"KMK" (space) message & send to 7575

کوئٹہ: کل اور آج

میں سال میں کتنے مشاعرے پڑھتا ہوں‘ اب میں نے اس کا حساب رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کہاں کہاں پڑھتا ہوں یہ یاد رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ مشاعرے اور سفر‘ میری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ میں مشاعرے پڑھتا ضرور ہوں مگر ان پر لکھتا کم کم ہوں۔ بلکہ بہت ہی کم۔ شروع شروع میں بعض مشاعرہ منتظمین مجھ سے یہ امید رکھتے تھے کہ میں اگلے روز ان کے مشاعرے کا ذکر اپنے کالم میں کروں گا لیکن میں نے مشاعرے اور کالم کو ممکنہ حد تک علیحدہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کالم پڑھنے والوں کی امانت ہے اور مشاعرہ میرا اور میرے سامعین کا باہمی معاملہ ہے۔ لہٰذا میں مشاعرے اور کالم کو حتیٰ الامکان حد تک ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کبھی منتظم نے خود ایسی فرمائش کی تو میں نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ آپ نے مجھے مشاعرے میں بطور شاعر بلایا تھا اور بحیثیت شاعر میں نے نہ صرف یہ کہ آپ کا مشاعرہ پڑھ دیا ہے بلکہ بہت خوب پڑھ دیا ہے۔ میرا آپ سے یہی معاملہ طے پایا تھا اور میں نے یہ معاملہ بخیر و خوبی نبھا دیا ہے۔ میرے کالم کا آپ کے مشاعرے سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا آپ مجھ سے صرف مشاعرے کی بابت بات کریں اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے تو فرمائیں؟ 
لیکن یہ بھی نہیں کہ مشاعرے پر لکھنا کوئی شجر ممنوعہ ہے۔ میں اگر مشاعروں پر لکھنا شروع کردوں تو سال میں درجنوں کالم ''بھگتائے‘‘ جا سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ شاید سال میں ایک دو کالم ایسے ہوتے ہیں جو مشاعروں سے متعلق ہوتے ہیں لیکن ان کالموں کی وجہ محض مشاعرہ ہونا نہیں بلکہ کچھ مختلف ہونا ہے۔ میرا مطلب ہے کچھ مختلف قسم کا مشاعرہ ہونا۔ عام مشاعروں سے ہٹ کر اور مختلف۔ جس میں کوئی خاص بات ہو۔ ایسی بات جو نہ صرف اسے عام مشاعروں سے ممتاز کرے بلکہ مشاعر ے کے سامعین کے علاوہ کالم کے قارئین کے لیے بھی اس میں کچھ دلچسپی ہو۔ معاملہ مشاعرے سے نکل کر عام آدمی تک پہنچتا ہو۔ سال میں ایک دو مشاعرے ایسے آ جاتے ہیں جو مشاعرے سے بڑھ کر کچھ ہوتے ہیں۔ ان مشاعروں سے جڑی ہوئی کچھ چیزیں‘ کچھ باتیں اور واقعات۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں ہونے والا مشاعرہ بھی ایسا ہی تھا۔ روٹین کے مشاعروں سے ہٹ کر اور مختلف۔ 
جب کبھی کوئٹہ کا سوچتا ہوں تو یادیں‘ حسین یادیں قطار اندر قطار ذہن میں آتی ہیں۔ ایک پرامن اور خوبصورت شہر۔ پاکستان کا ایسا شہر جس کی مثال نہیں تھی۔ ایرانی اور دیگر غیر ملکی اشیا سے بھری ہوئی دکانیں۔ مہمان نواز پشتون اور ہنس مکھ ہزارہ دکاندار۔ امن و امان اور سکون کا یہ عالم کہ بے فکری سے جہاں چاہیں چلے جائیں۔ مجھے یاد ہے میں شاید نویں جماعت میں پڑھتا تھا جب مجھے ملتان سے کوئٹہ ٹرین پر بٹھا دیا گیا۔ میں اکیلا ملتان سے کوئٹہ پہنچ گیا۔ صرف احتیاط یہ بتائی گئی کہ کسی سے کچھ لے کر کھانا نہیں اور ٹرین سے نیچے نہیں اترنا۔ ٹفن میں میرا کھانا تھا اور ایک چھوٹا سا بستر بند تھا جسے رات کو میں نے سلیپر میں اپنی برتھ پر بچھا لیا۔ کوئٹہ سٹیشن پر خالہ آمنہ مجھے لینے آئی ہوئی تھیں۔ خالہ آمنہ میری والدہ کی سہیلی تھیں اور کوئٹہ میں گورنمنٹ ووکیشنل سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں۔ سکول کے ایک کونے میں ان کا گھر تھا۔ سامنے صحن میں خوبصورت درخت‘ عصر کے قریب آنے والے بادل‘ ہلکی ہلکی بوندا باندی‘ جھیل ہنہ کی سیر اور اڑک کے باغات کے کچے پکے انگور۔ ایک اور ہی دنیا تھی جس میں ہم سانس لیتے تھے۔ 
آخری بار میں بذریعہ سڑک کوئٹہ گیا تو بچے ہمراہ تھے۔ ملتان سے فجر کی نماز کے بعد روانگی ہوئی اور ناشتہ فورٹ منرو میں مہتابی جھیل کے کنارے ایک ہوٹل میں کیا۔ وہیں سے دوپہر کا کھانا تیار کروایا اور ہمراہ رکھ لیا۔ فورٹ منرو سے رکنی‘ لورالائی‘ سپیراراغا‘ خانوزئی اور کچلاک کے راستے کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ کئی کئی میل تک آدم زاد نظر نہیں آتا تھا مگر نہ کوئی وسوسہ اور نہ کوئی خوف۔ لورالائی کے بازار میں گھومے اور پھل خریدا۔ بعد میں احساس ہوا کہ سیب خرید کر حماقت کی ہے۔ میری اہلیہ نے سیبوں کے باغ پر نظر پڑتے ہی ایک زوردار نعرہ لگایا۔ سیب! پھر اس نے شور مچا دیا گاڑی روکو! گاڑی روکو! میں نے گاڑی روک دی۔ 
بچے گاڑی سے اتر کر باغ میں چلے گئے۔ سیب چنے جا رہے تھے۔ پیٹیوں میں پیک ہو رہے تھے۔ ایک ٹرک کھڑا تھا جس پر انہیں لادنا تھا۔ باغ کا مالک ایک خوش باش پٹھان تھا۔ بچوں کی خوشی اور حیرانی دیکھ کر مزے لے رہا تھا۔ میری اہلیہ کی سیبوں کو درخت سے توڑنے کی خواہش پر ہنس پڑا اور کہنے لگا۔ بہن! جتنے چاہیں توڑ لیں۔ میری اہلیہ نے چار پانچ سیب توڑ کر اپنا شوق پورا کیا۔ وہ چار پانچ سیب لے کر جب گاڑی کے پاس پہنچی تو وہاں سیبوں کی ایک پیٹی رکھی ہوئی تھی۔ یہ باغ کے مالک کا تحفہ تھا۔ میرے بچوں کے لیے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے لورالائی سے سیب خریدے ہیں مگر وہ نہ مانا اور کہنے لگا لورالائی میں ایسے سیب نہیں ہوں گے جو میرے باغ میں ہیں۔ یہ پیٹی ہم نے کوئٹہ میں دوستوں کو کھلائی۔ راستے میں خانوزئی کے بعد ہم نے ایک گھنے درخت کے نیچے چادر بچھائی اور دوپہر کا کھانا کھایا۔ چکن کڑاہی اور آلو مٹن کے ساتھ لورالائی کے تنور سے لی گئی روٹیاں۔ آج بھی اس کھانے کا مزہ منہ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ 
اب یہ عالم ہے کہ جس دوست کو پتہ چلا کہ میں کوئٹہ مشاعرہ پڑھنے جا رہا ہوں اس نے منع کیا۔ پچھلے سال کوئٹہ جاتے اور بعد میں جشن سبی کے مشاعرے پر جاتے ہوئے بھی دوستوں کا یہی ردعمل تھا۔ مگر میں ہمیشہ ایسے مواقع پر دوستوں کو کہتا ہوں کہ کوئٹہ والے اس صورتحال میں اور ایسے حالات میں جو ہمت کر رہے ہیں ہمیں اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ لکھاری‘ شاعر‘ ادیب اور دانشور ایسے مواقع پر لوگوں کو بڑی نصیحتیں فرماتے ہیں مگر عملی طور پر اس صورتحال میں خود کچھ کرنے کے بجائے صرف دوسروں کی ہمت بندھاتے ہیں۔ میں تو اس صورتحال میں خود کچھ کرنے کا قائل ہوں۔ اہل بلوچستان کی اس ہمت پر انہیں محض خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے اپنا حصہ ڈالنے کا قائل ہوں۔ اہلِ کوئٹہ لسانی‘ نسلی‘ مسلکی اور بے شمار نامعلوم بنیادوں پر کی جانے والی قتل و غارت گری کا شکار ہونے کے باوجود یکجہتی اور ہمت کا جو چراغ روشن کر رہے ہیں ہمیں خود اس میں عملی شرکت کرنی چاہیے۔ دہشت گردی اور خوف کی اس فضا کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ جب ان کی دعوت پر لبیک کہیں گے۔ یہ ہماری طرف سے اہلِ بلوچستان کے لیے یکجہتی اور محبت کا پیغام ہوگا۔ 
کوئٹہ میں ہونے والے مشاعرے کا اہتمام تو حکومت بلوچستان کے تعاون سے ادبی جریدہ ''حرف‘‘، انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان اور کوئٹہ رائٹرز فورم نے کیا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا میلہ سجانے کا سہرا نوید ہاشمی کے سر تھا۔ سیرینا ہوٹل میں ہونے والے اس مشاعرے کو بلوچستان کے ادب کے ماتھے کے جھومر گُل خان نصیر کے نام کیا گیا تھا۔ بلوچی ادب کا ایک ایسا حوالہ جس پر اہلِ بلوچستان ہی نہیں اہلِ پاکستان بھی فخر کر سکتے ہیں۔ یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ شرکاء کے حوالے سے بھی اور شاعروں کے حوالے سے بھی۔ سامعین کے حوالے سے بھی اور منتظمین کے حوالے سے بھی۔ لیکن اس کے لیے ایک پورا کالم درکار ہے۔ اور یہ کالم پرسوں سہی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں