"KMK" (space) message & send to 7575

دس روپے کی شرط اور بجلی کی غیر منصفانہ تقسیم

تب میاں نواز شریف ڈیل کرکے جدہ جاچکے تھے۔ مسلم لیگ تقریباً لاوارث بچے کی طرح پریشان حال تھی۔ کمزوردل کے اصحاب ہواکا رخ دیکھ کر دھڑا دھڑ اصحاب ق کی صورت اختیار کررہے تھے۔ میاں صاحب کے موجودہ ممبران اسمبلی میں سے درجنوں ’’وفادار‘‘ تب جنرل پرویز مشرف کے درِدولت پر حاضری دے کر آمریت کے آگے سجدہ ریز ہوچکے تھے۔ میاں صاحب کے ساتھ صرف وہ لوگ رہ گئے تھے جو یا تو واقعتاً ان کے دلی طورپر وفادار اور جانثار تھے یا پھر وہ لوگ مسلم لیگ ن میں رہ گئے تھے جن کو ق لیگ میں داخل ہونے میں کوئی مقامی مجبوری پیش آئی تھی۔ اس مقامی مجبوری میں یا تو ان کا کوئی مقامی مخالف سیاسی دھڑا داخلے میں رکاوٹ بن گیا تھا یا انہیں بوجوہ قبول نہ کیا گیا تھا۔ کچھ لوگ اس دوران گفت وشنید کرتے رہے مگر گومگو کے دوران وقت نکل گیا اور کوئی دوسرا ان سے آگے نکل کر ق لیگ میں شامل ہوگیا۔ جو لوگ میاں صاحب کے ساتھ رہ گئے ان میں تہمینہ دولتانہ بھی تھیں۔ میں کسی ذاتی کام کے سلسلے میں وہاڑی گیا ہوا تھا اور کام سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول میں اپنے وہاڑی کے دوستوں رائو افضل اور شاہد عظیم چودھری کے دفتر میں غلہ منڈی میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں میرا ہم نام صحافی شیخ خالد مسعود آگیا۔ شیخ خالد مسعود نہایت شریف اور عمدہ شخص ہے ۔باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا کہ تہمینہ دولتانہ کا دفتر بھی اسی غلہ منڈی میں ہے ،آپ ان سے مل لیں۔ میں چند دوستوں کے استثنا سے عموماً سیاستدانوں سے ملنے سے کتراتا ہوں۔ شیخ خالد نے اصرار کیا تو میں اس کے ساتھ تہمینہ دولتانہ کے دفتر چلا گیا۔ شدید گرمی میں دفتر کی چھت پر ایک چھوٹے سے کمرے میں تہمینہ دولتانہ موجود تھیں۔ ایک پرانا امریکی ایئرکنڈیشنر نہایت پرشور طریقے سے چل رہا تھا تاہم ٹھنڈک کے اعتبار سے اس کی کارکردگی زبردست تھی۔ اس دور کے حساب سے کافی سیاسی گفتگو ہوئی۔ اس دوران میں نے میاں نواز شریف کی سیاسی غلطیوں کی نشاندہی کی اور میاں نواز شریف کے سیاسی ’’بلنڈرز‘‘ پر روشنی ڈالی۔ تہمینہ دولتانہ نے صفائی پیش کرنے کی کوشش تو کی مگر جب بات نہ بن پائی تو وہ اپنی تازہ تازہ جدہ یاترا کے حوالے سے کہنے لگیں کہ میاں صاحب نے اس سارے واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میں نے ان سے ملاقات کے بعد ان میں واضح تبدیلی محسوس کی ہے۔ میاں صاحب پر اس سارے واقعے کا بہت اثر ہوا ہے اور میں بڑے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس تجربے نے ان کو بہت تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ میں ہنسا اور کہا کہ یہ ساری تبدیلی جذبے کی حدتک ہے۔ جب وہ واپس آئیں گے تو بالکل پہلے کی مانند ہوں گے۔ دل میں کینہ رکھنے والے، ذاتی معاملات پر معاف نہ کرنے والے، اپنی مرضی کرنے والے جمہوری ڈکٹیٹر اور جب وہ واپس آئیں گے تو آپ لوگ ، میرا مطلب ہے ان کے پیچھے جمہوری جدوجہد کرنے والے متوالے جن میں جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور آپ جیسے اور کئی لوگ شامل ہیں دوبارہ پیچھے چلے جائیں گے۔ جاوید ہاشمی کی صدارت دوبارہ شریفوں میں منتقل ہوجائے گی۔ سیاسی وراثت شریف خاندان کی دوسری نسل میں منتقل ہوجائے گی اور آپ سب لوگ اسی طرح پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔ تہمینہ دولتانہ نے میری بات کی پرزور مخالفت کی ۔ میں نے کہا چلیں اس بات پر شرط لگالیتے ہیں۔ کہ جب میاں صاحب آئیں گے تو حقیقی جمہوری قدریں ساتھ لائیں گے یا اسی طرح گھریلو کابینہ سے کام چلائیں گے۔ مسلم لیگ ن کی صدارت جاوید ہاشمی کے پاس ہی رہنے دیں گے یا دوبارہ اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ مزاج میں مغلیہ بادشاہت غالب رہے گی یا جدید جمہوری اقدارپروان چڑھیں گی۔ اداروں کو مضبوط کریں گے یا فتح کرنے کی کوشش کریں گے۔ قواعد وضوابط کی پابندی کریں گے یا انہیں ملیامیٹ کرکے مرضی چلائیں گے۔ اس بات پر شرط لگالیتے ہیں۔ تہمینہ دولتانہ کہنے لگیں کتنے کی شرط لگائیں ؟ میں نے کہا دس روپے کی۔ وہ حیران ہوئیں اور کہنے لگیں صرف دس روپے کی؟ میں نے کہا ہاں صرف دس روپے کی۔ شرط پیسہ کمانے کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ شرط کی رقم اتنی ہونی چاہیے کہ نہ دینے والے کو تکلیف ہو اور نہ ہی لینے والے کو کوئی جھجک محسوس ہو۔ بات ختم ہوگئی۔ برسوں گزرگئے ۔ میاں صاحب واپس آگئے ۔ دوبارہ صدارت سنبھال لی۔ سیاسی وراثت حمزہ اور مریم نواز کو منتقل ہوگئی۔ انیس بیس کے فرق سے وہی کچن کیبنٹ غالب آگئی۔ پسند ناپسند کا ذاتی معیار سب اقدار پر حاوی ہوگیا۔ وزراکی اکثریت حسب سابق جی ٹی روڈ اور لاہور سے آگئی۔ مشیر سیاسی کارکردگی کے بجائے ذاتی تعلقات والے آگئے اور اداروں کی توڑپھوڑ کا وہی عمل شروع ہوگیا ہے۔ حالیہ انتخابات سے کافی عرصہ پہلے ملتان ایئرپورٹ پر تہمینہ دولتانہ سے ملاقات ہوئی تو شرط کے حوالے سے دس روپے مانگے۔ تہمینہ دولتانہ کو وہ ملاقات اور شرط بمشکل یاد دلائی۔ کہنے لگیں دس روپے لے لیں۔ میں نے کہا کیش نہیں چیک لوں گا۔ وہ ہنس کر بولیں ،میں بھی سیاستدان ہوں چیک تو ہرگز نہیں دوں گی۔ وہی سب کچھ دوبارہ ہونے جارہا ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کے بارے میں کیا لکھوں ،برادرم رئوف کلاسرہ بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہے۔ ایل این جی کے لیے پیپراقواعد کو پس پشت ڈالنے کے لیے کاوشیں شروع ہیں اور ایک پسندیدہ کمپنی کو نوازنے کے لیے قاعدے ضابطے پامال کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ پی آئی اے، بجلی کے پیداواری یونٹس، تقسیم کارکمپنیاں ، ریلوے اور دوسرے اداروں کی نجکاری کا پلان بن چکا ہے اور ہرادارے کا مناسب خریدار نہ صرف موجود ہے بلکہ دانت تیز کیے بیٹھا ہے۔ قوم کو فی الوقت بجلی درکار ہے اور حکمران قوم کو بلٹ ٹرین اور میٹروبس کے منصوبوں کی نوید دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی گئی گزری حکومت آئی پی پیزکو دس پندرہ ارب روپے دے کر ہفتے دس دن کے لیے لوڈ شیڈنگ سے قوم کی جان چھڑوادیتی تھی، اب دوسو ساٹھ ارب کی ادائیگی کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں آرہی۔ شنید ہے کہ اس رقم کا بیشتر حصہ اپنے ان پیاروں کو دیا گیا ہے جو پہلے ہی پوری استعداد کے ساتھ اپنے بجلی گھر چلارہے ہیں اور انہیں اتنی ادائیگی نہیں ہوئی جو پہلے سے عدم ادائیگی کے باعث پوری استعداد کے ساتھ اپنے بجلی گھر نہیں چلاپارہے۔ اگر یہ ادائیگی ان یونٹس کو کی جاتی جو عدم ادائیگی کے باعث پوری استعداد پر نہیں چل رہے تو بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا مگر قربانی دینے کے لیے عوام اور مزے کرنے کے لیے دوست احباب ہیں۔ بجلی کی طلب 17300میگاواٹ ہے۔ اس شرح سے شارٹ فال تقریباً اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ اگر بجلی کا شارٹ فال واقعتاً اتنا ہی ہے تو پھر دن کے چوبیس گھنٹوں میں سواچارگھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے۔ مگرصورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور ملتان میں بجلی تقریباً دس گھنٹے غائب رہتی ہے۔ دیہاتوں میں اور بھی براحال ہے اور فیڈروں کی مرمت کے نام پر چھ چھ سات سات گھنٹے بجلی کی بندش ایک علیحدہ ڈرامہ ہے۔ میں گزشتہ روز سے لاہور میں ہوں۔ یہاں فیصل ٹائون میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دن میں محض دو تین گھنٹے ہے اور ملتان میں نو گھنٹے۔ آئین پاکستان تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے مگر حکمران عوام کو بجلی تک برابر فراہم کرنے کے روادار نہیں۔ شوکت گجر کا خیال ہے کہ ملتان والوں کو یہ خصوصی سزا اس لیے دی جارہی ہے کہ انہوں نے شہر کی قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو جتوادیا ہے۔ مجھے شوکت گجر سے اختلاف ہے ۔میراخیال ہے کہ تعمیر وترقی سے لے کر بجلی کی فراہمی تک، جنوبی پنجاب کبھی بھی میاں صاحباں کی ترجیح نہیں رہا۔ ہاں جنوبی پنجاب سے اس خصوصی سلوک پر یاد آیا، اب قومی اور پنجاب اسمبلی دونوں میں میاں صاحب کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اب ان کو ملتان اور بہاولپور کے نام سے دو نئے صوبے بنانے میں کیا امر مانع ہے ؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں