"KMK" (space) message & send to 7575

زندگی اللہ کی امانت ہے

میں انتہائی محتاط اعدادوشمار کو مدنظررکھتے ہوئے یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں سے کم از کم پونے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں خودکش حملہ آور بننے کے جراثیم نہ صرف موجود ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی موجود ہیں۔ اس کا اندازہ میں نے سڑکوں پر لگایا ہے۔ ڈرائیور سے لے کر سڑک پار کرنے والے تک ہر شخص کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ گویا خودکشی پر مائل ہے اور اپنے ساتھ اداروں کو بھی لے کرمرنے کا عزم و ارادہ لے کر گھر سے نکلا ہے۔ میں امریکہ میں ہوٹل میں ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا تھا۔ یہ فلم امریکی ہائی ویز پر ٹریفک حادثات سے متعلق تھی۔ یہ تقریباً ایک گھنٹے کی فلم تھی جس میں مختلف حادثات ، ان کے اسباب ، سدباب اور ان پر قابو پانے جیسے اہم معاملات پر ان چیزوں سے متعلق افراد کے انٹرویو اور ماہرانہ آراء شامل تھیں۔ فلم ختم ہونے سے چند منٹ قبل ایک انٹرویو تھا۔ یہ ایک ہائی وے پولیس کا ریٹائرڈ افسر تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ہائی وے پولیس میں چونتیس سال نوکری کرنے کے بعد چند سال قبل ریٹائر ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے چونتیس سالہ سروس کے دوران درجنوں ٹریفک حادثات دیکھے۔ ان میں معمولی سے لیکر بڑے جان لیوا حادثات شامل تھے۔ اس دوران اس نے تباہ شدہ گاڑیوں سے کئی مرنے والوں کی لاشیں بھی نکالیں۔ ایک لمحہ توقف کرنے کے بعد اس نے کہا کہ اس نے ایک بھی لاش ایسی نہیں نکالی جس نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی ہو۔ تمام مرنے والے بلاسیٹ بیلٹ باندھے ڈرائیونگ کررہے تھے۔ میں گزشتہ دس سال سے ہر سال ایک دو ماہ کیلئے برطانیہ جارہا تھا۔ برطانیہ میں دوستوں کے ساتھ سفر کے دوران بڑی پابندی سے سیٹ بیلٹ باندھتا تھا۔ وہاں سیٹ بیلٹ باندھنا آپ کی مرضی پر منحصر نہیں بلکہ قانوناً لازمی ہے۔ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کسی بھی شخص کو سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی صورت میں اچھا خاصا جرمانہ ہوتا ہے‘ اس لیے جرمانے کے ڈر سے ہر شخص سیٹ بیلٹ باندھتا ہے۔ اگریہ مسافر نابالغ ہوتو جرمانہ ڈرائیور کو ہوتا ہے۔ چھوٹا بچہ فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتا۔ شیر خوار بچے ماں کی گود میں نہیں اپنی مخصوص سیٹ میں بٹھا کر سیٹ بیلٹ سے کسے جاتے ہیں ۔ برطانیہ میں گزارے ہوئے ان ایک دو ماہ کے دوران سیٹ بیلٹ باندھنے کی عادت پڑ جاتی تھی جو پاکستان آکر بھی تھوڑا عرصہ جاری رہتی تھی مگر آہستہ آہستہ ایک ڈیڑھ ماہ بعد پھر پاکستانی روٹین میں آجاتا تھا۔ سیٹ بیلٹ باندھنا ایک کار بے کار لگنے لگ جاتا تھا اور آخر کار سیٹ بیلٹ باندھنا ایک مشکل کام لگتا تھا‘ نتیجتاً دوبارہ آزادی سے سیٹ بیلٹ باندھے بنا ڈرائیونگ شروع کردیتا تھا۔ اس روز امریکہ میں اس دستاویزی فلم کے آخر میں ہائی وے پولیس کے اس ریٹائرڈ سارجنٹ نے بتایا کہ اس نے ایک بھی حادثہ شدہ گاڑی سے ایسا مردہ جسم نہیں نکالا جس نے سیٹ بیلٹ باندھی ہو۔ مرنے والے تمام بدنصیب سیٹ بیلٹ باندھے بغیر سفر کررہے تھے۔ پھر وہ کیمرے کی طرف پلٹا اور کہنے لگا سیٹ بیلٹ باندھیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ ٹریفک کے قوانین میں شامل ہے اور قانون کی کتاب میں لکھا ہے۔ آپ سیٹ بیلٹ محض اس لیے باندھیں کہ یہ صرف اور صرف آپ کے فائدے کے لیے ہے۔ سیٹ بیلٹ باندھنے کے پہلے اور آخری ’’Beneficiary‘‘ یعنی فیض یاب ہونے والے آپ خود ہیں۔ میں نے اس دن کے بعد سیٹ بیلٹ ایک مذہبی فریضہ سمجھ کرباندھی ہے۔ جان اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ مگر ہم صبح گھر سے نکلتے وقت طے کر کے چلتے ہیں کہ آج ہر جگہ ہر قسم کا خطرہ مول بھی لینا ہے اور پیدا بھی کرنا ہے۔ موٹروے پر ہم سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں اور موٹروے کے اختتام پر ٹال ٹیکس ادا کرنے کے بعد پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ سیٹ بیلٹ کھولتے ہیں اور ایک اطمینان بھری لمبی سانس لیتے ہیں۔ ہم اپنی حفاظت قانون کی پابندی کے طور پر بادل نخواستہ کرنے پر تو تیار ہیں لیکن اختیار ملنے پر اپنے لیے حفاظت نہیں خطرے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ابھی یہ پڑھے لکھے لوگوں کا حال ہے۔ موٹروے پر سرکار نے سڑک کے دونوں طرف حفاظتی جنگلے لگائے ہیں مگر بے شمار مرتبہ دیکھا ہے کہ دونوں اطراف کے رہنے والے آزادانہ طور پر بلا روک ٹوک جنگلوں میں جگہ بناکر موٹروے کے آر پارآتے جاتے ہیں اور سڑک پار کرتے وقت اپنی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری ڈرائیور پر ڈال دیتے ہیں کہ موٹروے پر ڈرائیونگ کرنے والا ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ سڑک پار کرنے والا اس قسم کی کسی ذمہ داری سے بالاتر ہے۔ وہ سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنے کا بھی روا دار نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ان پونے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے ایک ہے جس کے اندر خودکش حملہ آور بننے کی ساری قدرتی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ملتان میں تین سنگل لین واہیات سے فلائی اوور ہیں۔ ان سنگل لین فلائی اوورز پر کئی حادثات ہوچکے ہیں۔ ان تمام حادثات کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان ’’ ون وے‘‘ فلائی اوورز پر دوسری طرف سے اچانک کوئی موٹرسائیکل والا آجاتا ہے۔ ان میں سے دو فلائی اوور تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی خودکشی پر مائل موٹرسائیکل سوار ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سامنے سے آنے والی تیز رفتار ٹریفک کے مقابل ڈرائیونگ کا خطرہ مول لیتے ہوئے ان فلائی اوورز پر سفر کرے تو اسے اس جان لیوا حرکت کرنے پر فاصلے میں کوئی بچت نہیں ہوتی۔ فلائی اوور کے اوپر سے گزرنے اور نیچے سے درست راستے پر سفر کرنے سے اس کا فاصلہ ایک گز بھی کم نہیں ہوتا۔ فلائی اوورو کے اوپر سے جانے کی صورت میں اسے منزل مقصود کا شارٹ کٹ تو نہیں ملتا البتہ اس کی یہ حرکت اگلے جہان جانے کا شارٹ کٹ ضرور ثابت ہوسکتی ہے۔ میں آٹھ نمبر چونگی پر اترنے والے سنگل لین فلائی اوور سے نیچے آرہا تھا کہ دیکھا ایک بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین کا ڈلیوری والا لڑکا موٹرسائیکل پر اوپر آرہا ہے۔ میں نے گاڑی اس کے سامنے لاکر اس کا راستہ بند کردیا اور اسے کہا کہ وہ واپس جائے اور نیچے سے گزرے۔ وہ اوپر جانے پر بضد تھا۔ میں نے اسے کہا کہ نہ تو یہ شارٹ کٹ ہے اور نہ ہی محفوظ۔ ابھی تمہیں مزید آدھا کلو میٹر سامنے سے آنے والی تیز رفتار ٹریفک‘ جو تمہارے اس طرف سے آنے کی کسی بھی امکانی حالت سے پوری طرح لاعلم ہے‘ تمہاری زندگی کے لیے خطرناک ہے مگر وہ پھر بھی بضد تھا کہ اوپر سے جائے گا۔ جب میں نے اسے یہ کہا کہ میں تمہارے ریسٹورنٹ فون کرتا ہوں تو وہ بادل نخواستہ نیچے چلا گیا مگر جن نظروں سے اس نے مجھے دیکھا ان میں سوائے نفرت کے اور کچھ نہیں تھا اور میرا مقصد صرف اور صرف اس نوجوان کی خیریت تھی جس کے گھر میں اس کی ماں اس کی بحفاظت واپسی کی منتظر تھی۔ گزشتہ عید سے اگلے دن میں کسی عزیز کی تیمارداری کے لیے نشتر ہسپتال گیا تو ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ کل سے ایمرجنسی میں موٹرسائیکل کے حادثات کے درجنوں کیس آچکے ہیں اور ان میں سے نوے فیصد وہ نوجوان ہیں جو ون ویلنگ یا تیز رفتاری کے باعث وہاں پہنچے تھے۔ ان میں سے دس بارہ نوجوان سر کی چوٹ کا شکار ہوئے تھے اور ایک دو کے علاوہ کسی کے بچنے کے امکانات بڑے موہوم تھے ۔ بچوں کو ہم ساٹھ ہزار کی موٹرسائیکل تو لے دیتے ہیں مگر ڈیڑھ ہزار کا ہیلمٹ نہیں لے کردیتے۔ ہیلمٹ کے بغیر سڑک پر گرنے کا مطلب ایسا ہی ہے گویا کہ ہم نے بلندی سے کسی انڈے کو فرش پر پھینک دیا ہے۔ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ ، صرف ان دو حفاظتی اقدامات سے ہر سال سینکڑوں نہیں ہزاروں قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے سیمینار کا انعقاد خوش کن ابتدا ہے مگر اس کام کو یہیں ختم نہیں ہوجانا چاہیے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے‘ اس کی حفاظت ویسے ہی کی جانی چاہیے جیسی ایمان کے لیے درکار ہے۔ اس کی ابتدا سکولوں اور کالجوں سے کی جانی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کے بارے میں لوگوں کا رویہ تبدیل کیاجائے ۔ اگر رویہ تبدیل ہوگیا تو بات بنے گی۔ محض ضابطے ضابطے بنانے سے نہ تو ذہن کا قیاس ختم ہوتا ہے اور نہ ہی ہمہ وقت خودکشی پر مائل کرنے والے جراثیم مرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں