"KMK" (space) message & send to 7575

شاہ صاحب کی روحانی طاقت

جب 25 مارچ2008ء کو سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو بحیثیت ملتان کے پیدائشی اور رہائشی مجھے صرف خوشی ہی نہیں بلکہ فخر محسوس ہوا تھا۔مجھے خوشی اور فخر اس بات پر تھا کہ ملتان کا بیٹا اقتدار کے بلند ترین منصب پر فائز ہوا ہے۔ یہ صرف میرے لیے ہی نہیں اہل ملتان کے لیے بھی باعثِ عزت اور فخرکا مقام تھا۔ مجھے تب اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ منصب اور عہدہ سید یوسف رضا گیلانی کی صلاحیت اور قابلیت سے کافی اونچی چیز ہے لیکن پھر دل کو تسلی دی کہ ان سے پہلے اس عہدے پر فائز ہونے والے کون سا سارے کے سارے اس عہدے کے قابل تھے۔ ملک عزیز میں جہاں پہلے بہت سے لوگوں کی اس قسم کی لاٹری نکل چکی ہے وہاں اگر سید یوسف رضا گیلانی کی لاٹری نکل آئی ہے تو اس میں حیرانی یا اچنبھے کی کیا بات ہے؟ تاہم یہ خوشی تھوڑے ہی دن رہی اور پھر خوشی تو رخصت ہوئی اورشرمندگی کا دور شروع ہوا جو مسلسل چار سال تک پیچھا کرتا رہا۔ اس دوران پتہ چلا کہ یہ عہدہ ان کی قابلیت اور صلاحیت سے ہی نہیں بلکہ ان کے ظرف سے بھی بڑھ کر تھا۔ پھر مسلسل چار سال تک یہ عاجز ہر جگہ ، ہر مقام اور ہر خطے میں شرمندہ کیاگیا۔ وجۂ شرمندگی سید یوسف رضا سے وابستہ کہانیاں تھیں جن کا موضوع صرف اور صرف کرپشن تھا۔ پاکستان میں عہدہ اور کرپشن تقریباً لازم و ملزوم ہوچکے ہیں اور ہر شخص اپنی استطاعت اور ہمت کے مطابق پیدا گیری کرتا ہے۔آٹے میں نمک کے برابر لوگ باقی رہ گئے ہیں جو اس حمام میں ننگے نہیں ۔ اس حوالے سے اب کرپشن کو رائج الوقت فیشن کی طرح قبول کیاجاچکا ہے ۔ مگر یوسف سائیں نے وزارت عظمیٰ سے وابستہ معیار کا دھڑن تختہ کردیا اور کرپشن کے اس لیول پر جاپہنچے جو ان کے نہ سہی مگر وزارت عظمیٰ کے شایان شان نہ تھا۔اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایسے لوگوں کو ایسے منصب پر فائز کروا دیتا ہے جس کے وہ نہ تو اہل ہوتے ہیں اور نہ اس عہدے کے قابل ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے وہ کسی کو بھی نواز سکتا ہے۔ سمجھدار یوں کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کی گئی اس عنایت پر اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور خود کو اٹھاکر اس عہدے کی آبرو کے مطابق کرلیتے ہیں جبکہ بعض ایسے ناشکرے ہوتے ہیں کہ خود کو اوپر اٹھانے کے بجائے اپنے عہدے کو گھسیٹ کر اور کھینچ کھانچ کر اپنے معیار اور ظرف کے مطابق نیچے گرا دیتے ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ ستائیس ایکڑ موروثی اراضی کے مالک اور اوسط سی سمجھداری رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم بنے تو اس وقت تک وہ اپنی آبائی زمین بیچ چکے تھے اور مالی تنگی کے باعث اپنے گھر کا اڑھائی کنال کا لان بھی فروخت کرچکے تھے۔ پھر ان کی لاٹری نکل آئی‘ وہ وزیراعظم بن گئے اور ان پر اور ان کے پورے خاندان پر ہُن برسنے لگ گیا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ ان کے پورے خاندان نے اس سلسلے میں بڑی بھاگ دوڑ کی، بڑی محنت فرمائی اور حسب استطاعت ہاتھ پائوں مارے۔ ان کے بے شمار ایجنٹ بھی اس خیر سگالی مہم میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے تمام پرانے سپانسروں اور فنانسروں کو کھلی چھوٹ دے دی اور وہ سب اس دھندے میں یوں جُت گئے جیسے ان سے کہا گیا ہو کہ جائو! ضرورتمندوں کو ڈھونڈو‘ اپنا کمیشن اور میرا حصہ پیدا کرو‘ آج کا کام کل پر مت چھوڑو‘ ہر دن کو آخری دن سمجھو اور صرف نقد پر کام کرو‘ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ ملازمتوں ، ٹرانسفروں ، پوسٹنگوں سے لے کر ایفیڈرین تک‘ ہر معاملے میں ملتان کے ان کے خاندان نے اپنا سکہ جمایا اور دھاک بٹھائی۔ ان کے سوا چار سالہ دور حکومت میں اس خاندان نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کو اس طرح بیچا جس طرح سیزن میں تربوز فروخت ہوتے ہیں۔ یعنی سڑک کے کنارے یا تھڑے پر رکھ کر۔ میں نے اپنے ایک دوست سے اس سلسلے میں پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ سارا خاندان یکسوئی سے ایک ہی کام میں مصروف ہے تو جواب دیا کہ اگر آپ کا خرچہ کئی سالوں تک سپانسروں نے اٹھارکھا ہو، الیکشن کا خرچہ انویسٹروں نے کیا ہو‘ ذریعہ آمدنی کوئی نہ ہو اور جائیداد بک رہی ہو‘ ایسے میں وزارت عظمیٰ بھی اگر ذریعہ آمدنی نہ بنے تو مستقبل کا نقشہ نہایت خراب و خستہ نظر آتا ہے۔ تاہم شاہ صاحب کا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا تعلق پیروں کے خاندان سے ہے اور ایک مدت سے ان کے خاندان کا ذریعہ آمدنی مریدوں کی نذر نیاز پر چل رہا ہے۔ فیض دنیاوی ہو یا روحانی ، اس کے عوض نذرانہ لیناگدی نشینوں اور مخدوموں کے نزدیک جائزہی نہیں بلکہ عین جائز ہے۔ شاہ صاحب فرمانے لگے کہ میں خود بھی اسے جائز سمجھتا ہوں اور عرصے سے اسی پر گزارا کررہا ہوں۔ روحانی مشکل حل کرنے پر اگر عوضانہ درست ہے تو دنیاوی مسائل کو حل کرنے پر عوضانہ لینا کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ پھر شاہ صاحب نے مجھے قہر آلود نظروں سے دیکھا اور کہا۔ اوچند پشتوں والے مسلمان! تمہیں روحانیت اور روحانی شخصیات کے مدارج کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی ادراک۔ اسے سمجھنے کے لیے اندرونی روشنی کی ضرورت ہے جس سے تم بالکل محروم ہو۔ میں نے شاہ صاحب کی تنبیہ پر فوراً استغفار پڑھا اور اندر روشنی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی پر شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لیے روحانی شخصیات، گدی نشینوں اور مخدوموں کے بارے میں فاسد خیالات سے تائب ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ پچھلے کئی روز سے ادھر ادھر کے لوگ پھر اس عاجز کو تنگ کررہے ہیں اور گھٹیا سوالات سے پریشان کررہے ہیں۔ ابھی پرسوں امریکہ سے ایک دوست کا فون آیا۔ پوچھنے لگا کہ یہ اوسلو والی کیا بات ہے؟ میں ’’یملا‘‘ بن گیا۔ پھر وہ کہنے لگا وہ ناروے والے کلچر پروگرام کا کیا قصہ ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ میوزک ایکسچینج پروگرام تھا جس میں صرف چار لاکھ چوراسی ہزار روپے کی رقم کا معاملہ ہے جو ناروے والوں نے تھڑدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپس لے لی ہے۔ امریکی دوست کہنے لگا یا تو تمہیں پورے واقعہ کا علم نہیں ہے یا پھر تم تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہو۔ میں نے کہا مجھے علم تو پورے واقعہ کا ہے کہ 2009ء میں ناروے کی حکومت نے اوسلو میں ہونے والے ایک میوزک ایکسچینج پروگرام میں پاکستان کی حکومت کو لوک ورثہ کے ذریعے چار لاکھ چوراسی ہزار روپے کی رقم بھجوائی تاکہ یہاں سے فوک اورصوفی میوزک پرفارم کرنے کے لیے ایک گلوکار اور ایک سازندہ یعنی میوزیشن بھجوایاجائے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بہنوئی ریٹائر میجر معین الاسلام نے‘ جنہیں یوسف رضا نے اپنی سپیکری کے دور میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھرتی کروایا تھا تب تک سیکرٹری کلچر بن چکے تھے‘ گلوکار کی مد میں اپنی اہلیہ اور یوسف رضا گیلانی کی ہمشیرہ نرگس مخدوم کو اور سازندے کی مد میں اپنے بیٹے جواد معین کو اوسلو بھجوا دیا۔حقیقت کا پتہ چلنے پرناروے کی حکومت نے اپنی دی گئی رقم واپس مانگ لی جو لوک ورثہ والوں نے مجبوراً واپس کردی۔ یہ معمولی سی رقم کا چار سالہ پرانا معاملہ ہے جسے تم آج اچھال رہے ہو۔ وہ دوست کہنے لگا اس معاملے کا پتہ ہی ہم لوگوں کو اب چلا ہے۔ یہ رقم کا نہیں اخلاقیات کا معاملہ ہے۔چار لاکھ چوراسی ہزار کا نہیں ملک کی عزت کی معاملہ ہے اور کسی گلوکار یا فنکار کا نہیں سابق وزیراعظم کی بہن، بہنوئی اور بھانجے کا معاملہ ہے۔ میں نے ہیلو ہیلو کہنا شروع کردیا اور کہا کہ آواز نہیں آرہی۔ اصل بات یہ ہے کہ میری ہی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کا بھوت رخصت ہوجانے کے بعد بھی اس عاجز ملتانی کی رسوائی اور شرمندگی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ میں پچھلے چار پانچ دن سے شاہ صاحب کو تلاش کررہا ہوں کہ ان سے اس واقعہ کی روشنی میں روحانی شخصیات کے مدارج بارے نئی معلومات حاصل کرسکوں مگر شاہ صاحب فون ہی نہیں اٹھارہے۔ میں ان کی اس پیش بندی کے باعث ان کی روحانی طاقت کا ضرور قائل ہوگیا ہوں۔ قارئین! اگر شاہ صاحب نے مجھے اس سلسلے میں کوئی مسکت جواب یا شافی دلیل دی تو میں آپ کو بھی آگاہ کردوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں