہی میری منتظر نئے ساحلوں کی زمیں رہی میری منتظر جو گیا تو ایسا کہ لوٹ کر نہیں آسکا میرے اپنے گھر کی جبیں رہی میری منتظر میں بکھر گیا کسی رہگزارِ قدیم میں نئے ساحلوں کی زمیں رہی میری منتظر ……… یہ ہجرِ مسلسل کا وظیفہ ہے مری جاں اک ترکِ سکونت ہی تو ہجرت نہیں ہوتی ……… نشانِ بے نشانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں میں ان آنکھوں کا پانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں وہ رنجِ رائیگانی ساتھ لانے سے بھی کیا ہوتا تری اپنی کہانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں سمندر پار کرنا تھا خزانے ساتھ کیا لاتا سو میں لفظ و معانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں نہ تھا ممکن کہ وہ دہلیز اپنے ساتھ لے آتا بزرگوں کی نشانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ بھی بے شمار شعر تھے لیکن وہی کالم کی تنگی کا معاملہ بیچ میں آن پڑا ہے۔ ہزاروں اشعار پر بھاری مقسط ندیم کا ایک شعر: ؎ میرے باپ نے ہجرت کی تھی، میں نے نقل مکانی اس نے اک تاریخ لکھی تھی، میں نے ایک کہانی برادرِ عزیز شوکت فہمی کے چند اشعار: ؎ بس یہ نہیں کہ عرشِ بریں کے نہیں رہے ٹوٹے ہوئے ستارے کہیں کے نہیں رہے اب کیا کریں گے ساری خدائی کو لے کے جب ہم لوگ تھے جہاں کے وہیں کے نہیں رہے ترسے تمام عمر پرندوں کے لمس کو فہمیؔ جو پیڑ اپنی زمیں کے نہیں رہے ……… کہاں کے تھے کہاں رکھا ہوا ہے مگر خوش ہیں جہاں رکھا ہوا ہے اِسے مت کاٹنا تم اِس شجر پر ہمارا آشیاں رکھا ہوا ہے مجھے واپس وہیں جانا ہے فہمیؔ مرا سب کچھ جہاں رکھا ہوا ہے ……… زمیں ہماری ہے نہ بام و در ہمارے ہیں یہ گھر ہمارے کہاں ہیں جو گھر ہمارے ہیں ابھی ہے وقت کہ اُس پار کوچ کر جائیں ہمارے ساتھ ابھی بال و پر ہمارے ہیں ہمارے بچے ہمارے نہیں رہے فہمیؔ ہمیں گمان کہ زیرِ اثر ہمارے ہیں ……… خود ہی اپنی راہیں چن لیں خود ہی کانٹے بوئے بھی پہروں بیٹھ کے ہجرت کی پھر پہروں بیٹھ کے روئے بھی ہجرت کا دکھ ہجر کے راستے سے گزرتا ہے اور اس راستے کا مجھ سے بڑھ کر واقف کون ہوگا: ہجر ہے میرے چار سُو‘ ہجر کے چار سُو خلا میں بھی نہیں میرے قریب تیرا تو خیر ذکر کیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں