"KMK" (space) message & send to 7575

سرپرائز

گزشتہ دو دن سے مانچسٹر کے نواحی قصبے آشٹن انڈر لائن میں ہوں ۔ سردی اور سوالات نے کڑا کے نکال دیئے ہیں۔ ملتان سے روانہ ہواتو خالی فل بازو کی شرٹ میں تھا۔ اسلام آباد میں رات کو پہلی بار میرا مطلب ہے اس سیزن میں پہلی بار کوٹ پہنا۔ وہ بھی کاڈرائے کا۔ ہلکا پھلکا سا۔ گزارا چل گیا۔ مانچسٹر ایئر پورٹ پر اسی کوٹ میں نکلا توصرف سامنے سڑک پر کھڑی گاڑی تک جانے میں ٹھنڈی ہوا نے مقامی موسم کی شدت کا احساس دلادیا۔ میں نے ملتان سے چلتے ہوئے مانچسٹر کا درجہ حرارت اور موسم دیکھ لیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 8ڈگری سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت 3ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ میں اپنے ہمراہ اس موسمی شدت کے باوجود زیادہ گرم کپڑے لے کر نہیں گیا تھا کہ میرا انتہائی گرم اوور کوٹ ‘گرم ٹوپی اور ایک عدد جرسی آشٹن کے فلیٹ کی الماری میں پڑی ہوئی تھیں۔ میں سفر میں کم سے کم سامان اٹھانے کا عادی ہوں۔ یہ گرم کپڑے ‘ایک دو پینٹس اور شرٹیں بھی اسی فلیٹ میں پڑی ہوئی ہیں۔
آشٹن انڈر لائن کہنے کو تو قصبہ ہے مگر ایئر پورٹ کے علاوہ تقریباً ہر سہولت موجود ہے۔ ایئر پورٹ بھی محض بیس پچیس میل دور ہے جو یورپ وغیرہ کے حساب سے شہر میں ہی تصور ہوتا ہے۔ کئی سپر مارکیٹس ہیں‘ شاپنگ مال ہیں ‘بس سٹیشن ہے‘ ٹرام چلتی ہے۔ ٹائون سنٹر ہے لیکن پورے برطانیہ کی طرح یہاں بھی دکانیں زیادہ ہیں اور گاہک کم ہیں۔ کرسمس دور ہے مگر تقریباً ہر سٹور پر سیل لگی ہوئی ہے۔ پچھلے تین چار سالوں میں تقریباً ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت میں بے پناہ اضافے نے برطانوی عوام کی قوت خرید کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ گزشتہ برس اتنا برا حال نہیں تھا اس سال تو حد ہو گئی ہے۔ دکانوں کے اندر گاہک تو ایک طرف رہے ٹائون سنٹر میں پڑے بنچوں پر اونگھتے ہوئے بوڑھوں کی تعداد بھی تقریباً نصف ہو چکی ہے؛ حتیٰ کہ زمین پر گری پڑی چیزوں کی مقدار میں کمی کے باعث دانہ دنکہ چننے والے کبوتروں اور چڑیوں کی تعداد بھی معمول سے کم ہے۔ تاہم وہاں موجود پاکستانیوں کے سوالات کی تعداد بڑھ چکی ہے۔
اخبار میں کالم لکھنے کی وجہ سے لوگوں کو پاکستان میں عموماً اور دیار غیر میں خصوصاً یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ اخبار میں لکھنے والوں کو اندر کی باتوں کا پتہ ہوتا ہے۔ ان کے رابطے بااختیار اور صاحب فیصلہ لوگوں سے ہوتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ ہر اخبار نویس‘کالم نگار‘ اینکر اور تجزیہ کار کے پاس ضرور کوئی نہ کوئی چڑیا ہوتی ہے جو اسے اندر کا حال ‘خفیہ باتیں اور مستقبل کی چالیں بتاتی ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اخبار اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق والے ہر شخص کا رابطہ خفیہ ایجنسیوں سے تو لامحالہ ہوتا ہی ہے‘ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں بھی ان کے مخبر موجود ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پختہ یقین کا یہ عالم ہے کہ تردیدی بیانات تو ایک طرف وہ اس عاجز کے حلفیہ بیانات پر بھی یقین نہیں کرتے اور تمام تر تردید کو کسر نفسی یا معاملے کو خفیہ رکھنے کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ نہایت بے یقینی والی نظروں سے گلہ مند انداز میں سر ہلاتے ہیں اور شاکی انداز میں لیتے ہیں کہ آپ بتانا نہیں چاہتے حالانکہ آپ کو تمام باتوں کا پتہ ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میں بھی محض ایک بار تردید کرتا ہوں اگر کوئی یقین نہ کرے تو میں اصرارنہیں کرتا۔ اب اگر کوئی مجھے نہایت باعلم اور باخبر سمجھنے پر مصر ہی ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
پاکستانی قوم بڑی مزیدار قوم ہے۔ دس بارہ نیوز چینلز پر تقریباً آدھا دن ٹاک شوز چلتے ہیں۔ ہر معاملے پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے۔ دور کی کوڑی لائی جاتی ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر انکشاف کیا جاتا ہے اور ہر مخالف کی جی بھر کر بے عزتی کی جاتی ہے مگر عوام کی تشنگی پوری ہونے میں نہیں آتی۔ جہاں بیٹھیں کوئی نہ کوئی سوال‘کوئی نہ کوئی انکوائری اور کسی نہ کسی بات کی تفصیل پوچھی جائے گی۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی پاکستانی بھائیوں کا یہی حال ہے۔ ایئر پورٹ پر بابر اور صابر مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ بمشکل سلام دعا ہوئی۔ ڈراپ لین میں کھڑی گاڑی کے باہر افراتفری میں ہاتھ ملایا اور گلے ملے۔ لشٹم پشٹم سامان گاڑی میں رکھا اور چل پڑے۔ ابھی دس پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ بھی طے نہیں ہواتھا کہ صابر کہنے لگا۔ پاکستان کا کیا حال ہے؟ جواب دیا حسب معمول ہے۔ عمران خان کیسا جا رہا ہے؟میں نے کہا بس گزارا چل رہا ہے۔ ڈرونز کا کیا بن رہا ہے؟ کچھ نہیں بن رہا۔ ڈرون حملے بند ہوں گے یا چلتے رہیں گے؟ پاکستانی طالبان پر بند ہو جائیں گے۔ افغان طالبان اور حقانی گروپ وغیرہ پر ہوتے رہیں گے۔ نواز شریف حکومت 
کتنے دن چلے گی؟۔ میں نے تنگ آ کر کہا کہ میں انہی سوالات سے تنگ آ کر یہاں آیا ہوں۔ اگر آپ نے مزید اسی قسم کی گفتگو کرنی ہے تو مجھے وہ سامنے کھڑی بس پر چڑھا دیں میں خود آپ کے گھر پہنچ جائوں گا۔ وقتی طور پر سوالات کا سلسلہ ختم ہو گیا مگر اس سے مکمل جان نہیں چھوٹی۔گزشتہ دو دنوں سے اسی قسم کے سوالات کی زد میں ہوں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی‘ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے ساتھ موازنہ ‘ یوسف رضا گیلانی کے اغوا شدہ بیٹے کا حال‘ ملتان کے ترقیاتی منصوبوں کا معاملہ‘ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی‘ عمران خان کا سیاسی مستقبل‘ طالبان سے مذاکرات‘ مولوی فضل اللہ کی امارت‘ ڈرون حملوں کے مثبت اور منفی نتائج‘ عدالتی نظام کا مستقبل اور چیف جسٹس کے بعد کی سپریم کورٹ اور جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ۔ غرض موضوعات کا ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور فکر مند پاکستانیوں کے سوالات۔
سوال ہوا کہ کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی واقعتاً ریٹائر ہو رہے ہیں؟۔میں نے کہا کہ کم از کم اس عاجز کو تو یقین ہے کہ وہ جا رہے ہیں۔ کب جا رہے ہیں؟۔ میں نے کہا وقت مقررہ پر۔اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ پر یعنی انتیس نومبر کو۔ آج سے تین دن بعد (یہ کالم چھبیس نومبر کو لکھ رہا ہوں) نیا چیف آف آرمی سٹاف کون ہو گا؟ میں نے کہا مجھے علم نہیں۔ خواہش ضرور ہے کہ جو بھی نیا چیف بنے وہ سنیارٹی پر بنے۔ مگر یہ میری ذاتی خواہش ہے۔ پیشین گوئی نہیں۔ پاکستان میں سارے مارشل لاء ان جنرلوں نے لگائے ہیں جو سنیارٹی سے ہٹ کر لگائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق ساتویں نمبر اور جنرل پرویز مشرف چوتھے نمبر پر تھے۔ دونوں نے‘ میرٹ کی دھجیاں اڑا کر اُنہیں پروموٹ کرنے والوں کو فارغ کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ ‘جنرل جہانگیر کرامت‘جنرل آصف نواز ‘جنرل وحید کاکڑ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی‘یہ سب سنیارٹی پر آئے تھے اور اپنے وقت پر یا قبل از وقت‘واپس گھر چلے گئے۔ خود گھر گئے کسی کو نہیں بھیجا۔ اگر نواز شریف سابقہ تجربات سے‘ اپنے اور دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھتے ہیں تو فائدے میں رہیں گے ورنہ خود ہی بھگتیں گے۔ ایک صاحب پوچھنے لگے آخر نواز شریف نے اب تک جنرل کیانی کے جانشین کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ محض بہتر گھنٹے رہ گئے ہیں مگر ابھی تک کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ میں نے کہا میاں صاحب کا معاملہ بھی بلدیو سنگھ جیسا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ کے اباّ جی چھ ماہ بعد امریکہ سے ہندوستان آئے تو انہیں اپنی بیوی نظر نہ آئی۔ بیٹے سے پوچھنے لگے اوئے بلدیو سنگھا! تیری ماں کیتھے؟ (اوئے بلدیو سنگھ! تمہاری ماں کہاں ہے) بلدیو سنگھ کہنے لگا۔ ماں کا تو دیہانت ہو گیا۔ باپ نے سٹپٹا کر پوچھا کب ہوا؟ بلدیو سنگھ کہنے لگا۔ چار مہینے پہلے ہوا۔ باپ کہنے لگا اوئے بدبختا! تو نے مجھے دسیا کیوں نہیں! بلدیہ سنگھ کہنے لگا باپو! میں نے سوچا کہ جب تم واپس آئو گے تو تمہیں ''سرپرائز‘‘ دوں گا۔ میاں صاحب بھی غالباً سرپرائز دینے کے چکر میں ہیں۔ ایک اور صاحب پوچھنے لگے۔ افتخار چودھری کب ریٹائر ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا بارہ دسمبر کو ۔ پوچھنے لگے ان کا جانشین کون ہے اور کیسا ہے؟ قارئین! آگے ساری گفتگو ''آف دی ریکارڈ‘‘ تھی۔ میں نے سات آٹھ دن بعد آخر پاکستان واپس آنا ہے۔ میرے پاس تو وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں