"KMK" (space) message & send to 7575

کنفیوژن

میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے سلسلے میں کافی ای میلز آئیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے میری طبیعت خوب صاف کی۔ مہذب شخص لگتے تھے لہٰذا گالیوں سے پرہیز کیا مگر تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے جتنے لتے لے سکتے تھے لیے۔ ان کا خیال تھا کہ میں لوگوں کو کنفیوز کر رہا ہوں۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ میں خود بھی کنفیوز ہوں۔ یقین کریں ان کی آدھی بات سے تو میں یکسر انکاری ہوں البتہ آدھی بات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جس بات سے میں متفق نہیں ہوں وہ یہ کہ میں خود کنفیوز ہوں۔ میں الحمدللہ بالکل کنفیوز نہیں ہوں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ میں اب بالکل کنفیوز نہیں ہوں۔ میں پہلے ضرور کنفیوز تھا مگر اب نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں یہ سمجھتا تھا اور تب میں بالکل درست سمجھتا تھا کہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ امن کے لیے۔ اس ملک کی بہتری کے لیے۔ ہماری اور آپ کی سلامتی کے لیے۔ امت مسلمہ کی بہتری کے لیے۔ دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے اور سب سے بڑھ کر ناپاک امریکی ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب فریقین یعنی حکومت پاکستان اور تحریک طالبان اس پر راضی ہوں۔ انا اور ہٹ دھرمی کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ مملکت خداداد کی خاطر۔ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خاطر۔ مسجدوں میں شہید ہونے والے نمازیوں کی خاطر۔ بازاروں میں بارود کی نذر ہونے والے بے گناہوں کی خاطر۔ 
میں شرح صدر سے یہ سمجھتا تھا کہ لہولہو ہوتے پاکستان کے لیے۔ دن بدن ناکامی کی طرف سرکتے ہوئے اس ملک کے لیے۔ اللہ کے نام پر حاصل کی گئی اس ریاست کے لیے۔ اس ملک کو ناکام کرنے کی سازشوں میں مصروف دشمنوں کی ناکامی کے لیے۔ بھارت اور امریکہ کے ناپاک منصوبوں کو مٹی 
میں ملانے کے لیے بات چیت کی جائے۔ لیکن بات چیت کے لیے دو امر نہایت ضروری ہیں۔ پہلا خلوص نیت اور دوسرا ماضی کو بھول کر۔ مذاکرات ہمیشہ ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا مداوا کیا جا سکے اور ان غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے حاصل کردہ سبق کو سامنے رکھا جائے۔ اگر ماضی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اور اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ان کو دہرانا اور ان پر اینڈنا ہی شرط اول ہو تو کامیابی کی امید رکھنا سراسر حماقت ہے۔ یہ درست کہ اس سارے عرصے میں حکومت کا طرز عمل خلوص سے خالی تھا اور طالبان کی طرف سے بھی کوئی گرم جوشی نظر نہیں آ رہی تھی مگر مجھے تب بھی یقین تھا۔ حق الیقین کی حد تک کہ نتائج مذاکرات سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور یہی اس سارے مسئلے کا منطقی حل ہے مگر تبھی ایک امریکی چال نے ساری گیم الٹ دی۔ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گیا۔ 
پاک فوج کی شہادتیں اور خودکش حملوں میں شہید ہونے والے‘ بے گناہ شہریوں کی تعداد ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے شدت پسندوں اور بے گناہوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا اس مسئلے پر اگر اپنے اپنے کیمپ کے شہدا کو بنیاد بنایا جائے تو نتیجہ سوائے ایک بے حاصل‘ بے سود اور تباہ کن جنگ کے اور کچھ نہیں۔ دونوں اطراف سے بے شمار بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ''جس نے ایک بے گناہ کو بھی قتل کیا‘ گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا‘‘۔ ان شہدا کا حساب کون دے گا؟ امریکہ یا طالبان؟ میں پہلے دن سے یہ کہہ رہا ہوں اور آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ یہ جنگ ہماری نہیں امریکہ کی تھی۔ یہ ہمارے سر تھوپی گئی۔ ہمارے حکمران اس جنگ میں مجرم تھے۔ خانہ نمبر دو کے مجرم۔ لیکن اس کا نشانہ تو وہ لوگ بن رہے ہیں جن کا اس سارے فسانے میں‘ ساری خرابی میں‘ سارے فیصلوں میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ راہ چلتے‘ نماز پڑھتے اور عید ملتے ہوئے میرے اور آپ کے بھائی۔ 
بات چیت اور مذاکرات کے عمل میں فریقین معاملات کو روک کر‘ وقتی طور پر ہی سہی‘ مگر معاملات کو دوطرفہ طور پر روک کر میز پر بیٹھتے ہیں۔ کامیابی یا ناکامی تک‘ اگلا فیصلہ میز سے اٹھنے کے بعد ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے۔ مذاکرات یک طرفہ اقدامات سے شروع نہیں ہوتے خاص طور پر جب اعتماد کی کمی چھوڑ‘ اعتماد کا نام و نشان تک موجود نہ ہو۔ طالبان نے مذاکرات کا تو امکان ہی سرے سے رد کردیا۔ بات چیت کا دروازہ یکسر بند کرنے کا اعلان کردیا۔ ملا فضل اللہ نے بھرپور طاقت سے پاک فوج اور بے گناہ معصوم شہریوں کو پوری شدت سے نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مسجدوں میں وہ نمازی جو دلی طور پر طالبان کے حامی تھے وہ بھی ان شہداء میں شامل ہیں۔ جب ایک فریق صرف بندوق اور بارود کی زبان میں بات کرے۔ مذاکرات کو خارج ازامکان قرار دے دے‘ اس کے حامیوں کے پاس کوئی ضامن ہو نہ کوئی گارنٹی دینے والا۔ کوئی شخص مذاکرات کا بیڑہ اٹھانے پر تیار نہ ہو؛ حتیٰ کہ کوئی ان سے براہ راست رابطے کا بھی دعویدار نہ ہو‘ بھلا مذاکرات کیسے اور کس سے کیے جا سکتے ہیں؟ 
عجب انصاف ہے؟ امریکہ کا حمایتی اور حاشیہ بردار پاکستان تو راندہِ درگاہ ٹھہرا۔ پاک فوج دشمن اور واجب القتل قرار پائی۔ اس امریکی جنگ کے حامی تو ایک طرف رہے مخالف شہری بھی خودکش دھماکوں کا شکار ٹھہریں اور امریکہ بہادر کے مزے ہیں۔ اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اصل مجرم بری قرار پایا اور خانہ نمبر دو کا ملزم تمام تر سزا کا حقدار ٹھہرا۔ روسی ریاستوں اور خلیجی ممالک کے سارے ''مجاہدین‘‘ کو کفر کا گڑھ صرف پاکستان معلوم ہو رہا ہے۔ امریکہ کے اڈے‘ سی آئی اے کے علاقائی ہیڈکوارٹر اور امریکی حاشیہ بردار حکمران۔ سب ان کے اپنے ممالک میں ہیں اور وہ پاکستان کو امریکی جنگ کی حمایت کا مجرم قرار دے کر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلمان کا مسلمان پر خودکش حملہ قطعاً حرام ہے‘ خواہ جواز کچھ بھی ہو۔ 
ڈرون حملے یقیناً ایک ناقابل معافی جرم ہے اور یہ نہ صرف بند ہونے چاہئیں بلکہ پاکستان کو اس امریکی جنگ سے بھی نکلنا چاہیے مگر اس کا طریقہ کار وہ نہیں جو شدت پسند اور دہشت گرد اپنا رہے ہیں۔ انہی کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں کل کلاں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور یہودی میڈیا کے پراپیگنڈے کے زور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کا خوف پیدا کر کے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ طالبان بلکہ یوں کہیں کہ پاکستانی طالبان اس طرح امریکہ کو نقصان پہنچانے کے بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں جو بلاواسطہ طور پر امریکہ ا ور بھارت کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔ پی سی اورین جہازوں کی تباہی‘ کامرہ ائیربیس پر اواکس کی بربادی‘ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو صرف اور صرف بھارت کے لیے خطرہ تھیں اور تباہ و برباد کردی گئیں۔ 
کوئی ہے جو مذاکرات کی ذمہ داری لیتا ہو؟ عمران خان؟ طالبان کے روحانی باپ‘ سید منور حسن یا مولانا فضل الرحمن؟ حکومت کا خلوص مشکوک سہی مگر اسے تو تب آزمائیں جب فریق ثانی مذاکرات پر تیار ہو۔ مذاکرات کے لیے دوسرے فریق کا ہونا پہلی شرط ہے ایک فریق کبھی مذاکرات نہیں کر سکتا۔ مجھے کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ ملا فضل اللہ کی تعیناتی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ مذاکرات طالبان کی شرطوں پر نہیں ہو سکتے۔ ان کا تو کہنا ہے کہ جیلوں میں بند دہشت گرد رہا کر دیے جائیں۔ قبائلی علاقوں سے فوج واپس چلی جائے اور یک طرفہ جنگ بندی کردی جائے؛ تاہم ہمارے حملے جاری رہیں گے کیونکہ پاکستانی حکومت مذاکرات کے لیے مخلص نہیں ہے۔ کوئی اس جنگ بندی کا ضامن ہے؟ 
جب تک طالبان کو مسکت جواب نہیں دیا جاتا وہ مذاکرات پر نہ تو راضی ہوں گے اور نہ آمادہ۔ پہلے آپریشن اور پھر مذاکرات۔ یہی اس مسئلے کا منطقی حل ہے اور اس حل تک میرے جیسے شخص کو لانے کا سہرا کسی اور کے سر نہیں خود طالبان کے سر ہے۔ یہ میری ذاتی سوچ اور رائے ہے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں اور بُرا بھلا کہنا تو قطعاً ضروری نہیں ہے۔ غلط یا صحیح ہونا بالکل علیحدہ چیز ہے اور کنفیوز ہونا ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ مجھے کوئی کنفیوژن نہیں۔ کسی کے بارے میں بھلا میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میرا تو اپنا کنفیوژن بڑی مشکل سے ختم ہوا ہے‘ کسی کا کنفیوژن اگر ختم ہونے میں نہیں آ رہا تو اس کا ملبہ وہ اس عاجز پر تو نہ ڈالے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں