"KMK" (space) message & send to 7575

قراقرم ہائی وے پر

خراب و خستہ قراقرم ہائی وے المعروف کے کے ایچ نے جونہی تھاکوٹ پر دائیں موڑ مڑا سامنے شور مچاتا، پھنکارتا اور غراتا ہوا دریائے سندھ تھا۔ دریائے سندھ! شیر دریا۔ چین سے نکلتا مقبوضہ کشمیر سے گزرتا پاکستان سے ہوتا بحیرہ عرب میں جا گرتا دریائے سندھ ایشیا کا ایک اہم دریا ہے جس کی کل لمبائی تین ہزار دو سوکلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ اس ساری لمبائی کا ترانوے فیصد پاکستان ہے۔ چین میں دو فیصد اور بھارت میں اس کا محض پانچ فیصد واقع ہے۔ بھارت اسی پانچ فیصد کے بل پر اس دریا کی ساری صورتحال بدلنا چاہتا ہے۔ دریائے سندھ کا منبع چین کے صوبے تبت میں ہے جہاں سے یہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع لداخ میں داخل ہوتا ہے اور پھر گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا سوات، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گزر کر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے اس دوران شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا سے دریائے نگر، دریائے استور، دریائے دراس، دریائے غذر، دریائے گلگت، دریائے شگر شیوک، دریائے زنسکار، دریائے تنوبل، دریائے کابل، دریائے کرم، دریائے گومل اور دیگر درجنوں چھوٹے چھوٹے دریا اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ پانی کے بہائو کے اعتبار سے دریائے سندھ دنیا کا اکیسواں بڑا اور لمبائی کے اعتبار سے بائیسواں لمبا دریا ہے۔ ہم تھاکوٹ پر دریائے سندھ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے۔ اب یہ دریا رائیکوٹ تک ہمارے ساتھ تھا۔ بچوں کے ساتھ پروگرام بنا کہ چھٹیوں میں سکردو جانا ہے، وہاں سے شگر وادی۔ خپلو، ستپارہ جھیل، کچورا جھیل اور دیوسائی کے میدانوں میں گھومنے کا ارادہ تھا۔ سکردو کے لیے پی آئی اے کی بکنگ کروائی۔ پتہ چلا کہ سکردو کی بکنگ ایک روز پہلے کنفرم ہوتی ہے۔ موسم بے اعتبار ہے اور سکردو کی فلائٹ کسی بھی وقت کینسل ہوجاتی ہے۔ جب میں اسلام آباد پہنچا تو معاملہ ایسا ہی تھا اور گزشتہ دو دن سے سکردو کی فلائٹ کینسل ہو رہی تھی۔ پہلے اسلام آباد سے سکردو بوئنگ طیارہ جاتا تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ صرف دو بوئنگ 737 چالو حالت میں ہیں اور بقیہ تمام بوئنگ 737گرائونڈ ہیں۔ اب سکردو روٹ پر ATR-42 چلتے ہیں اور روزانہ دو پروازیں ہیں۔ جب آج کی پروازیں آپریٹ ہوجاتی ہیں تو اگلے دن کے مسافروں کو ٹکٹ کنفرم کر دیئے جاتے ہیں۔ بصورت دیگر آج کینسل شدہ فلائٹ کے مسافروں کو کل پرواز پر کنفرم کر دیا جاتاہے۔ ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ہماری سیٹیں جس تاریخ کے لیے بک تھیں اس سے دو روز پہلے کی پروازیں کینسل ہوگئی تھیں لہٰذا ہماری بکنگ کنفرم ہونے کے بجائے ہر روز اگلے روز پر شفٹ ہورہی تھی۔ دو روز انتظار کرنے کے بعد مزید اسلام آباد میں بیٹھے رہنے کے بجائے بذریعہ سڑک جانے کا فیصلہ کیا اور روٹ بھی تبدیل کرلیا۔ اب ہمارا پروگرام اسلام آباد سے استور براستہ قراقرم ہائی وے اور پھر وہاں سے سکردو براستہ دیوسائی میدان بنا۔ میں اور کامران گاڑی کا بندوبست کرنے پیرودہائی بس اسٹینڈ چلے گئے۔ پیر ودہائی جا کر پتہ چلا کہ قراقرم ہائی وے پر سفر کرنا اب اس طرح آسان نہیں جیسا کہ ہوتا تھا۔ میں قراقرم ہائی وے پر کئی بار سفر کر چکا ہوں۔ آخری بار شاید پانچ چھ سال پہلے جانا ہوا تھا مگر تب قراقرم ہائی وے کے تھوڑے سے ابتدائی حصے پر سفر کرتے ہوئے مانسہرہ سے گڑھی حبیب اللہ مڑ گئے تھے مگر اس سے پہلے دوبار قراقرم ہائی وے پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک بار 1998ء میں کارگل کے محاذ سے واپس سکردو سے آتے ہوئے قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ سے راولپنڈی تک کا سفر اور اسیّ کی دہائی میں خنجراب تک کا سفر۔ سارا راستہ محفوظ تھا لیکن اب پیر ودھائی جا کر پتہ چلا کہ حالات خراب ہی نہیں کافی خراب ہیں۔ حکومتی رٹ قبائلی علاقوں سے مراجعت کرتی ہوئی اب شہروں اور قصبوں تک آگئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب قبائلی علاقوں میں بھی یہ مشہور تھا کہ ان علاقوں میں پاکستان کا قانون نہیں چلتا تاہم تب بھی یہ بات مسلمہ تھی کہ سڑک پر پاکستانی قانون چلتا تھا۔ اب قراقرم ہائی وے پر بھی ایک لمبا حصہ ہے جہاں معاملات دگرگوں سے آگے کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ جس ویگن والے سے بات کی کہ وہ صبح ہمیں اسلام سے لے کر استور روانہ ہوجائے تو اس نے تکنیکی بنیادوں پر انکار کردیا۔ ویگن والوں کاکہنا تھا کہ صبح اسلام آباد سے روانہ ہونا بے فائدہ ہے۔ اسلام آباد سے بشام کا سفر تقریباً آٹھ گھنٹوں پر مشتمل ہے۔ کسی زمانے میں یہ سفر پانچ چھ گھنٹوں میں طے ہوتا تھا مگراب یہاں بھی معاملہ قومی ترقیٔ معکوس سے منسلک ہے۔ دنیا بھرمیں فاصلے سمٹ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ چند سڑکوں اور موٹر وے کے علاوہ ہر جگہ برا حال ہے۔ قراقرم ہائی وے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس پر سفر کرتے ہوئے کہیں یہ شائبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ ’’ہائی وے‘‘ ہے لیکن اب معاملہ سڑک کی حالت سے زیادہ امن و امان کا ہے۔ بشام اسلام آباد سے تقریباً پونے تین سو کلو کے فاصلے پر ہے اور سوات کا حصہ ہے۔ یہ قراقرم ہائی وے پر محفوظ راستے کا آخری قصبہ ہے۔ یہاں سے لیکر چلاس تک کا سفر اب انتہائی غیر محفوظ تصور ہوتا ہے۔ تمام ویگن ڈرائیور اسی سوا دو سو کلو میٹر والے حصے سے خوفزدہ تھے۔ ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ اگر ہم صبح آٹھ بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے تو بشام تقریباً 4بجے شام پہنچیں گے۔ آگے راستہ بند ہوگا۔ بشام سے آگے جانے کے لیے سڑک صبح 8بجے کے قریب کھلتی ہے۔ ساری رات ٹریفک بشام میں جمع ہوتی رہتی ہے اور صبح 8بجے ایک کانوائے بنایا جاتا ہے۔ ستر، اسی اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ گاڑیاں جن میں پرائیویٹ گاڑیاں، ویگنیں بسیں اور ٹرک شامل ہیں اس طرح روانہ کیے جاتے ہیں کہ اس کانوائے کے آگے پیچھے فوج کی گاڑیاں حفاظت کے لیے موجود ہوتی ہیں اور یہ سارا کانوائے بشام سے صبح 8بجے روانہ ہوتا ہے۔ اگر ہم بشام شام چار بجے کے لگ بھگ پہنچ بھی گئے تو عملی طور پر ہم وہاں سے صبح سات آٹھ بجے سے پہلے آگے روانہ نہیں ہوسکتے۔ ہمیں بچوں کے ساتھ تقریباً پندرہ گھنٹے بشام گزارنے ہونگے اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم رات بشام کے کسی ہوٹل میں گزاریں یا ویگن میں۔ یہ بڑی مایوس کن صورتحال تھی اور اسلام آباد سے روانگی کا مطلب پندرہ گھنٹے کی مزید خواری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس وقت رات کے دس بج چکے تھے۔ جب میں نے اور کامران نے یہ فیصلہ کیا کہ کل صبح کے بجائے آج رات ہی روانہ ہوا جائے۔ اب ایسی گاڑی کی تلاش شروع کی جو ہمیں دو گھنٹوں کے بعد لے کر روانہ ہوجائے۔ اسلام آباد سے استور کا سفر تقریباًاٹھارہ انیس گھنٹوں پر مشتمل تھا اور یہ سفر کسی چھوٹی ویگن میں ایک ڈرائیور کے ساتھ کرنا مشکل بھی تھا اور خطرناک بھی۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد ہمیں ایک چوبیس سیٹوں والی کوسٹر مل گئی۔ داسو کا رہائشی برکت اللہ ہمارا ڈرائیور تھا اور اکرم اس کا ہیلپر ڈرائیور۔ ہم پیر ودھائی سے چک شہزاد روانہ ہوئے تاکہ سامان اکٹھا کیا جاسکے۔ راستے میں بچوں کو فون کیا کہ وہ فوراً تیار ہوجائیں ہمیں دو گھنٹے بعد استور روانہ ہونا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں