"KMK" (space) message & send to 7575

اک شاعرِ بے بدل‘ جسے ہم بھول گئے

سفر اور مسلسل سفر۔ملتان سے اسلام آباد‘لاہور اور پھر ملتان۔مگر ملتان پہنچ کر بھی سفر ختم نہ ہوا۔ ہوائی اڈے پر برادرم قادر شاہ موجود تھا۔سامان اور مجھے گاڑی میں لادااور وہیں سے محمود کوٹ بلکہ قصبہ گجرات روانہ ہو گئے۔ یہ قصبہ گجرات ضلع مظفر گڑھ میں واقع ہے اور گجرات (اصلی والا) کے مقابلے کی چیز ہے۔سوہنی والا گجرات انسانی سمگلنگ کے حوالے سے مشہور ہے اور مظفر گڑھ والا گجرات تیل چوروں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔سارے قصبے کی خوشحالی اور ریل پیل ''پارکو‘‘کے دم سے ہے۔پارکو یعنی پاک عرب ریفائنری ''مڈکنٹری‘‘یعنی ملک کے وسط میں واقع آئل ریفائنری ہے اور تقریباً ایک لاکھ بیرل یومیہ کی استعداد کار کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی تیل صاف کرنے والی ریفائنری ہے۔یہاں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے پہلے اور دوسرے سال کے ایم بی ایز نے ری یونین کا پروگرام بنایا تھا۔خالد محمود‘چودھری ریاض‘سید عبدالقادر شاہ‘اصغر ندیم‘خواجہ حسن ودود اور یہ عاجز۔میزبان ملک عطاء اللہ تھا۔ پارکو کا جنرل منیجر۔زکریا یونیورسٹی سے پاس ہونے والی اولین کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ سارے دوست برسوں بعد اکٹھے ہوئے تھے۔ اس سارے ہنگام میں دس فروری گزر گئی۔ میرے تو ذہن سے نکل گیا کہ کب دس فروری آئی اور گزر گئی۔ یہ ساری تفصیل اس شرمندگی سے بچنے کی ایک ناکام کوشش ہے جو مجھے لاحق ہے۔ میں اسے بھول گیا جسے فراموش کر دینے پر میں خود دنیائے اردو سے شاکی تھا۔
دس فروری کو جمال احسانی کی سولہویں برسی تھی۔جسے میں بھول گیا۔لیکن مجھ پر ہی کیا موقوف۔ اسے تو اس کی زندگی میں وہ کچھ نہ مل سکا جس کا مستحق تھا اور مرنے کے بعد بھی وہ اس مقام سے محروم رہا جو اس کا حق تھا۔اردو غزل کی تاریخ اور اس کا ذکر‘جمال احسانی کے بغیر نامکمل رہے گا۔ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شاعری‘خصوصاً غزل کو بہت کچھ دیا مگر جواباً دنیا نے انہیں کچھ بھی نہ دیا۔جمال احسانی کی زندگی کیسی گزری ؟یہ ایک المناک اور درد بھری داستان ہے جس کی تفصیلات کے اول تو کالم کا دامن ہی تنگ ہے اور دوسری بات یہ کہ آپ تک اس کی شعری جھلک پہنچانا مقصود ہے نہ کہ آپ کی صبح برباد کرنا۔ مگر صرف دو چھوٹے چھوٹے اقتباسات ۔جمال احسانی کے اپنے قلم سے۔
''جب سے ہوش سنبھالا کسی ذاتی ٹھکانے میں نہ رہا۔عمر عزیز کا اکثر و بیشتر حصہ کرائے کے مکانوں میں گزرا۔لہٰذا مختلف مکانات کے مالکان کے بے جاناز نخرے بھی اٹھانے پڑے۔شاید ہی کوئی محلہ ایسا بچا ہو جہاں گزران نہیں ہوئی۔ کبھی مالک کواپنے مکان کی ضرورت پڑی اور کبھی خود کو کوئی دوسرا سائبان خوش آ گیا۔پورے کراچی میں فیڈرل کیپٹل ایریا سے ڈیفنس کے علاقے تک گھر کا سامان ڈھوتے ڈھوتے ‘ اب تو بچے بھی اکتانے لگے ہیں کہ میں ان بے چاروں کو ایک جگہ ٹک کر رہنے کا گھونسلا بھی فراہم نہ کر سکا‘‘جمال احسانی بالآخر اپنے دفتر میں بیوی بچوں سمیت آبسا‘ یہ جگہ بھی کرائے کی تھی۔ ''یہ خانہ بدوشی کا ایسا اقدام تھا جس نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔نہ آفس میں گھر رہ سکا نہ گھر میں آفس‘کسی دوسرے کرائے کی گنجائش نہ تھی۔کرایوں کے دفتروں اور مکانوں نے آسمان سے ہمکلامی شروع کر دی۔زندگی ایک خانہ بدوش کی مکمل تصویر بن کر رہ گئی۔ آج ادھر تو کل ادھر‘آج یہاں تو کل وہاں۔ آج ڈیپازٹ دینا ہے‘ کل ایڈوانس اور پرسوں ماہانہ کرایہ۔زندگی اس خانہ بدوش کی مثال بن گئی ہے جو سامان سر پر اٹھائے پھرتا ہے۔ خانہ بدوش اور مجھ میں بس فرق یہ ہے کہ اس پر مہینے کی پہلی تاریخ نہیں آتی جبکہ مجھے ہر مہینے یہ انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔‘‘
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کئی شاعر اس مالی تنگی کے ہاتھوں ہمہ وقت شاکی‘دنیا سے ناراض اورعمومی طور پر تلخ بلکہ کڑوے ہو گئے۔لیکن جمال احسانی اس معاملے میں مستثنیات میں سے تھا۔زندہ دل‘خوش باش اور جملے باز۔حتیٰ کہ اپنی تنگی اور مالی پریشانیوں پر ہنسنے والا۔اتنا حوصلہ کم کم ہی کسی میں ہوتا ہے جتنا حوصلہ جمال احسانی میں تھا مگر اس کی شاعری!۔آج صرف اُس کی شاعری‘ صرف ایک کالم میں کیا آ سکتا ہے! آج صرف اڑھائی غزلیں اور کچھ فردیات ۔اسے دیگ سے ایک لقمہ سمجھ کر لطف لیجئے گا۔
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا
جو دل کے طاق میں تونے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارہ کیا
ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا
سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش
افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش
اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش
وہ جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے
ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش
موسم کی گھٹن ہو کہ زمانے کا چلن ہو
سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش
یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں
ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش
اس گھر کی فضا نے مجھے مانا نہیں اب تک
پینتیس برس جس میں گزارے ہیں کم و بیش
فردیات
اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پائوں کی
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
تھکن بہت تھی مگر سایہ شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مراہم سفر چلا جاتا
جمال کھیل نہیں ہے کوئی غزل کہنا
کہ ایک بات بتانی ہے اک چھپانی ہے
تیرا انجام ہوا جو‘ وہی ہونا تھا جمال
اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا
خدا نے خوش مجھے اوقات سے زیادہ کیا
کہ ہاتھ تنگ رکھا اور دل کشادہ کیا
غزل
وہ مثل آئینہ دیوار پھر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا
میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا
وصال و ہجر کے پھل‘دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا
مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں‘ اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا
خط تقدیر کے سفاک و افسردہ صفحے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سرتری تلوار پر رکھا ہوا تھا
فلک نے اس کو پالا تھا بڑے نازو نعم سے
ستارہ جو ترے رخسارپر رکھا ہوا تھا
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں