"KMK" (space) message & send to 7575

عیدی، ایوان صدر، حکمران اور اگلی عید

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقتدار کی رونقوں کا تعلق آئینی ترمیمات سے براہ راست جڑا ہوا ہے اور وہ اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایوان صدر میں رونق تبھی ہوتی ہے جب طاقت کا منبع صدر کی ذات ہو وگرنہ ایوان صدر بے رونق ہوجاتا ہے۔ آٹھویں ترمیم کے خالق کی موجودگی میں ایوان صدر مرجع خلائق تھا۔ ایک کہاوت کی طرح کہ ’’دنیا کے راستے روم جاتے ہیں‘‘ اسی طرح اس زمانے میں علما، فضلا، سیاستدان، ادیب، دانشور، اداکار، کاغذی لیڈر، ٹوپی ڈرامے حتیٰ کہ بھانڈ اور میراثی بھی اسلام آباد کی جانب روانہ ہوتے تو ایوان صدر جا کر دم لیتے۔ ایوان صدر میں ہر دن عید کا دن اور ہر رات ’’شب برات‘‘ ہوتی تھی اور عید کے اصل دن کا تو کہنا ہی کیا تھا۔ عید کے دن صدر جنرل ضیا ء الحق اچکن پہن کر، دونوں جیبوں میں سنہری زنجیر پھنسا کر اپنے خوبصورت اور چمکدار مصنوعی دانتوں پر ان سے زیادہ خوبصورت اور مصنوعی مسکراہٹ سجائے ہر خاص و عام کا بڑے تپاک سے استقبال کرتے۔ اس روز وہ اصحاب بھی ایوان صدر میں عزت و تکریم پاتے، جن کو اپنے گھر میں بھی کوئی عید مل کر راضی نہیں ہوتا تھا اور وہ رات ٹی وی کے خبر نامے میں اپنی تصویر گھر والوں کو دکھا کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے اور زوجہ محترمہ کو بتاتے کہ ہیرے کی قدر صرف جوہری جانتا ہے۔ ضرورتمند اس روز ایوان صدر میں جناب صدر کو ملنے کے لیے کم اور ’’عیدی‘‘ وصول کرنے کی غرض سے زیادہ حاضر ہوتے اور صدر ان کو اپنی جیب سے (ہم نے ہمیشہ ان کو ’’اپنی‘‘ جیب سے ہی پیسے نکالتے دیکھا) عیدی عطا فرماتے اور لوگوں کی دعائیں حاصل کرتے۔ ایوان صدر میں عیدی کی تقسیم کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں اور اسے جنرل ضیا ء الحق نے ہی شروع کیا۔ اس سے قبل وہاں صدر صاحب کافی عرصہ قیام پذیر تو رہے مگر تاریخ میں وہاں عید بانٹنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بقول ایک دوست کے، صدر فضل الٰہی آٹھویں ترمیم کے بغیر والے صدر تھے، لہٰذا عیدی بانٹنا تو ایک طرف وہ اپنے وزیراعظم کی بغیر اجازت عیدی وصول بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ غیر تو غیر ان کے اپنے ’’گرائیں‘‘ بھی انہیں ملنے کے لیے خاص طور پر اسلام آباد نہیں آتے تھے، حالانکہ گجرات کچھ اتنا دور بھی نہیں تھا۔ صدر ضیاء الحق کی وفات کے بعد غلام خان اسحاق ایوان صدارت میں رونق افروز ہوئے اور عوام سے عید ملنے کی روایت برقرار رکھی۔ صدر اسحاق نے زندگی کا بیشتر حصہ مالیات اور محصولات سے متعلقہ محکموں میں گزارا تھا اور بچت پر مکمل یقین رکھتے تھے بلکہ بعض بدخواہوں کے نزدیک آپ باقاعدہ کنجوس واقع ہوئے تھے۔غلام اسحق خان عید کی نمازکے بعد ایوان صدر میں ہر خاص و عام سے صرف عید ی ملنے پر اکتفا کرتے تھے۔ جیب سے عید دینا وہ اپنی استطاعت سے زیادہ اور سرکاری خزانے سے عید ی دینا شاید خیانت تصور کرتے تھے۔ کیسے کیسے نابغہ لوگ تھے جو جانے کے بعد یاد آ رہے ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ صدر اسحاق خان کی صاحبزادیوں نے ،جو اپنے والد کو عید ملنے کی غرض سے ایوان صدر آئی تھیں، ایوان صدر کے ملازمین میں عیدی تقسیم کی، جسے بالائی منزل سے غلام اسحق خان نے دیکھ لیا اور ملازمین سے عیدی واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروا دی ۔ممکن ہے راوی نے زیب داستان کے لیے کچھ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہو مگر یہ بات طے ہے کہ وہ فضول خرچی اور اسراف کے قطعاً قائل نہ تھے۔ تاریخ کی کتاب میں درج ہے کہ ایک سائل حضرت امیر معاویہ ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر! میں آپ کا رشتے میں بھائی ہوں اور مالی مشکلات کے باعث آپ سے اعانت کا طلب گار ہوں۔ آپ کا بھائی ہونے کے رشتہ سے میرا آپ پر حق ہے۔ جناب معاویہ ؓ نے کہا کہ مجھے بالکل یاد نہیں پڑتا کہ تم میرے کس رشتے سے بھائی ہو۔ سائل کہنے لگا کہ حضرت آدمؑ کے حوالے سے آپ کا بھائی ہوں۔ امیر معاویہؓ نے اسے قریب بلایا اور جیب سے دس درہم نکال کر اسے دے دیے۔ سائل نے اتنی کم مالی اعانت ملنے پر ایک بار پھر رشتہ داری کا حوالہ دیا تو جناب امیرؓ نے فرمایا کہ جو مل گیا ہے اسے غنیمت جان کہ اگر اسی رشتہ کے حوالے سے دیگر مسلمان بھائیوں نے بھی اپنا حق جتا کر اعانت کا تقاضہ کیا تو سارا خزانہ تقسیم کرنے پر بھی تمہیں اتنی رقم حصے میں نہیں ملے گی ،جتنی اب مل رہی ہے۔ غلام اسحق خان کے بعد ایوان صدر میں آنے والے تہجد گزار صدر جناب فاروق لغاری نے عیدی کی تقسیم کی روایت مکمل طور پر ختم کردی۔ بعض حاسدین کا خیال ہے کہ بحیثیت بلوچ سردار وہ عید ی لینے کے عادی تھے۔ دینا ان کی سرشت میں نہیں تھا اور وہ اس طرح اپنی رعایا کی عادتیں خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہماری نہ تو ان سے کبھی ملاقات ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی جانب سے کبھی کوئی وضاحت آئی تھی ،لہٰذا قارئین جو چاہیں ذاتی نظریہ قائم کرلیں۔ انہیں اس سلسلے میں مکمل آزادی ہے۔ پھر ایوان صدر میں رفیق تارڑ صاحب آگئے۔ وہ آٹھویں ترمیم اور اٹھاون۔ٹو۔بی سے محروم صدر تھے لہٰذا لوگ ان سے اسی معیار کی توقع رکھتے تھے جو وہ صدر فضل الٰہی سے رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کا دور بھی عیدی سے محرومی کا دور تھا۔ صدر رفیق تارڑ کو زبردستی گاڑی میں بٹھا کر رخصت کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو سے صدر بن گئے اور ایوان صدر میں براجمان ہوگئے۔ ان کو اپنی زندگی کافی عزیز تھی اورخودکش حملہ آور ان کو گلے لگانے کے لیے بہت بے تاب تھے۔ لہٰذا وہ عیدی دینا تو ایک طرف رہی عید ملنے سے بھی انکار ی ہوگئے تھے۔ عید کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کا دور صدارت ایوان صدر کے لیے سب سے بے رونق اور خشک تھا۔ جنرل پرویز مشرف بھی تحفے تحائف دینے پر نہیں، لینے پر یقین رکھتے تھے۔ چک شہزاد فارم ہائوس کا پلاٹ، دبئی کا گھر اور لندن کا ایک اپارٹمنٹ تحفوں کا کمال تھا جو انہوں نے قبول فرمائے۔ ایوان صدر کو جس سخی ترین صدر سے پالا پڑا وہ جناب آصف علی زرداری ہیں۔ تاہم آصف علی زرداری صرف عید کے عید یعنی سال بعد سخاوت کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کی سخاوت کے دریا سال کے تین سو پینسٹھ دن جاری و ساری رہتے تھے۔ وہ عید پر سکیورٹی مسائل کے باعث عام تام لوگوں سے ملنے کے قائل نہیں تھے اور دوستوں کو عیدی دے کر ان کی سبکی کروانے اور انہیں سائل بنانے سے گریزاں تھے۔ لہٰذا وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ٹھیکے، مشاورتیں، کنٹریکٹ اور اسی قبیل کے کاروباری فوائد دے کر خوش ہوتے تھے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ انہیں اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا پڑتا تھا بلکہ انہیں فقیر یا سائل بنانے کے بجائے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد دے کر ملکی معیشت میں خود انحصاری کے نظریے کو فروغ دینے کا باعث بنے۔ اب ایوان صدر کے اگلے مکین ممنون حسین ہیں۔ گمان غالب ہے کہ وہ بھی صدر رفیق تارڑ جیسے فرمانبردار، تابعدار اور بے ضرر صدر ہونگے۔ موصوف ایم پی اے ہیں اور کاروباری پس منظر رکھتے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ اگر انہوں نے ایوان صدر میں دوبارہ عیدی دینے کی روایت شروع کی تو وہ صرف انہی سرکاری افسران کو عیدی دیا کریں گے جنہیں وہ صدر بننے سے پہلے ’’عیدی‘‘ دیا کرتے تھے تاہم حکومت عوام میں عیدی تقسیم کرتے ہوئے امیر اور غریب کی تفریق مٹانے پر یقین رکھتی ہے۔ مالی معاملات کی خرابی کے باعث حکومت اس عید پر عیدی تقسیم نہیں کرسکی البتہ عید کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں جو اضافی آمدنی ہوگی اس سے اگلی عید پر عوام کو عیدی دی جائے گی۔ اس اگلی عید سے مراد عیدالاضحی نہیں جو دو ماہ دس دن بعد آرہی ہے۔ اس پر تو قربانی ہوگی۔ تاہم چودھری بھکن کو اس بات پر شک ہے کہ موجودہ حکمران اگلی عیدالفطر پر عیدی تقسیم کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں