"KMK" (space) message & send to 7575

یہ والے حکمران بھی ویسے ہی ہیں

میں ملتان میں محض اس لیے نہیں رہتا کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں، میرا گھر یہاں ہے اور یہاں میرے آبائو اجداد کی قبریں ہیں۔ یہ صرف چند ’’دیگر‘‘ وجوہات تو ہوسکتی ہیں مگر بنیادی وجہ کچھ اور ہے۔ مجھے حد سے زیادہ پھیلے ہوئے شہروں سے باقاعدہ الرجی ہے۔ بے مروت اور خود غرض موسموں سے مجھے نفرت ہے اور دوستوں کے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔ لہٰذا ملتان چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھ سے کئی دوست پوچھتے ہیں کہ میں ملتان میں ہی کیوں ٹکا ہوا ہوں۔ کچھ دوست مالی اعتبار سے خاصی پرکشش اور پیشہ ورانہ حساب سے معقول پیشکش لے کر آتے ہیں مگر میں ملتان چھوڑنے سے یکسر انکار کر دیتا ہوں۔ دوست پوچھتے ہیں کہ ملتان میں رہنے یا اسے نہ چھوڑنے کی کیا وجوہ ہیں۔ میں جواب دیتا ہوں کہ ملتان میں بڑے شہروں والی تقریباً تمام سہولتیں موجود ہیں مگر ابھی بڑے شہروں والی خرابیاں نہیںآئیں۔ یہ بڑے شہروں کی خرابیاں کیا ہیں؟ میں کہتا ہوں‘ بڑے شہروں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ یہ شہر بہت بڑے ہوتے ہیں اور کسی دوست یا عزیز کو ملنے کو دل چاہے تو بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اتنی دور ملنے جائیں یا آج رہنے دیں۔ ملتان میں ایک سرے سے دوسرے تک جانے کے لیے آدھا گھنٹہ بھی نہیں لگتا۔ لوگوں میں مروت ہے، باہمی پیار ہے، امن ہے، سکون ہے، عدم تحفظ کا احساس نہیں ہے، ایک دوسرے کا لحاظ ہے اور پرانی روایات کی پاسداری موجود ہے۔ بھلا یہ سب کچھ اور کہاں میسر ہے؟ اتنی خوبیوں والے شہر کو چھوڑنے کا خیال کسی فاترالعقل کو ہی آسکتا ہے۔ یہ ساری خوبیاں تو وہ ہیں جنہیں ہم Qualitative یعنی غیرمادی مگر زندگی گزارنے کے لیے نہایت ضروری قرار دے سکتے ہیں تاہم یہاں مادی اور مقداری خصوصیات یعنی Quantitative بھی تمام موجود ہیں۔ یونیورسٹی ہے، انجینئرنگ کالج ہے، میڈیکل کالج ہے، اچھے ہسپتال ہیں‘ اعلیٰ سکول ہیں۔ ویسے تو کسی چیز کی کوئی حد نہیں مگر زندگی بلکہ اچھی زندگی گزارنے کے سارے لوازمات موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس افراتفری، بے یقینی، عدم تحفظ اور بھاگ دوڑ سے لبالب دور میں یہاں عزت و آبرو اور سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کی ایسی سہولت میسر ہے جو اب شہروں میں عنقا ہوتی جارہی ہے۔ میں اچھی مالی اور پیشہ ورانہ آفرز کو رد کر دیتا ہوں کہ میں یہ ساری غیر مادی لیکن حقیقی ’’کوالٹی آف لائف‘‘ سے منسلک خوبیوں کو کسی دوسرے شہر میں جا کر پیسے سے نہیں خرید سکتا۔ یہ میرا خیال کچھ دن قبل تک تھا لیکن اب معاملات کچھ مختلف سمت میں جارہے ہیں۔ ملتان اب ویسا نہیں رہا جیسا ہوتا تھا۔ ملتان میں بھتہ خوری کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ اغوا برائے تاوان کا واقعہ کبھی کبھار پیش آتا تھا اور اس کی کچھ اور وجوہ بھی ہوتی تھیں۔ اغوا کنندگان تب بھی علاقہ غیر سے یا کوہ سلیمان کے اردگرد سے آتے تھے مگر شاذو نادر۔ اب صورتحال بہت خراب ہے۔ شہر میںدکانداروں سے بھتہ لیا جارہا ہے۔ ابھی رقم تھوڑی ہے مگر یہ ایک خوفناک ابتدا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ معاملہ ایک دو علاقوں تک محدود تھا اور ایک دو مذہبی انتہا پسند جماعتوں سے وابستگی کے دعویدار دکانداروں سے چندے کے نام پر زبردستی بھتہ لیتے تھے مگر اب یہ معاملہ کافی پھیل گیا ہے۔ ابھی باریش نوجوان صرف پچاس اور سو روپے روزانہ پر اکتفا کررہے ہیں۔ مگر یہ ابتدا ہے۔ ایک دکاندار ملا۔ وہ باقاعدہ رونے کے قریب تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف سو پچاس کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ انا کا ہے جو ہر روز مجروح ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ عزت نفس کا ہے جو روز برباد ہوتی ہے۔ یہ معاملہ تحفظ اور عدم تحفظ کے درمیان فرق کا ہے جو ہر روز ہم پر واضح ہوتا ہے۔ ابھی رقم اتنی ہے جو ہم برداشت کرسکتے ہیں۔ کل کلاں یہ رقم بڑھ جائے گی۔ طلبگاروں کے مطالبات میں اضافہ ہوگا۔ معاملہ برداشت سے نکل کر ناقابل برداشت کی حد تک چلا جائے گا۔ ابھی چندے کے نام پربھتہ لیا جارہاہے۔ پھر کھلے عام بھتے کے نام پر بھتہ لیا جائے گا جو نہیں دے گا اس کو نشانِ عبرت بنایا جائیگا۔ ’’نادہندہ‘‘ کو خود یا اس کے کسی بچے کو اغوا کیا جائے گا۔ معاملات اگر شروع ہی میں کنٹرول نہ کیے جائیں تو حال کراچی جیسا ہوجاتا ہے۔ اغوا برائے تاوان کے واقعات بھی اب شاذو نادر والے حساب سے آگے نکل گئے ہیں۔ ملتان بھی دوسرے بڑے شہروں کی مانند اب اس صنعت میں خود کفالت کی جانب رواںدواں ہے۔ کراچی میں حکومتی کمزوریوں سے پروان چڑھنے والی بھتے اور اغوا برائے تاوان کی صنعت اب پنجاب میں بھی خاصی مضبوط بنیادوں پراستوار ہوچکی ہے۔ لاہور، راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے بلا مبالغہ سینکڑوں شہری جن میں اکثریت کاروباری اصحاب کی ہے علاقہ غیرمیں مقید ہیں اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اغوا کنندگان کو ادائیگی کے منتظر ہیں۔ اکثر واقعات میں صورتحال یہ ہے کہ اغوا کنندگان کے مطالبات مغوی کی حیثیت سے کہیں زیادہ ہیں اور وارثان ادائیگی سے حقیقتاً قاصر ہیں۔ دنوں میں امیر ہونے کی لعنت نے اس صنعت کو خاصا مقبول بنا دیا ہے اور اب اس میں ایک نیا پہلو یہ آیا ہے کہ جس کے دل میں آتا ہے وہ مذہبی انتہا پسندوں کا نام استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کررہا ہے۔ وزیرستان، خیبر، باجوڑ اورمہمند ایجنسی میں پنجاب کے سینکڑوں مغوی کسی حکومتی ایکشن کے منتظر ہیں مگر حکمران فی الوقت میٹروبس کے منصوبوں میں، بلٹ ٹرین کے امکانات میں اور اپنے خیر خواہوں کی خیر خواہی میں مصروف ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نئی حکومت کو معاملات درست کرنے کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے اورتنقید کی توپوں کا رخ ان کی طرف موڑنے سے قبل انہیں ماضی کی خرابیوں کو درست کرنے کے لیے منطقی طور پر درکار وقت دینا چاہیے لیکن کچھ چیزیں فوری توجہ کی متقاضی ہیں مگر ابھی تک یہ پتہ نہیں چل رہا کہ حکومتی ترجیحات کیا ہیں؟ گڈ گورننس ایک ایسا پہلو ہے جو روز اول سے نظر آنا چاہیے مگر صورتحال صرف دگرگوں نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ بھتہ خوروں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اغوا برائے تاوان کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ حالات یہ ہیں کہ روجھان میں چھوٹو ڈکیت نے سرعام کھڑے ہو کر گڈ گورننس کے منہ پر طمانچے مارے ہیں اور جب گڈ گورننس کے دعویداروں کا منہ طمانچوں سے سرخ ہوگیا وہ مغوی پولیس اہلکاروں سمیت جادوئی ٹوپی پہن کر پہلے غائب ہوگیا اورپھر اپنے مطالبات اور اپنی شرائط کی منظوری کے بعد اس نے مغوی پولیس اہلکار واپس کردیے۔ مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ کچے سے پولیس چوکیاں ختم کی جائیں۔ پولیس کی بے عزتی، ناکامی اور نااہلی ساری دنیا پر واضح ہے مگر ڈی پی او رحیم یار خان ابھی تک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک طرف ہمارے پشتون بھائی پنجاب میں قانونی کاروبار میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف علاقہ غیر کے پشتون اغوا برائے تاوان اورکاریں چھیننے کے متوازی کاروبار سے اپنا جی بہلا رہے ہیں۔ چھینی ہوئی یا چوری شدہ کار کی واپسی اب باقاعدہ منظم بنیادوں پر ہورہی ہے۔ تھانے جائیں توانچارج یا محرر پرچہ درج کرنے سے پہلے ایک بار متعلقہ افراد سے رابطے کا مشورہ اور اس کا فون نمبر دیتا ہے۔ کار کی واپسی ایک پوری فلم ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی مگر پہلے حکمرانوں اوراب والوںمیں بظاہر کوئی فرق نہیں نظر آرہا۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کو صرف کاروباری حضرات کی خوشنودی اور مالی مفادات کی نگرانی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ ملتان میں بھتے اور اغوا برائے تاوان کا کاروبار فروغ پا رہا ہے۔ حکمران مغلیہ بادشاہوں جیسے شاہی منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔ امن و امان کی صورتحال تقریباً ویسی ہے جیسی آخری مغلیہ شہنشاہوں کے دور میں تھی۔ اس صورتحال کو تب طوائف الملوکی کہتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اب اسے کس نام سے پکارا جائے مگر حکومت بدلنے کی کوئی نشانی کم از کم عوام کو تو نظر نہیںآرہی۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کی ایک ہی قسم پائی جاتی ہے۔ کسی میں کوئی فرق نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں