"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے، کیلنڈر اورحکومتی کارکردگی

دنیا بھر میں حکومتیں ریاست کو چلانے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ریاست کا انتظام و انصرام چلانا،قانون بنانا اور پھر اس پر عمل کروانا‘ ملکی معاملات چلانے کے لیے احکامات جاری کرنا اور عوام سے ان کی پابندی کروانا ، محکموں کے لیے قوانین وضع کرنا اور پھر ان کے مطابق معاملات کو چلانا، یہ سب حکومتی ذمہ داریاں ہیں۔ویسے تو اس کے علاوہ بھی بے شمار فرائض ہیں جو حکومتی کندھوں پر ہوتے ہیں مگر فی الحال معاملہ صرف اور صرف گنتی کی طے شدہ دوچار ذمہ داریوں کا ہے۔
دنیا بھر میں گئی گزری سے گئی گزری حکومت بھی، مثلاً لاطینی امریکہ میں واقع ممالک کی حکومتیں، وسطی افریقہ کی پسماندہ ، خانہ جنگی اور قبائلی قتل و غارت سے تباہ و برباد حکومتیں اور سمندروں میں چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل بے وقعت قسم کی حکومتیں ، سب کی سب آہستہ آہستہ بہتری اور ترقی کی جانب سفر پذیر ہیں۔نظام بہتر ہورہے ہیں۔ حکومتی کارکردگی بہتری کی جانب گامزن ہے۔ قوانین کا نفاذ بہتری کی طرف رواں دواں ہے۔ ادارے مضبوط ہورہے ہیں۔حکومتی رٹ بہتر ہورہی ہے۔ حکومتیں تجربوں سے سیکھ رہی ہیں۔اپنی غلطیوں کی اصلاح کررہی ہیں۔دنیا بھر میں اقوام اور حکومتیں ایک دوسرے سے استفادہ کررہی ہیں۔ایک دوسرے کے تجربوں سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ اپنے نظام میں بہتری کے لیے حکمرانی کے بہترین ماڈلز کو کاپی کررہی ہیں۔دنیا سکڑ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے اور اس قربت نے جہاں کچھ مسائل کھڑے کیے ہیں‘ بے شمار معاملات میں بہتری کارجحان بھی پیدا کیا ہے۔ لوگوں کو یہ پتا چلنا شروع ہوگیا ہے کہ باقی دنیا میں کیا ہورہا ہے؟ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہاں کتنی ترقی ہورہی ہے اور یہاں کیا ہورہا ہے؟ اب کچھ چھپائے نہیں چھپتا۔ دھوکہ دینااور بے وقوف بنانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے معاملات کو کھول دیا ہے۔ حالات و واقعات تصویری شکل میں سب کی دسترس میں ہیں۔ ہر شخص اندازہ ہی نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر دنیا بھر میں ہونے والی ترقی سے اپنے حالات کا موازنہ کرسکتا ہے اور اس موازنے کے نتیجے میں اسے خوشی یا افسوس‘ اطمینان و سکون یا ملال کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صرف دوسرا حصہ مقدر بنتا ہے یعنی افسوس اور ملال۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ افسوس اور ملال سے بھی کچھ بڑھ کر۔
حکومتی رٹ نامی چیز کا کہیں وجود نہیں، سوائے اخباری بیانات کے۔ حکومتی ذمہ داریوں کی بنیادی فہرست بہت ہی مختصر ہے۔اتنی مختصر کہ محض ایک سطر میں لکھی جاسکتی ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کی برابری کی سطح پر حفاظت کی ضمانت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور سکیورٹی یعنی جان و مال تحفظ ۔ بس یہی تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں ۔قانون ، تعلیم ، صحت ، صفائی، عدل و انصاف اور اسی قبیل کی ساری سہولتیں انہیں تین بنیادی سہولتوں کا ضمنی حصہ ہیں اور ان ساری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت عوام سے صرف محاصل لینے کی مجاز ہے۔ تین بنیادی سہولتیں وہ ہیں جو حکومت عوام کو دے گی اور اس کے عوض وہ اپنے عوام سے صرف ٹیکس مانگتی ہے‘ بلکہ ان تین ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور نبھانے کے لیے وہ ٹیکس لیتی ہے۔اسی ٹیکس سے وہ عوام کے لیے سہولتوں کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے۔ گئی گزری سے گئی گزری حکومت بھی ان دونوں معاملات میں یعنی ٹیکس کی وصولی اور عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولتوں میں کسی حد توازن رکھنے کی کوشش کرتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں معاملات روز افزوں خرابی کی طرف مائل ہیں۔ہر روز یہ توازن بگڑتا جارہا ہے اور ملک میں ایک متوازی معیشت نہ صرف قائم ہوچکی ہے بلکہ اس کا حجم روز بروز پھیل رہا ہے۔ حکومت اس خرابی کو بنیادی سطح پر ٹھیک کرنے کے بجائے ''کاسمیٹک ارینج منٹ‘‘ کررہی ہے۔ کالادھن بننے سے روکنے کی بجائے ہر دو چار سال بعد کالے دھن کو سفید کرنے کی پالیسی بنادیتی ہے۔سمگل شدہ گاڑیاں پکڑنے کے بجائے ہر دو چار سال بعد ایمنسٹی سکیم کااعلان کردیتی ہے۔ یار لوگ اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے انتظار میں ہوتے ہیں اور اعلان ہونے پر فائدہ اٹھالیتے ہیں؛ تاہم ہوتا یہ ہے کہ اس دوران ٹیکس دینے والے قانون کی پابندی کرنے والے اور رزقِ حلال کمانے والے اپنے آپ کو احمق اور بے وقوف محسوس کرتے ہیں۔
چلیں اس بارے تو پھر بات کریں گے کہ کالے دھن کو سفید کرنے کی گزشتہ پالیسیوں سے ، سمگل شدہ گاڑیوں کو قانونی شکل دینے کی پالیسیوں سے ملکی معیشت ، حکومتی خزانے اور مجموعی طور پر معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔معاملات یہاں تک آگئے ہیں کہ حکومت کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کون سا کام کیسے کرنا ہے‘ کب کرنا ہے اور کس نے کرنا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہرچیز کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنا ہوا ہے۔ ایک محکمانہ کیلنڈر ہوتا ہے۔ سارے سال کی Activities کو تاریخ وار مرتب کیا جاتا ہے اور پھر اس پر عمل کیاجاتا ہے۔ اب ملک عزیز میں نہ تو یہ کیلنڈر بنانے کا رواج رہا ہے اور نہ ہی اس پر عمل کروانے کا۔ مشہور ہے کہ جب نیل آرمسٹرانگ چاند کے سفر پر تھا تو اس نے اس سفر کے دوران ایک پیغام بھیجا کہ چار دن بعد امریکہ میں ٹیکس ریٹرن جمع کر وانے کی آخری تاریخ ہے۔ میرا کیا بنے گا؟ اسے دوران سفر بھی یہی فکر تھی کہ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا معاملہ کیسے حل ہوگا؟ امریکی حکام سے اس نے اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع کا پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ '' لازمی سروس‘‘ کے زمرے میں اس کی ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی تاریخ میں خصوصی اختیارات کے تحت توسیع کردی جائے گی وہ بے فکر رہے۔ تاہم ہمارے ہاں پوری حکومت اور پورا ملک اس معاملے میں بے فکر ہوچکا ہے۔
پاکستان میں انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر ہوتی ہے۔ کئی عشروں سے اب لوگوں کو مکمل اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ تاریخ صرف ''دل پشوری‘‘ کے لیے دی جاتی ہے۔ میں جب اپنے انکم ٹیکس کے دوستوں کو کہتا ہوں کہ ریٹرن جمع کروانی ہے تو وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ اس تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع ہرحال میں ہوجائے گی؛ لہٰذا ایک مہینہ مزے کرو۔ 31اکتوبر کو مدنظر رکھتے ہوئے عام پاکستانیوں کی طرح 29اکتوبر کو ریٹرن جمع کروانے کی غرض سے ٹیکس ایڈوائزر کو فون کیا تو پتا چلا کہ تاریخ مزید ایک ماہ بڑھا دی گئی ہے‘ اب نئی تاریخ 30نومبر ہوگی۔ میں نے برطانیہ جانا تھا لہٰذا اپنی ٹیکس ریٹرن روانگی سے قبل جمع کروادی۔ پانچ دسمبر کو پاکستان آیا تو پتا چلا کہ اب تاریخ بڑھا کر پندرہ دسمبر کردی گئی ہے۔ پندرہ دسمبر کو حکومت کو پتا چلا کہ آج اتوار ہے۔ پھر ایک روز کی توسیع کرکے سولہ دسمبر کردی گئی۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو تاریخ کا پابند کیاجائے‘ تاریخ گزرنے پر ایکشن لیاجائے‘ حکومت تاریخ بڑھا دیتی ہے۔ 
انکم ٹیکس ریٹرن کی حکومتی تاریخ مذاق بن چکی ہے(باقی قوانین کی مانند)۔ ہر شخص اب ایک بات پر سو فیصد یقین رکھتا ہے کہ تاریخ ایک ماہ تو بڑھ ہی جائے گی؛ تاہم اس سال تو کمال ہوا ہے‘ اڑھائی ماہ بڑھے ہیں۔ اگلے سال سے لوگ اس تاریخ میں کم از کم دو ماہ کا اضافہ ذہن میں رکھ کر ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا پلان بنائیں گے۔
اعدادو شمار کے مطابق اس تین بار تاریخ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت کم ہے۔ ملک میں بنکوں میں جمع کروائی گئی رقوم ، لگژری گاڑیوں کی امپورٹ، کروڑوں روپے والے پلاٹوں کی خرید و فروخت ، فارم ہائوسز اور بڑے بنگلوں کی تعمیر ، غیر ملکی سیرو تفریح ، عمرے اور حج کے وی آئی پی پیکیج اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں آنے جانے والوں کی تعداد کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ملک میں ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے مگر ٹیکس دہندگان کی تعداد ہر سال کم ہورہی ہے۔ریجنل ٹیکس آفس ملتان کے زیرِانتظام علاقے میں تقریباً پچاس پچپن کے لگ بھگ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے حلقہ جات ہیں‘ یعنی ریجنل ٹیکس آفس ملتان کے دائرۂ کار میں پچاس سے زائد ممبرانِ قومی اسمبلی اورسینیٹرز حضرات آتے ہیں۔گزشتہ سال ایک گوشوار مطلوب تھا۔ جب اس گوشوارے کی خاطر جائزہ لیاگیا تو پتا چلا کہ ان ساٹھ کے لگ بھگ ممبران اسمبلی و سینیٹ میں سے تقریباً پانچ لوگ ٹیکس ادا کرتے تھے باقی سب لوگ ٹیکس سے ''بالاتر‘‘ تھے۔جہاں الیکشن پر کروڑوں روپے لگانے والے دو روپے ٹیکس ادا نہ کریں‘ اڑھائی ماہ بڑھانے کے باوجود ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد گزشتہ سال سے کم ہو‘ وہاں معیشت کیسے بہتر ہوسکتی ہے؟ وہاں آئی ایم ایف کی غنڈہ گردی کیوں نہ چلے گی؟ محکمے محکمانہ کیلنڈر، سالانہ ٹارگٹ اور کارکردگی‘ سب کھچ عنقا ہوتی جارہی ہے۔
سالانہ کیلنڈر سے یاد آیا، بہائوالدین زکریا یونیورسٹی والے اس سال اپنے سالانہ کیلنڈر میں موسم سرما کی چھٹیاں ڈالنا بھول گئے۔ جن دنوں چھٹیاں ہوتی ہیں ان دنوں سمسٹر سسٹم کے امتحانات شیڈول کردیے گئے؛ لہٰذا موسم سرما کی چھٹیوں کی چھٹی ہوگئی ہے۔ اللہ توکل چلنے والی بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں صرف یہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ حماقتوں، بدانتظامیوں، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کا ایک سیلابِ عظیم ہے جو اس شاندار ماضی کی حامل یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہائے لیے جارہا ہے۔ لیکن اس پر آئندہ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں